Thursday, December 24, 2015

Dec2015: Death of nation!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ضمیر کی موت!
توجہ طلب ہے کہ فلم سازی اُور اَداکاری جیسے شعبوں میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے عامر خان نے ایک ایسے مداح (فین) کی جانب سے ملاقات کی خواہش پوری کی ہے جو ’’پروجیریا (قبل از وقت بڑھاپا طاری ہونے)‘‘ کی بیماری (Progeria) میں مبتلا ہے۔ چودہ سالہ نہال نامی بچے نے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ’فیس بک‘ پر اپنے پیغام میں عامر خان سے ملاقات اور اُن کے ساتھ تصویر بنوانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

فیس بک کا یہ پیغام کروڑوں مداحوں سے ہوتا ہوا‘ عامر خان تک بھی پہنچا تو انہوں نے ’’نہال‘‘ کی دلی خواہش بصدشکریہ پوری کردی۔ جس کے بعد نہال نے اپنے پیغام (فیس بک پوسٹ) میں کہا کہ ’’عامر انکل میرا خواب پورا کرنے کے لئے آپ کا شکریہ۔ آپ کی فلم ’’تارے زمین پر‘‘ نے مجھے بہت متاثر کیا اور مجھے یقین تھا کہ ایک دن میں آپ سے ضرور ملوں گا۔‘‘ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ عامر خان کی فلم ’’تارے زمین پر‘‘ کی کہانی ’ایشان‘ نامی ایک ایسے بچے سے متعلق تھی‘ جسے لکھنے بولنے اور سمجھنے میں دقت رہتی ہے۔ آٹیزم (Autism) نامی بیماری سے متاثرہ بچے معاشرے میں تنہائی کا شکار رہتے ہیں‘ جنہیں دیگر بچوں سے زیادہ اور خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت کی فلمی صنعت عشقیہ (رومانس پر مبنی) فلموں سے بھری پڑی ہے‘ عامر خان نے ’دستاویزی اور فیچر فلم‘ کے امتزاج کو اِس خوبی سے پیش کیا کہ آٹیزم سے متاثرہ بچے جنہیں اُن کی پیدائشی کمزوریوں کی وجہ سے معاشرہ سمجھنے سے قاصر چلا آ رہا تھا‘ اُن کے بارے میں بھارت و پاکستان اور جہاں جہاں اُردو بولنے اور سمجھنے والے لوگ بستے ہیں اور انہیں ’تارے زمین پر‘ نامی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ تو وہ جان گئے کہ خصوصی بچوں کا کتنا اور کس طرح و کس قدر خیال رکھنا چاہئے۔ قبل از وقت بڑھاپا طاری ہونے کے مرض میں مبتلا ’’نہال‘‘ کا عامر خان سے ملنے کے بعد یہ بھی کہنا تھا کہ ’’اُس کے اَندر جینے کی نئی اُمید پیدا ہوئی ہے۔‘‘ عامر خان نے فیس بک پر نہال کے ساتھ اپنی تصویر شائع (شئیر) کی اُور انہیں صحت یابی کی دعاؤں کے ساتھ انسانیت دوستی کا ایک ایسا ’’اَن کہا پیغام‘‘ دیا ہے‘ جس کے مطالب و معانی اور پہلوؤں پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عامر خان بھارت کی انتہائی اہم شخصیات (وی وی آئی پیز) کی فہرست میں شامل ہیں لیکن اُنہوں نے اپنی سماجی و مالی حیثیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جس طرح ایک مداح کی خواہش پوری کی ہے‘ اُس سے ظاہر ہوگیا ہے کہ انسانیت پر یقین رکھنے والا کوئی بھی ہوسکتا ہے‘ اُس کا بظاہر مذہبی ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی اُس کے لباس و رہن سہن سے یہ تاثر ملنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کسی مذہب و عقیدے کے تابع سمجھتا ہے۔ کسی ارب پتی‘ معروف فلمی اداکار کا یوں اپنے ایک مداح اور وہ بھی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے بیمار بچے کی عیادت کرنا‘ اُس کی دلی خواہش پوری کرنے کا عمل کتنی اہمیت رکھتا ہے اس بات کو سمجھنے کے لئے اِس مرحلۂ فکر پر رک کر ایک ہی روز یعنی 23 دسمبر کو ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والے اِن دو واقعات کا موازنہ کیجئے۔

 بھارت میں عامر خان ایک بیمار بچے کی عیادت کرنے گئے اور پاکستان میں خناق سے متاثرہ 10ماہ کی بیمار بچی بروقت ہسپتال نہ پہنچنے کے باعث دم توڑ گئی! کراچی شہر کی غریب بستی لیاری کی رہنے والی بسمہ کی سانسیں اکھڑنے لگیں تو والد اُسے موٹرسائیکل پر ’سول ہسپتال‘ لیجانے کے لئے نکلا لیکن جگہ جگہ راستے بند تھے۔ ہسپتال کا شعبہ ہنگامی علاج معالجے کا گیٹ بھی بند پایا گیا۔ سیکورٹی کے فرائض سرانجام دینے والے ٹریفک اور پولیس اہلکاروں کو تشویش و پریشانی سے بھرے چہرے والے موٹرسائیکل سوار کی حالت پر رحم نہ آیا۔ وہ بچی کو ہاتھوں پر اٹھائے ہسپتال کے ایک گیٹ سے دوسرے گیٹ تک چکر لگاتا رہا اور پھر جب کسی طرح بھاگتے بھاگتے ہسپتال میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُس کی بیٹی مر چکی ہے لیکن اگر وہ دس پندرہ منٹ پہلے اُسے طبی امداد دینے کے لئے ہسپتال لے آتا تو اُس معصوم کی زندگی بچائی جا سکتی تھی! ہاتھوں پر بچی کی لاش اُٹھائے فیصل نامی باپ زاروقطار رو رہا تھا اور یہ تماشا دوپہر سے رات گئے تک پوری پاکستانی قوم اور دنیا نجی ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات میں تمام دن دیکھتی رہی۔ ذرائع ابلاغ واویلا کرتے رہے کہ کس طرح ’اہم شخصیات‘ کی سیکورٹی کے نام پر ہسپتال کے اطراف میں شاہراہیں بند کی جاتیں ہیں۔ کس طرح ’اہم شخصیات‘ کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں لیکن بنیادی نکتہ یہ تھا کہ کیا یہ المیہ قوم کے لئے کافی ہوگا کہ دس ماہ کی بچی کی لاش ہاتھوں پراُٹھائے ایک باپ کہہ رہا تھا ’’میری بچی کی حیثیت دو کوڑیوں جیسی (معمولی) ہے۔ اہم تو بلاول زرداری ہے!‘‘ یاد رہے کہ عوام سے وصول کئے گئے ٹیکسوں (محصولات) سے سول ہسپتال کراچی میں ’ٹراما سنٹر‘ بنایا گیا‘ جسے بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب کرنے کے بعد 23دسمبر کے روز اُن کے صاحبزادے بلاول زرداری سے افتتاح کرانے والے سبھی کردار بسمہ کی موت کے لئے ذمہ دار ہیں کیونکہ نام نہاد اہم شخصیات کی حفاظت کے پیش نظر ہسپتال کے اطراف میں راستے بند کئے گئے تھے اور یہ بات سبھی کو معلوم تھی!

کیا بسمہ کی موت کے بعد ’اہم شخصیات‘ عوام کے لئے زحمت بننے کی روش ترک کریں گے؟ کیا قانون ساز ایوانوں میں ’وی آئی پی کلچر‘ ختم کرنے کے لئے غوروخوض ہوگا؟ کیا بسمہ کی موت کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سپرئم کورٹ‘ ہائی کورٹ یا سول سوسائٹی اپنی موجودگی کا احساس دلائے گی؟ کیا 10ماہ کی معصوم بچی کی ہلاکت کو قتل تصور کرتے ہوئے ملوث افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا؟ تیئس دسمبر ہی کی شب وزیراعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ نے مشیر نادیہ گبول کی رہائشگاہ پر غمزدہ باپ سے ملاقات کے دوران اُسے سرکاری ملازمت دینے کی پیشکش اور معاملہ رفع دفع کرنے پر ’رضامند‘ کر لیا لیکن کیا اِس مک مکا سے ’پیپلزپارٹی‘ کی مرکزی قیادت اور سندھ کی صوبائی حکومت کے دامن پر خون کے چھینٹے دھل سکیں گے؟ فرضی و تصوراتی کرداروں کے ذریعے ’انسانیت کے احترام‘ کا سبق دینے والا عامر خان نام نہاد رہنماؤں سے لاکھوں درجے بہتر ہے‘ جسے دوسروں کی دکھ‘ تکلیف اور جذبات کا احساس ہے۔

اتنی اداکاری تو اب فلموں میں بھی نہیں ہوتی‘ جتنی ہمارے سیاستدان کے قول و فعل سے چھلک رہی ہے! 23دسمبر کو بسمہ نہیں بلکہ پاکستانی قوم کے ضمیر کو دفن کیا گیا ہے‘ لعنت ہو جمہوریت کو غلام بنانے والے ایسے نام نہاد رہنماؤں پر اور ایسے استحصالی نظام پر جس میں عام لوگ (ہم عوام) کیڑے مکوڑوں کی طرح روندے اور کوڑیوں کے مول خریدے جا رہے ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment