NAP's 20 points
بیس نکات: نیشنل ایکشن پلان
بیس نکات: نیشنل ایکشن پلان
وزیراعظم میاں نواز شریف نے چوبیس دسمبر دو ہزار چودہ کے روز قوم سے خطاب
میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے ایک جامع ’نیشنل ایکشن پلان (حکمت
عملی)‘ کا اعلان کیا۔ وزیراعظم نے کہا: ’’ہمیں مزید وقت ضائع کئے بناء فوری
عمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔‘‘ اُنہوں نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان
ہونے والے اتفاق رائے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ فیصلہ کن گھڑی ہے جس
میں پاکستان سے عسکریت پسندوں کاخاتمہ کرنے کے لئے یک سو ہونا پڑے گا۔‘‘
انسداد دہشت گردی کے لئے اختیار کی جانے والی قومی حکمت عملی پر اب تک ہوئی پیشرفت کچھ یوں ہے کہ 1: دہشت گردی کے الزامات ثابت ہونے والے ایک سو ایسے مجرموں کو کہ جنہیں سزائے موت دی گئی تھی اُنہیں پھانسی کردیا گیا۔ یاد رہے کہ گذشتہ چار برس کے دوران14 ہزار 115افراد دہشت گردی سے جڑے مقدمات میں ناکافی شواہد کی بناء پر عدالتوں سے بری ہو چکے ہیں جبکہ 10 ہزار 387 دیگر کو عدالتوں نے ضمانت پر رہا کر رکھا ہے۔ تصور کیجئے کہ صرف ایک سو کو پھانسی دی گئی جبکہ 45ہزار 502 یا تو بری ہوگئے یا پھر اُنہیں ضمانت پر عدالتوں نے رہائی دے دی۔ 2: دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی تیزرفتار سماعت کرنے کے لئے فوج کی زیرنگرانی عدالتیں بنائی گئیں۔ نتیجہ: خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ 3: قومی حکمت عملی کے تحت اس بات کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ عسکریت پسنداور مسلح گروہوں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 4: وزیراعظم نے کہا کہ ’’انسداد دہشت گردی کا قومی ادارہ ’نیکٹا (NACTA)‘ کو مضبوط بنایا جائے گا۔‘‘ نیکٹا کو سالانہ 92 ملین (9 کروڑ 20 لاکھ) دیئے جاتے ہیں جن میں سے 6 کروڑ تیس لاکھ روپے عملے کی تنخواہوں و دیگر مراعات کی نذر ہوجاتے ہیں لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 5: ایسی تمام اشاعتوں بشمول اخبارات و جرائد کے خلاف ’سخت کاروائی‘ کی جائے گی جو نفرت انگیز‘ شرانگیز اور مذہبی منافرت پھیلانے والا مواد شائع کرتے ہیں۔ نتیجہ: قصور سے تعلق رکھنے والے قاری ابوبکر کو پانچ سال کی قید سنائی گئی جس نے ایک مجمعۂ عام میں نفرت پھیلانے والی تقریر کی تھی۔ صوبہ پنجاب کی سطح پر نفرت انگیز تقاریر پھیلانے والے 21 افراد کو سزائیں دی گئیں۔ 6: وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ’’عسکریت پسندوں اور اُن کی متعلقہ تنظیموں کو ملنے والے مالی وسائل منجمند کئے جائیں گے۔‘‘ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔7: کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کو نام بدل کر فعال رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 8: قانون نافذ کرنے والی ایک ایسی فورس تشکیل دی جائے گی جو انسداد دہشت گردی کی کاروائیاں کرے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔9: مذہبی انتہاء پسندی اور اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 10: مذہبی مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی اور اُن کے معاملات پر نظر رکھی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 11: عسکریت پسندوں اور عسکریت پسند تنظیموں کے قدکاٹھ میں اضافہ کرنے والی نشرواشاعت پر پابندی عائد کی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 12: قبائلی علاقوں میں انتظامی و ترقیاتی اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔13: عسکریت پسندوں کا باہم مواصلاتی رابطہ درہم برہم کر دیا جائے گا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 14: انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عسکریت پسندی و انتہاء پسندی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور انٹرنیٹ کا منفی استعمال کرنے والوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 15: انتہاء پسندی پھیلانے کی ملک کے کسی بھی حصے میں اجازت نہیں دی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 16:کراچی میں جاری کاروائی کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 17: بلوچستان کی حکومت کو اختیارات دیئے جائیں گے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 18: ایسے عناصر کے خلاف کاروائی کی جائے گی جو فرقہ واریت پھیلاتے ہیں لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 19: افغان مہاجرین کا معاملہ سلجھانے کے لئے جامع حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔ نتیجہ: جب قومی حکمت عملی کا اعلان کیا گیا تو ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 30لاکھ افغان مہاجرین آباد تھے جن میں سے 55 ہزار وطن واپس جا چکے ہیں۔ 20: عدالتی نظام (کرئمنل کورٹ سسٹم) میں اصلاحات لائی جائیں گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔
جنوری 2015ء میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے ایک خصوصی اعلیٰ اختیاراتی ’ایپکس کمیٹیاں‘ بنائی گئیں۔ یاد رہے کہ مجموعی طورپر 15کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ نتیجہ: کوئی حکومتی اعلامیہ جاری نہ ہوسکا۔ کوئی طریقۂ کار وضع نہ ہوسکا۔ ان کمیٹیوں کی کارکردگی پر نظر کون رکھے گا اور جملہ کمیٹیوں کا نگران کون ہوگا‘ اِس بارے میں کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا۔
زمینی حقائق: پاکستان میں سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان فاصلے پائے جاتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ فوج کے انتظامی چھاؤنیوں سے نکل کر عسکریت پسندی کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن سیاست دانوں کو خوف ہے کہ فوج چھاؤنیوں سے نکل کر ملک پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
انسداد دہشت گردی کے لئے اختیار کی جانے والی قومی حکمت عملی پر اب تک ہوئی پیشرفت کچھ یوں ہے کہ 1: دہشت گردی کے الزامات ثابت ہونے والے ایک سو ایسے مجرموں کو کہ جنہیں سزائے موت دی گئی تھی اُنہیں پھانسی کردیا گیا۔ یاد رہے کہ گذشتہ چار برس کے دوران14 ہزار 115افراد دہشت گردی سے جڑے مقدمات میں ناکافی شواہد کی بناء پر عدالتوں سے بری ہو چکے ہیں جبکہ 10 ہزار 387 دیگر کو عدالتوں نے ضمانت پر رہا کر رکھا ہے۔ تصور کیجئے کہ صرف ایک سو کو پھانسی دی گئی جبکہ 45ہزار 502 یا تو بری ہوگئے یا پھر اُنہیں ضمانت پر عدالتوں نے رہائی دے دی۔ 2: دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی تیزرفتار سماعت کرنے کے لئے فوج کی زیرنگرانی عدالتیں بنائی گئیں۔ نتیجہ: خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ 3: قومی حکمت عملی کے تحت اس بات کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ عسکریت پسنداور مسلح گروہوں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 4: وزیراعظم نے کہا کہ ’’انسداد دہشت گردی کا قومی ادارہ ’نیکٹا (NACTA)‘ کو مضبوط بنایا جائے گا۔‘‘ نیکٹا کو سالانہ 92 ملین (9 کروڑ 20 لاکھ) دیئے جاتے ہیں جن میں سے 6 کروڑ تیس لاکھ روپے عملے کی تنخواہوں و دیگر مراعات کی نذر ہوجاتے ہیں لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 5: ایسی تمام اشاعتوں بشمول اخبارات و جرائد کے خلاف ’سخت کاروائی‘ کی جائے گی جو نفرت انگیز‘ شرانگیز اور مذہبی منافرت پھیلانے والا مواد شائع کرتے ہیں۔ نتیجہ: قصور سے تعلق رکھنے والے قاری ابوبکر کو پانچ سال کی قید سنائی گئی جس نے ایک مجمعۂ عام میں نفرت پھیلانے والی تقریر کی تھی۔ صوبہ پنجاب کی سطح پر نفرت انگیز تقاریر پھیلانے والے 21 افراد کو سزائیں دی گئیں۔ 6: وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ’’عسکریت پسندوں اور اُن کی متعلقہ تنظیموں کو ملنے والے مالی وسائل منجمند کئے جائیں گے۔‘‘ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔7: کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کو نام بدل کر فعال رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 8: قانون نافذ کرنے والی ایک ایسی فورس تشکیل دی جائے گی جو انسداد دہشت گردی کی کاروائیاں کرے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔9: مذہبی انتہاء پسندی اور اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 10: مذہبی مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی اور اُن کے معاملات پر نظر رکھی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 11: عسکریت پسندوں اور عسکریت پسند تنظیموں کے قدکاٹھ میں اضافہ کرنے والی نشرواشاعت پر پابندی عائد کی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 12: قبائلی علاقوں میں انتظامی و ترقیاتی اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔13: عسکریت پسندوں کا باہم مواصلاتی رابطہ درہم برہم کر دیا جائے گا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 14: انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عسکریت پسندی و انتہاء پسندی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور انٹرنیٹ کا منفی استعمال کرنے والوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 15: انتہاء پسندی پھیلانے کی ملک کے کسی بھی حصے میں اجازت نہیں دی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 16:کراچی میں جاری کاروائی کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 17: بلوچستان کی حکومت کو اختیارات دیئے جائیں گے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 18: ایسے عناصر کے خلاف کاروائی کی جائے گی جو فرقہ واریت پھیلاتے ہیں لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 19: افغان مہاجرین کا معاملہ سلجھانے کے لئے جامع حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔ نتیجہ: جب قومی حکمت عملی کا اعلان کیا گیا تو ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 30لاکھ افغان مہاجرین آباد تھے جن میں سے 55 ہزار وطن واپس جا چکے ہیں۔ 20: عدالتی نظام (کرئمنل کورٹ سسٹم) میں اصلاحات لائی جائیں گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔
جنوری 2015ء میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے ایک خصوصی اعلیٰ اختیاراتی ’ایپکس کمیٹیاں‘ بنائی گئیں۔ یاد رہے کہ مجموعی طورپر 15کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ نتیجہ: کوئی حکومتی اعلامیہ جاری نہ ہوسکا۔ کوئی طریقۂ کار وضع نہ ہوسکا۔ ان کمیٹیوں کی کارکردگی پر نظر کون رکھے گا اور جملہ کمیٹیوں کا نگران کون ہوگا‘ اِس بارے میں کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا۔
زمینی حقائق: پاکستان میں سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان فاصلے پائے جاتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ فوج کے انتظامی چھاؤنیوں سے نکل کر عسکریت پسندی کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن سیاست دانوں کو خوف ہے کہ فوج چھاؤنیوں سے نکل کر ملک پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)
NAP’s 20 points
ReplyDeleteDr Farrukh Saleem
Sunday, May 31, 2015
On December 24, 2014, PM Nawaz Sharif, in a televised address, announced the National Action Plan (NAP). The PM stated:“We have to act fast and whatever is agreed we have to implement it immediately….this agreement is a defining moment for Pakistan and we will eliminate terrorists from this country.”
Here’s the progress report:
One: Implementation of death sentence of those convicted in cases of terrorism. Progress: Around a hundred people have been hanged. For the record: Over the past four years, 14,115 persons in terrorism-related cases were acquitted and 10,387 were granted bail. Imagine: a hundred hanged, 24,502 acquitted or bailed out!
Two: Special trial courts under the supervision of the army. Progress: Stalemated. Three: Militant outfits and armed gangs will not be allowed to operate in the country. Progress: Status quo.
Four: Nacta, the anti-terrorism institution will be strengthened. For the record: Nacta’s budget stands at Rs92 million a year of which Rs63 million goes into the salaries of the staff. Progress: None. Five: Strict action against literature, newspapers and magazines promoting hatred, decapitation, extremism, sectarianism and intolerance. Progress: Qari Abubakar of Kasur was sentenced to five years’ imprisonment for delivering a hate speech at a public gathering. Reportedly, a total of 21 have been convicted in Punjab.
Six: All funding sources of terrorist and terrorist outfits will be frozen. Progress: Status quo. Seven: Defunct outfits will not be allowed to operate under any other name. Progress: Status quo. Eight: Establishing and deploying a dedicated counterterrorism force. Progress: None. Nine: End to religious extremism and protection of minorities will be ensured. Progress: Status quo.
Ten: Registration and regulation of religious seminaries. Progress: Stalled. Eleven: Ban on glorification of terrorists and terrorist organisations through print and electronic media. Progress: Status quo.
Twelve: Administrative and development reforms in Fata. Progress: None. Thirteen: Communication network of terrorists will be dismantled completely. Progress: Status quo. Fourteen: Concrete measures against promotion of terrorism through internet and social media. Progress: None. Fifteen: No room will be left for extremism in any part of the country. Progress: Status quo.
Sixteen: Ongoing operation in Karachi will be taken to its logical end. Progress: Stalemated. Seventeen: Balochistan government to be fully empowered. Progress: Status quo.
Eighteen: Action against elements spreading sectarianism. Progress: None. Nineteen: Formulation of a comprehensive policy to deal with the issue of Afghan refugees. Progress: An estimated three million Afghan refugees in Pakistan, of which 55,000 have gone back. Twenty: Reforms in criminal courts system. Progress: Zero.
In January 2015, apex committees were formed to expedite the implementation of the National Action Plan. For the record: 15 committees and sub-committees were set up. Progress: No formal notification. No Terms of Reference (TORs). No chain of command.
The ground reality: serious civil-military trust deficit. The ground reality continues to be that our generals do not trust our political leaders and vice versa. The generals are adamant that they have come out of their barracks to fight terror. The political leadership fears that the generals have come out of their barracks to capture their political domains.
December 24, 2014 all the way down to May 31, 2015 – going down the drain, down the drain!
“War does not determine who is right – only who is left” – Bertrand Russell