Sunday, June 2, 2013

Jun2013: Eyes on COAS

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تائید و تاکید
عوام کی اکثریت کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے عام انتخابات کے بروقت اور بہرصورت انعقاد کے حوالے سے ’واضح‘ بیان دے کر بہت سے شکوک و شبہات کا ازالہ کر دیا ہے‘ جس کے بعد ملک میں جمہوریت کا مستقبل زیادہ درخشاں اور محفوظ دکھائی دینے لگا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ سے یہی توقع تھی کہ وہ اپنے منصب سے جڑی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے آئین کی پاسداری کریں گے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کراچی سے خیبر پختونخوا اور افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں سیاسی و انتخابی سرگرمیوں پر دہشت گردوں کے پے در پے حملوں سے ایک ایسا ماحول اور تاثر ابھرا تھا‘ جس میں عام انتخابات کا انعقاد مشکوک دکھائی دے رہا تھا۔ کچھ تجزیہ کار بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعے مایوسیاں پھیلانے میں پیش پیش تھے اور خفیہ اداروں کی رپورٹیں بھی یہی کہہ رہی تھیں کہ گیارہ مئی کے قریب آتے دہشت گرد کارروائیوں میں تیزی آئے گی جن کی وجہ سے عام انتخابات کا انعقاد مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت اور جمہوری عمل کا تسلسل کئی طاقتوں کے مفادات سے متصادم ہے لیکن اگر پیش نظر اجتماعی مفاد ہو‘ بہتر طرز حکمرانی اور بدعنوانی کا خاتمہ مقصود ہو تو اس کی واحد صورت‘ حل‘ تدبیر اور حکمت ایک ایسے نظام کی تسلسل میں ہے‘ جس میں ہر ادارہ آئین کا پابند اور ہر کردار آئین کے تابع فرمان رہے۔

انتخابات کو ملتوی کرنے والی طاقتوں کی پشت پناہی داخلی اور خارجی عناصر کر رہے ہیں جن کا ہدف صرف اور صرف جدت پسند سیاسی جماعتیں ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کچھ طاقتیں پاکستان پر ’انتہاء پسند‘ ملک ہونے کی چھاپ کو مزید گہرا کرتے ہوئے ایک ایسے ملک کی صورت ابھارنا چاہتی ہیں جہاں برداشت نام کی شے کا وجود نہیں! مسئلہ یہ بھی ہے کہ آئندہ برس افغانستان سے امریکہ کی زیرقیادت غیرملکی افواج کا مرحلہ وار انخلأ مکمل ہونے والا ہے اور امریکہ چاہتا ہے کہ وہ باعزت اور محفوظ طریقے سے اپنے فوجی دستے اور سازوسامان واپس لے جائے اور ایسا کرنے کے لئے امریکہ کو پاکستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت کی ضرورت ہے جو اُس کے اشاروں پر ناچے اور خارجہ پالیسی سمیت ملک کی داخلی حکمت عملیوں میں ایسا سخت گیر مؤقف اختیار نہ کرے‘ جو امریکی مفادات سے متصادم ہو۔ جنرل اشفاق پرویز کیابی کے الفاظ اُمید افزأ ہیں‘ انہوں نے کہا ہے کہ ’’ہم اپنے تمام وسائل اور بہتر سے بہتر صلاحیت کے ساتھ آزاد‘ شفاف اور پرامن انتخابات کو یقینی بنائیں گے۔‘‘ قبل ازیں کور کمانڈرز کے ایک اہم اجلاس سے متعلق آنے والی خبروں میں بھی جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملتے جلتے خیالات کے اظہار کا ذکر ملتا ہے۔ عام انتخابات کے نازک مرحلے پر پاک فوج کی جانب سے جس عزم اور تائید کا اظہار کیا گیا ہے‘ جو (یقینی طورپر نہ صرف یہ کہ) جمہوریت کے لئے خوش آئند ہے بلکہ آنے والے دjavascript:void(0);نوں میں سیاسی حکومت اور دفاعی قیادت کے درمیان بہتر تعلقات کا ذریعہ اور وسیلہ ثابت ہوگا۔ ماضی کی سیاسی حکومتوں کا جائزہ لیں تو اداروں کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی اور ایک دوسرے کے کردار کو کماحقہ تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے بڑی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں‘ جن کا فائدہ کسی اور کو نہیں بلکہ صرف اور صرف جمہوری عمل کو پہنچا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے کردہ ناکردہ گناہوں کی فہرست بڑی ہی طویل سہی لیکن مفاہمت کی سیاست اور حکومت کے کلیدی اداروں کو ایک دوسرے قریب لانے میں اُن کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پیپلزپارٹی نے جمہوریت میں جس تحمل برداشت اور احترام کو روش متعارف کرائی ہے‘ اگر وہ جاری و ساری رہتی ہے تو عام انتخابات ہی سب سے بہتر انتقام ثابت ہوں گے۔ انتہاء پسندوں کو اپنے پاؤں جمانے کا موقع بھی اسی وجہ سے ملا کہ حکومتی ادارے آپسی تعلقات میں ایک دوسرے کے بارے تحفظات رکھتے تھے۔

جنرل کیانی نے یوم شہداء کے موقع پر عام انتخابات کے حوالے سے تو بات کی لیکن داخلی امن و امان کے حوالے سے وہ زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ قوم اُن کے اس مؤقف سے بہرصورت اتفاق کرے کہ ’پاک فوج کی کارروائیاں ہماری اپنی جنگ ہے اور ہم کسی ملک کے اشارے پر فوجی کارروائیاں نہیں کر رہے۔‘‘ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے لیکن اس حالت جنگ سے نکلنے کے دونوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ حتیٰ کہ سیاسی جماعتیں بھی کسی ایک حل پر متفق نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دہشت گرد قبائلی علاقوں سے کراچی تک متحد ہیں لیکن حکومتی ادارے اپنی اپنی رائے اور مؤقف رکھتے ہیں۔ حالت جنگ سے نکلنا سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ امن وامان کے قیام کے بناء عام انتخابات سمیت کسی بھی کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment