Sunday, June 5, 2016

TRANSLATION: Budget

Budget
بجٹ
یہ ایک معقول بجٹ ہے کیونکہ ہم پوری کی پوری حکومتی مشینری کا جائزہ لیں تو کسی بھی ادارے کی یہ استعداد نہیں رہی کہ وہ اپنی اصلاح کرسکے۔
کسی بھی ملک کا بجٹ دو چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اُس کی آمدنی اور اُس کے اخراجات کا میزانیہ۔ ہماری ضرورت نہ صرف آمدن کی بلکہ اخراجات کی بھی اصلاح کرنا ہے اور اگر ہم اصلاحات نہیں لاتے تو مسائل و مشکلات اور بحران کم نہیں ہوں گے۔ محاورہ ہے کہ اگر آپ کہیں بھی جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تو سفری وسائل کا ہونا کافی نہیں ہوتا۔ اِس محاورے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا قومی بجٹ حساب کتاب کرنے کی ایک روایت اور اچھی مشق ہے جو ہرسال کی طرح ایک مرتبہ پھر دہرائی گئی ہے۔

بجٹ تیار کرنے کا سہرا ’وزارت خزانہ‘ کو جاتا ہے جنہوں نے آٹھ برس میں بلند ترین قومی پیداوار حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ افراط زر کو دس برس کی کم ترین شرح پر ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر بھی ماضی کے مقابلے زیادہ بلکہ ریکارڈ زیادہ ہیں۔ ٹیکس کی وصولی میں بھی بے پناہ کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان گذشتہ چالیس سال میں سب سے کم ترین شرح سود کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کاہدف مسلسل تیسری مرتبہ بھی حاصل نہیں کیا جاسکا۔گذشتہ پچیس برس میں زرعی پیداوار کم ترین سطح پر ہے جبکہ پاکستان کی برآمدات اور پاکستان میں سرمایہ کاری جیسے اہم شعبوں میں خطرناک حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

قومی بجٹ صرف حساب کتاب کی مشق ہی نہیں ہونا چاہئے۔ وزارت خزانہ سمیت دیگر حکومتی اداروں کو بھی نہ صرف پاکستان کی موجودہ بلکہ مستقبل کی ضروریات کا بھی ادراک ہونا چاہئے اور پھر اِنہی ضروریات کے مطابق ایک ایسا بجٹ تشکیل دینا چاہئے جس سے قومی ترقی و بہود کے اہداف حاصل کرنا ممکن ہو سکے۔ ہمارے اہم ترین ضرورت ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنا تھا یعنی ہر سال پندرہ لاکھ نئی ملازمتیں۔ پاکستان کی آنے والی نسلوں کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ ہم کم سے کم قرضوں کا بوجھ چھوڑیں لیکن بجٹ 2016-17 اِن تمام ضروریات کا احاطہ نہیں کرتا۔

اگر حکومتی ادارے اپنی اصلاح نہیں کر رہے تو اس کے لئے یکساں ذمہ دار حزب اختلاف کے اراکین بھی ہیں جو بالکل بھی اپنا کردار چاہے وہ جو بھی ہے ادا نہیں کر رہے۔ یہ بات ریکارڈ پر رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو بجٹ میں ٹھوس اصلاحات کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ گذشتہ برس تحریک انصاف نے بھی اسی قسم کی ایک کوشش کی تھی لیکن اِس سال اُن کی طرف سے ایسا کچھ بھی سننے میں نہیں آ رہا۔
توانائی کے محاذ پر‘ یہ بات قابل حیرت ہے کہ سال 2014-15ء میں 23 ہزار 212 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت تھی جو سال 2015-16ء میں کم ہو کر 23ہزار 101 میگاواٹ ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت نے سال 2013ء میں 480 ارب روپے کا گردشی قرض ادا کیا تھا اور پھر سال 2014ء میں 260 ارب‘ سال 2015ء میں 248 ارب روپے توانائی کے پیداواری شعبے کے لئے مختص کئے تھے۔ اگر ہم تین برس کا حساب لگائیں تو 988 ارب روپے بنتے ہیں لیکن اِس قدر خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی توانائی کے پیداواری شعبے کی صلاحیت کم ہوئی ہے۔

جب ہم زرعی شعبے کی کارکردگی دیکھتے ہیں تو گذشتہ 25برس میں یہ کم ترین اور بدترین کارکردگی ہے۔ بجٹ میں کھاد کی سستے داموں فراہمی کی بات کہی گئی ہے جس پر حکومت کو 10ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑے گی۔ یاد رہے کہ پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ 6 کھرب روپے ہے جسے دی جانے والی سبسڈی 10 ارب روپے کس طرح کافی قرار دی جاسکتی ہے اور اِس قدر بڑے شعبے کو پھر سے منافع بخش بنانے کے لئے کیا 10 ارب روپے کی سبسڈی کافی قرار دی جاسکتی ہے؟ زرعی شعبے کو ایک اُور مد میں بھی رعائت دینے کا بجٹ میں ذکر ملتا ہے۔ زرعی ٹیوب ویلوں کو دی جانے والی بجلی پر رعائت دی جائے گی لیکن جب ہم کھاد اور زرعی ٹیوب ویلوں پر دی جانے والی سبسڈی کو اکٹھا کرتے ہیں تو یہ قومی پیداوار کے تناسب سے قریب 0.6 فیصد بنتی ہے!

برآمدات کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ پیداواری لاگت کم کی جائے لیکن بجٹ میں اِس بارے ہمیں زیادہ کچھ نہیں ملتا۔

غربت کے خاتمے کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جس کا حجم بڑھا کر 115 ارب روپے کردیا گیا ہے اور یہ ایک درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 56لاکھ خاندانوں کو مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام انتظامی لحاظ سے بہترین ہے جسے سائنسی بنیادوں پر منظم رکھا گیا ہے اور یہ غربت سے نمٹنے کا مؤثر ہتھیار ہے۔

بجٹ میں ترقیاتی حکمت عملی (پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام) کے حجم میں 21فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور یہ بھی ایک درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے لیکن ترقی کے نام پر مختص مالی وسائل بدعنوانی کی نذر نہ ہو جائیں اس کے لئے سخت انتظامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ کے گھر سے 73 کروڑ روپے برآمد ہوئے!

آخری بات یہ ہے کہ مالی سال 2016-17ء اراکین اسمبلیوں کے لئے بہت اچھا ثابت ہوا کیونکہ اُن کی تنخواہیں و مراعات 80ہزار روپے سے بڑھا کر 4لاکھ 70 ہزار روپے ماہانہ کر دی گئی ہیں جو کہ 500 فیصد یکمشت اضافہ ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی نتخواہوں میں 10فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ 40 گھنٹوں میں بجٹ منظور کر لیں گے اور آنے والے دنوں میں ہر رکن قومی اسمبلی کو سالانہ 6 کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز ملیں گے جو وہ اپنی من پسند ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کر سکیں گے۔ مبارک ہو۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ و تلخیص: شبیر حسین اِمام)

1 comment:

  1. Budget
    By Farrukh Saleem
    June 05, 2016

    It’s a reasonable budget. To be certain, the entire government paraphernalia has absolutely no capacity to reform itself. Budget is about two things: revenues and expenditures. What’s needed is revenue reforms and expenditure reforms – and without reforms we are going nowhere. I have been told that ‘if you are going nowhere, any road will take your there’. In that sense, the budget has been a good accounting exercise.

    To the credit of the Ministry of Finance: the 8-year high rate of GDP growth; inflation at a 10-year low; foreign exchange reserves at an all-time high; tax collection at a new historical high and a 40-year low SBP policy rate of interest. The other side of the equation is: third consecutive year of missing targeted rate of GDP growth; a 25-year low for the agriculture sector; an alarming drop both in exports and investment.

    A national budget should not be a pure accounting exercise. The Ministry of Finance must develop a vision both for the current as well as the future generation of Pakistanis – and then design a budget to get as close to that vision as possible. All that the current generation needs is jobs, around 1.5 million jobs a year. For the future generation of Pakistanis the best that we can do is to leave them as debt-free as possible. Budget 2016-17 fails on both counts.

    The opposition must also be held accountable for playing absolutely no role whatsoever. For the record, the MQM is the only major political party that came out with a shadow budget. The PTI did come out with a shadow budget last year but I couldn’t find one this year.

    On the energy front, I was shocked to see the installed capacity actually going down from 23,212 MW in 2014-15 to 23,101 MW in 2015-16. After all, the PML-N government paid off a colossal Rs480 billion in 2013 and then allocated Rs260 billion and Rs248 billion during 2014 and 2015, respectively. That’s an outlay of Rs988 billion over three years – and still the installed capacity went down.

    On the agriculture front – where we saw the worst of times in 25 years – the budget could only come up with a 10 percent drop in DAP prices for an accumulated subsidy of Rs10 billion. For the agriculture sector, which contributes Rs6 trillion to our GDP, a subsidy Rs10 billion means little, if anything at all. Yes, there’s an additional subsidy of Rs27 billion in the form of electricity but the two subsidies put together amount to a meagre 0.6 percent of agriculture’s contribution to the GDP.

    For the promotion of exports, it was good to see the zero rating for five major export industries. Would that be enough? I don’t think so. The real issue is the cost of production and there’s been nothing on that.

    For poverty alleviation, the allocation for BISP goes up to Rs115 billion. That’s a step in the right direction. BISP will now cover 5.6 million families. BISP is well managed and disbursement is based on scientific lines. Yes, BISP has been an affective poverty alleviation tool.

    The Public Sector Development Programme goes up by a wholesome 21 percent. Another step in the right direction. But this must be complemented with an affective monitoring tool or at least one-third of the massive Rs1.675 billion programme will be lost to corruption and incompetence (Rs730 million of which were found in the house of Balochistan’s finance secretary).

    Finally, this is going to be a very good year for the parliamentarians. They have already jacked up their salary and allowances from Rs80,000 a month to Rs470,000 a month for a 500 percent one-time increase (as government servants get a 10 percent rise). Lo and behold, parliament will spend around 40 hours to pass the budget and get Rs60 million each for their favourite development schemes. Congratulations.

    ReplyDelete