Sunday, April 24, 2016

APR2016: Cyber Crimes

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قانون کی زد۔۔۔!
بس اسی بات کی کمی رہ گئی تھی کہ پاکستان میں ایسے سائبر قوانین لاگو کر دیئے جائیں جن کے حوالے سے تنقید و تجاویز اور ترامیم اِس بات کی گواہی ہیں کہ بیس اپریل کو قومی اسمبلی کا منظور کردہ ’’پاکستان الیکٹرانک کرائمز بل 2015ء‘‘ متنازعہ و اختلافی ہے۔ تصور کیجئے کہ مجوزہ قانون کی منظوری و شفافیت اور اس کی منظوری میں جملہ قانون سازوں کی دلچسپی اس قدر تھی کہ تین سو بیالیس اراکین کے ایوان میں سے صرف تیس اراکین حاضر تھے جنہوں نے منظوری دی اور اب جبکہ یہ قانون پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں سے منظور ہو چکا ہے‘ تو ابتدائی طور پر تجویز کی گئی چند سخت ترین سزاؤں اور شقوں میں ردوبدل کے علاؤہ بھی بہت کچھ ایسا ہے جس کا نہ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے بلکہ عام لوگ بوساطت وکلأ غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ ایسا قانون جس میں آزادئ اظہار اور اختلافِ رائے کو دبانے اور آگہی کی کمی کی وجہ سے سرزد ہونے والے اقدامات کو طویل قید اور بھاری جرمانے عائد کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہو!

مختلف مراحل میں سائبر کرائمز بل پر جو تنقید سب سے زیادہ ہوئی ہے‘ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بل ایسے افراد نے تحریر کیا‘ جو خود ’’ڈیجیٹل (سائبر) دنیا‘‘ کی اونچ نیچ اور حقائق سے لاعلم ہیں یا خاطرخواہ گہرائی سے اِس کے بارے میں نہیں جانتے! جیسا کہ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے توجہ دلائی کہ بل کی شق نمبر بائیس کے تحت اسپیمنگ‘ یعنی ’’وصول کنندہ کی مرضی کے بغیر اسے کوئی پیغام بھیجنا‘‘ قانون کی رو سے جرم قرار دیا گیا ہے۔ یوں تو شق میں ترمیم کے بعد کچھ بہتری آئی ہے مگر اب بھی صرف ایک ٹیکسٹ میسج (موبائل فون پر مختصر پیغام جسے عرف عام میں ’ایس ایم ایس‘ کہا جاتا ہے) بھیجنے کی سزا تین ماہ قید تک دی جاسکتی ہے۔ کیا پاکستان کا ہر شخص اِس قدر سخت سزا اُور وہ بھی ایس ایم ایس کی وجہ سے مقرر ہو کے بارے میں جانتا ہے؟ بل میں پیش کی گئی مختلف چیزوں کی تعریفیں مبہم ہیں مگر ان کی سزائیں سخت رکھی گئی ہیں اور یہ بھی کہ اس جملے سے آخر کیا مطلب اخذ کیا جائے کہ ’’منفی مقاصد کے لئے ویب سائٹ قائم کرنے پر‘‘ کسی شخص یا ادارے کی صورت اُس کے سربراہ کو تین سال قید اور بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔ آخر یہ ’’منفی مقاصد‘‘ کا مطلب کیا ہے اور اِس میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نفرت انگیز تقاریر و بیانات چاہے آن لائن ہوں یا آف لائن پاکستان کا سلگتا ہوا (حقیقی) مسئلہ ہے لیکن کیا دیواروں پر وال چاکنگ سے سائبر اور موبائل فون تک اس منفی رجحان کو ختم کرنے کا صرف یہی ایک حل باقی بچا تھا؟ کیا کوئی بھی شخص جو یہ جانتا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں اختلافِ رائے کا گلا کس طرح گھونٹا گیا تھا‘ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ مذہب یا فرقے کی بنیاد پر تنازعات پیدا کرنے اور نفرت پھیلانے کا دائرہ کار اتنا وسیع ہے کہ کسی چیز کے نفرت انگیز ہونے یا نہ ہونے کی غلط تشریح بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔

 اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کو سائبر سرگرمیوں کو ضوابط میں لانے کے لئے ایک ’’فریم ورک (ضوابط)‘‘ درکار ہے کیونکہ ہم ایسے ملک میں ہیں جہاں ٹیکنالوجی کا غلط استعمال عسکریت پسندی اور دہشت گردی سے لے کر افراد کی نجی زندگی میں مداخلت یعنی ذاتی معلومات کی چوری‘ بلیک میلنگ اور مال و زر تک رسائی (اکاؤنٹ ہیکنگ) تک کئی ایسے عوامل ہیں جن کا راستہ روکنا ہوگا لیکن آن لائن دنیا پر ضوابط عائد کرنے میں پاکستان کا سابقہ ریکارڈ اب تک کچھ خاص نہیں رہا اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکام کی آن لائن دنیا کے بارے میں فہم و فراست واجبی ہے جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ ’’یوٹیوب‘‘ پر پابندی عائدکی گئی اور پھر سالہا سال بعد خاموشی سے پابندی ہٹا بھی دی گئی جبکہ متنازعہ مواد (اصل سبب اور جواز) وہیں کا وہیں موجود ہے! قانون سازوں کو یوں تو ہر شعبے سے متعلق قانون مرتب کرتے ہوئے بہت سوچ بچار کرنی چاہئے لیکن جہاں تک سائبر کرائمز کا تعلق ہے تو یہ قانون سازی کو اتنا آسان نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ اس سے عام لوگوں کی زندگیاں اور بالخصوص ذرائع ابلاغ کے اداروں اور نمائندوں کے لئے پہلے ہی سے موجود مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment