Thursday, December 24, 2015

Dec2015: Message of Eid e Milad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پیغام عید!
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری دنیا میں ظہور سے منسوب ’ماہ ربیع الاوّل‘ کی بابرکت ساعتوں میں اُس پیغام اور تعلیمات کے متن نہیں بلکہ روح کو پیش نظر رکھیں‘ جس کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ حیات انسانی کے ہر گوشے کے لئے اگر کوئی اُسوہ بطور ’نمونہ‘ موجود ہے‘ تو وہ صرف اُور صرف (لامحالہ) ذات نبوی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات وتعلیمات میں امن وسلامتی کا عملی درس ہر انسان کی عملی زندگی میں رہنمائی کے لئے کافی ہے۔
امن‘ امان‘ سلامتی ایسے الفاظ ہیں جن کو ہر کوئی پسند کرتا ہے۔ ہر فرد بشر کی خواہش ہوتی ہے کہ اِن کے مطالب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سکون و چین کی زندگی بسر کرے لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا جب اعلان ہوا تواس وقت کے معاشرے میں یہ الفاظ اپنے معانی سے عاری ہو چکے تھے‘ الفاظ تو تھے لیکن معانی کا کہیں وجود نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ شانہ سبحانہ‘ نے انسانیت پر رحم فرمایا اور ہدایت کے لئے نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ اب کیا تھا جہاں جنگل کا راج تھا وہاں امن و امان کی فضا چھا گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف صلح و آشتی اور امن کا آوازہ بلند ہونے لگا۔ اسلام کے لفظ ہی سے سلامتی ٹپکتی ہے اور ایمان کے مادہ ہی سے امن و امان رستا ہے۔ اسلام کی ہر تعلیم امن کی مظہر اور ہرمسلم سلامتی کا پیام بر ہے۔ باوجود اس کے انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ دشمنان اسلام نے مختلف روپ دھار کر تعلیمات اسلام کو امن مخالف بلکہ دہشت گردی کو فروغ دینے والا مذہب قرار دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا۔ مسلمانوں کی منظم کردار کشی اور اسلام سے باطل نظریات منسوب کرنے والوں کے عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اِن سازشوں کا مقابلہ صرف اور صرف ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لگاؤ اور اُن کی تعلیمات پر عمل سے ممکن ہے۔

باریک بینی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شریعت میں دو اصطلاحات ہیں‘ اسلام اور ایمان۔ ایک کا مادہ ’’سِلم‘‘ہے اور دوسرے کا ’’امن‘‘ اور ان دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی ’ امن وسلامتی۔‘ اسی طرح مسلمانوں کے تعارف کے لئے بھی دو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں: ’مسلم‘ اور ’مومن‘ جو پہلے دو لفظوں ہی سے مشتق ہیں اور ان کے معنی امن وسلامتی کے ہیں۔ اسی طرح جو شخص خود اپنی اور دوسروں کی سلامتی چاہتا ہے وہ مسلمان ہے اور جو خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے امن چاہتا ہے وہ مومن ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان اور مومن کی وضاحت اس طرح فرمائی تھی۔ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں اُور مؤمن وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کا جان و مال امن و عافیت میں رہے۔‘‘ پر امن بقائے باہم کے سلسلے میں قرآن کی ہدایات نہایت صاف اور واضح ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ان کے خداؤں کو برا مت کہو نہیں تو وہ بھی نادانی اور دشمنی میں اللہ کو برا کہیں گے۔‘‘ اِس سے بڑھ کر پر امن بقائے باہم کی تعلیمات اور کیاہوسکتی ہیں؟ قرآن حکیم کی آیت کا مفہوم و ترجمہ ملاحظہ کیجئے کہ ’’جس کسی نے کسی بھی انسان کو بلاوجہ قتل کیا یا فساد پیدا کرنے کا محرک و سبب بنا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کر ڈالا اور جس نے کسی ایک بھی انسان کی زندگی بچالی تو گویا اُس نے پوری انسانیت کی زندگی بچائی۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی 23سالہ نبوی زندگی میں ہر شعبے اور ہر فرد کے لئے مکمل اور جامع اسوہ چھوڑا۔ قرآن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنی نوع انسانیت کے لئے رحمۃ للعالمین قرار دیتا ہے۔ (وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین) پھر آپ کو پوری انسانیت کے لئے قابل تقلید بنا کر پیش کرتے ہوئے آپ کو بہترین نمونہ قرار دیتا ہے: ’’لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنا۔‘‘ حدیث مبارکہ ہے: ’’سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر طریقہ زندگی محمد کا طریقہ ہے‘‘ (صحیح مسلم)۔ لہٰذا مسائل ومصائب کی ماری اضطراب اور بے چینی میں مبتلا دنیا کو اگر کہیں راحت مل سکتی ہے تو وہ صرف محسن انسانیت کا اسوہ ہے جنہوں نے انسانیت کے احترام کو ہر شے سے بالا و برتر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے‘ اُور اُس کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب شخص وہ ہے جو اِس کنبہ کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہے۔‘‘

No comments:

Post a Comment