Saturday, February 20, 2016

Feb2016: Technical Corruption in KP

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تکنیکی مسائل!
ٹیکنالوجی کے اِستعمال اُور اِستفادہ کرنے کے ’نشوونما‘ پاتے رجحان نے جہاں روزمرہ زندگی کو آسان لیکن اِس قدر مصروف بنا دیا ہے کہ ایک ہی گھر‘ خاندان‘ محلے‘ علاقے یا شہر کے لوگوں کو آپس میں بالمشافہ تبادلۂ خیال کی فرصت نہیں رہی تو دوسری جانب ایک جیسی دلچسپیاں یا مشاغل رکھنے والوں کو ایسا پلیٹ فارم بھی فراہم کردیا ہے جہاں اظہار کی اِس قدر آزادی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہی وہ محل ہے جہاں ٹیکنالوجی کے حسب حال و ضرورت استعمال کا مشورہ ضرورت بن جاتی ہے۔ نئی نسل کے لئے چمکتی دمکتی ٹیکنالوجی میں کشش کو فکری سمت (قبلہ) دینا وقت کا تقاضا ہے اُور سب سے بڑھ کر ٹیکنالوجی کو ’بہتر طرز حکمرانی‘ کی داغ بیل ڈالنے جیسے عظیم مقصد اُور اِس کے ذریعے ’طرز حکمرانی‘ پر آنے والے اخراجات کم کرنے جیسا ہدف بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان کی جملہ سیاسی جماعتوں میں ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی قیادت سب سے زیادہ ’ٹیکنالوجی دوست‘ ہے اور اسی وجہ سے توقعات بھی تحریک انصاف ہی سے وابستہ ہیں کہ وہ ٹیکنالوجی کی آڑ میں ہونے والی بدعنوانی کے امکانات ختم نہیں تو کم ضرور کرے گی۔ حکمرانی کی اصلاح سے لیکر عام انتخابات کے شفاف انعقاد اور سرکاری اداروں کا قبلہ درست کرنے کے لئے مشینوں پر زیادہ بھروسہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ ماضی کی سیاسی جماعتوں نے اصلاح کرنے کی کوشش نہ کی ہو‘ بلکہ ہوا یہ ہے کہ اصلاح کی کوششیں ناکام بنانے والے زیادہ شاطر نکلے! چونکہ ٹیکنالوجی کا اپنا کوئی دماغ نہیں ہوتا لیکن اگر اِس سے کوئی مثبت کام لینے کی خوٓہش ہو تو بس یہی پائیدار حل ہے۔ ’کم خرچ بالا نشین‘ ہونے کی بجائے ہمارے ہاں ٹیکنالوجی غیرضروری طور پر مہنگے داموں خریدی جاتی ہے۔ سرکاری محکموں کا مزاج بن چکا ہے کہ وہ کسی معمولی سی ضرورت کے لئے اس قدر تیزرفتار کمپیوٹر اُور اُس سے متعلق دیگر آلات خریدتے ہیں جس سے سوائے پیسے کے ضیاع کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

سیاسی حکومتوں کی اپنی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔ اُن کے انتخابی منشور گلے کا پھندہ نہ بنیں‘ ایسی کسی شرمندگی سے بچنے کے لئے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ’نیک نامی‘ کمانے کے علاؤہ ایسے اقدامات سے بھی حتی الوسع گریز کیا جاتا ہے جو بددیانتی و بدعنوانی کے زمرے میں شمار ہوں۔ خیبرپختونخوا کی موجودہ حکومت کا ٹیکنالوجی کی جانب رجحان دیکھتے ہوئے ’خالصتاً کاروباری سوچ رکھنے والے طبقات‘ ایسے سرکاری آفیسرز کو اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں‘ جنہیں فیصلہ سازی کا منصب تو عطاہو جاتا ہے لیکن انہیں یہ بات تسلیم کرنے میں عار ہوتی ہے کہ ’’وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتے!‘‘ سردست فوری ضرورت اِس امر کی ہے کہ ٹیکنالوجی کی خریداری کے لئے ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے موجود محکمے پر چند کالی بھیڑوں کی اِجارہ داری ختم کی جائے اُور اِس کے بعد ٹیکنالوجی کی ہرضرورت چاہے وہ کسی بھی صوبائی محکمے کی ہو‘ اِسی محکمے کے ذریعے ہو تو کروڑوں نہیں بلکہ سالانہ اربوں روپے کی بچت کی جاسکتی ہے۔

کسی سرکاری محکمے کی ٹیکنالوجی ضروریات کا تعین بھی ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے محکمے ہی کو کرنی چاہئے تاکہ غیرضروری الیکٹرانک آلات کی خریداری میں عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ضائع نہ ہو۔ اس سلسلے میں ایک مثال دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ چند برس قبل پشاور یونیورسٹی کے ایک ڈیپارٹمنٹ نے کمپیوٹرز کی خریداری کا ٹینڈر دیا۔ جس کی کاغذی کاروائی اور آلات کی فراہمی میں چھ مہینے کا وقت لگ گیا۔ ٹینڈر جاری کرتے ہوئے آلات کی قیمت چھ ماہ بعد کم و بیش پچاس فیصد کم ہو چکی تھی لیکن چونکہ سرکاری فائلوں میں ایک قیمت درج تھی اِس لئے مارکیٹ ریٹ سے مہنگے داموں کمپیوٹر خریدے گئے اور اِس سودے میں خزانے کو کم سے کم ایک کروڑ روپے کا ٹیکہ لگا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک کروڑ روپے آلات فراہم کرنے والے نجی ادارے نے اکیلے ہضم نہیں کئے بلکہ کئی کردار اِس سے مستفید ہوئے اور یہ طریقۂ واردات (سلسلہ) آج بھی جاری ہے کہ 1: سرکاری محکمے اپنی حقیقی ضرورت کے مطابق ٹیکنالوجی کا انتخاب نہیں کرتے۔ 2: ٹیکنالوجی خریدنے کے لئے جاری ہونے والے ٹینڈر اور آلات کی فراہمی کے عمل میں ایک سے تین ماہ کا وقت لگ جاتا ہے جبکہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں پچاس فیصد تک کم ہو جاتی ہیں۔ 3: مقامی طور پر تیار ہونے والے آلات پر غیرملکی ہونے کے لیبل لگا کر اُنہیں فراہم کرنے کا معمول ایک الگ نوعیت کی بدعنوانی ہے‘ جو دھوکہ دہی کے زمرے میں بھی آتی ہے اُور اِسی کی بنیاد پر پشاور میں کئی ایک ایسے ٹیکنالوجی فراہم کرنے والے کاروباری ادارے ہیں جن کے مالکان راتوں رات کروڑ پتی بن گئے ہیں! 4: ٹیکنالوجی کی خریداری اور دیگر ضروریات کے لئے الگ الگ قواعد و ضوابط تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ 5: ٹیکنالوجی خریدنے سے قبل اُس کے استعمال و دیکھ بھال کے لئے تربیت یافتہ عملہ یا عملے کی تربیت کا انتظام لازمی طورپر ہونا چاہئے۔ 6: ٹیکنالوجی کی گارنٹی (بعدازفروخت سروس) رکھنے والے نجی اداروں سے خریداری کی جائے۔7: ٹیکنالوجی کی فراہمی کرنے والے اداروں کی رجسٹریشن کا طریقۂ کار نظرثانی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زیرنگرانی ہونا چاہئے۔

مثال ملاحظہ کیجئے کہ ’’کور آئی سیون‘ فورتھ جنریشن کے تھری پوائنٹ سیکس (3.6) رفتار والے پراسیسر کی مارکیٹ میں فی لیپ ٹاپ قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے ہے جبکہ تھری پوائنٹ ٹو (3.2) رفتار والے پراسیسر کا لیپ ٹاپ صرف پچانوے ہزار روپے میں مل جاتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص ’سٹاپ واچ‘ لگا کر بھی جائزہ لے تو تین اعشاریہ چھ اور تین اعشاریہ دو والے لیپ ٹاپ کی رفتار میں فرق معلوم یا ثابت نہیں کرسکے گا۔ دونوں کی رفتار میں پوائنٹس کا ردوبدل لیکن قیمت میں تیس سے چالیس فیصد اضافی فرق لائق توجہ ہے اور ایسی کئی ایک تکنیکی باریکیوں کے بارے میں نہ تو اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو خاطرخواہ علم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ دردمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ پیسہ قومی خزانے سے ادا ہو رہا ہوتا ہے کسی کی ذاتی جیب سے نہیں۔ امانت و دیانت کے دھندلے تصورات والے معاشرے میں جہاں سرمائے‘ اختیارات اُور سرمائے کی بنیاد پر سماجی حیثیت کو دل سے قبول کر لیا گیا ہو‘ وہاں سرکاری وسائل کے غیرمحتاط استعمال یا مالی و انتظامی بدعنوانیوں جیسی خرابیوں کی گنجائش پر تعجب کے اظہار سے زیادہ تعجب اُس سوچ پر ہونا چاہئے جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی بجائے آلودگیوں سے کراہت کی تبلیغ کر رہی ہے!

No comments:

Post a Comment