Wednesday, June 1, 2016

Jun2016: Save the "Lady Garden" of Abbottabad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
لیڈی گارڈن بچاؤ!
خیبرپختونخوا کو سرسبزوشاداب کرنے کا عزم لئے صوبائی حکومت کی کوششیں اُس وقت رائیگاں معلوم ہوتی ہیں‘ جب ترقی کے نام پر توسیع و مرمت یا تعمیراتی منصوبوں کے لئے درختوں کا ’قتل عام‘ کیا جاتا ہے۔ ہزارہ ڈویژن کے بالائی علاقوں میں ایسے مناظر سڑک کنارے بکھرے پڑے ہیں‘ جہاں کبھی درختوں کی قطاریں ہوا کرتی تھیں اب ’ائرکنڈیشن گاڑیوں‘ میں بیٹھ کر سائے کی تلاش میں سرگرداں سیاح دکھائی دیتے ہیں۔ کسی ایک درخت کے ساتھ جُڑی اُس علاقے کی تاریخ و ثقافت اور معیشت و معاشرت جڑی ہوتی ہے‘ درختوں پر صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی انحصار کر رہے ہوتے ہیں اور جنگلات جس حیاتیاتی تنوع کا مرکز ہوتے ہیں‘ اگر اُس کا توازن کسی وجہ سے بگڑ جائے تو نتیجہ غیرمتوقع موسمیاتی تبدیلیوں (خشک سالی یا پھر دیگر انتہاؤں یعنی موسلادھار بارشوں سے آنے والے سیلاب) کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ کاش کہ ’حضرت انسان‘ یہ ’آسان‘ بات سمجھ سکے کہ اُس کی حیات و بقاء جس ہوا میں سانس لینے اور جس زمین پر قدم جما کر رہنے میں ہے‘ اُس کے لئے قدرت کے مقررہ کردہ میزان و عدل کا احترام صرف ضروری نہیں بلکہ لازم ہے۔ اگر یہ ایک بات سمجھ لی گئی تو پھر درخت لگانا یا اُن کی حفاظت کرنا صرف حکومت ہی کی ذمہ داری نہیں رہے گی بلکہ یہ معاشرے کا اِجتماعی فرض بن جائے گا‘ بس یہی شعور کی وہ منزل ہے‘ جہاں صرف آج کی نہیں بلکہ مستقبل کا فکر ہمارے ماضی وحال کو آسودہ اُور مستقبل کو خوشحال بنا دے گی۔

ایبٹ آباد میں بڑھتی ہوئی مقامی آبادی کے لئے تفریح گاہوں کی ضرورت کا مطالبہ اپنی جگہ اہم و توجہ طلب تھا جس پر زور دینے والے سیاسی و غیرسیاسی‘ سماجی اُور قانونی حلقے ’لیڈی گارڈن‘ نامی اُس تفریح گاہ کو ’کمرشل ازم‘ سے بچانے کے لئے ’سرگرم‘ ہو گئے ہیں۔ کس قدر بھیانک منظر ہے کہ ہمارے پاس اتنے مالی وسائل بھی نہیں کہ اپنے سبزہ زاروں کی دیکھ بھال کر سکیں! کم و بیش ’سات کنال اراضی‘ پانچ سال کے لئے سالانہ اٹھارہ لاکھ روپے کرائے پر دینے کی مذمت کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ اِس سے 1:سبزہ زار کی حیثیت تبدیل ہو جائے گی اور اسے نقصان پہنچے گا۔ 2: صحت مند تفریح کے وسیلے سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہونے کی بجائے کم ہوگی کیونکہ ہر شخص اپنے بچوں کو بیش قیمت جھولوں سے استفادہ کرانے کی سکت نہیں رکھے گا۔ بچے ضد اور والدین اُنہیں چپ کرانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیں گے! 3: سبزہ زار میں شور شرابہ (فضائی آلودگی) بڑھے گی۔ 4: جھولوں کی تنصیب کے لئے فرش بندی ہو گی جس سے نہ صرف سبزہ زار کے متعلقہ حصے ہی نہیں بلکہ سبزہ زار کے دیگر حصوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ یاد رہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ نے چند ہفتے قبل ہی ’لیڈی گارڈن‘ میں داخلے کی فیس ختم کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ کم مالی وسائل رکھنے والے بھی اپنے بچوں کے ہمراہ چند لمحے سکون پا سکیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2014ء میں لیڈی گارڈن کی تعمیرومرمت کے نام پر جب پختہ تعمیرات (کنکریٹ) کا جال بچھایا جانے لگا تو ایبٹ آباد کے شہریوں کی جانب سے ظفراقبال ایڈوکیٹ نے ’پشاور ہائی کورٹ‘ میں ایک مقدمہ (پٹیشن) دائر کیا جس پر سماعتوں کے بعد ایبٹ آباد کی کنٹونمنٹ بورڈ انتظامیہ نے تحریری طور پر عہد کیا کہ ’’لیڈی گارڈن کی حیثیت تبدیل نہیں کی جائے گی اور ایسا کوئی بھی کام نہیں کیا جائے گا جس سے سبزہ زار کا رقبہ کم ہو یا سبزہ زار کو نقصان پہنچے یا درخت کاٹے جائیں۔‘‘ لیکن چونکہ انتظامیہ تبدیل ہوتی رہتی ہے لہٰذا ماضی میں کئے گئے عہد بھی فائلوں تلے دم گھٹنے سے شاید دم توڑ چکے ہیں۔ لیڈی گارڈن کے انچارج پرویز خان نے تصدیق کی ہے کہ ’’سبزہ زار کا کل رقبہ چالیس کنال سے زیادہ ہے جس میں سے سات کنال کا رقبہ اجارے پر دیا گیا ہے‘‘ لیکن انہوں نے ایک ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’سبزہ زار کو نقصان پہنچانے یا درخت کاٹنے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘‘ کیا تخریبی کام کرنے والے ’اجازت طلب کیا کرتے ہیں؟‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ اکتیس مئی کو ’کنٹونمنٹ بورڈ ایبٹ آباد‘ کے انتظامی نگرانوں کا (بورڈ) اجلاس بھی ہوا جس کے بارے اسسٹنٹ پی آر اُو ثاقب کے بقول ایجنڈے (غوروخوض کے عمل) میں ’لیڈی گارڈن کے ایک حصّے کی نجکاری شامل نہیں۔‘

کون نہیں جانتا کہ موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی ایبٹ آباد اور ایبٹ آباد کے راستے گلیات یا ناران کاغان کی وادیوں کی سیر کے لئے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں ماہ رمضان المبارک کے دوران کچھ کمی بیشی لیکن عیدالفطر اور بعدازاں زیادہ تیزی آ جاتی ہے۔ اِسی طرح تعلیمی اِداروں میں موسم گرما کی تعطیلات ہونے کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں سے تین ماہ (سیزن) گزارنے والے بھی ایبٹ آباد یا اس کے ملحقہ علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔ آبادی کا یہ دباؤ ماحول اور قدرتی وسائل کو بھی یکساں متاثر کرتا ہے اور اگر ایسی صورت میں پہلے سے موجود ایبٹ آباد کے سب سے بڑے سبزہ زار کی شکل و صورت اور اِس کا بنیادی مقصد ہی تبدیل کر دیا جاتا ہے تو اِس پر صرف لفظی ہی نہیں بلکہ ہر طرح سے احتجاج ہونا چاہئے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خان خٹک‘ ایبٹ آباد سے منتخب تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صوبائی اسمبلی کے اراکین مشتاق احمد غنی‘ قلندر خان لودھی‘ سردار ادریس اُور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ’لیڈی گارڈن بچاؤ تحریک‘ کا حصّہ بننا چاہئے۔ اگر صوبائی اور وفاقی حکومت ایبٹ آباد میں مزید سبزہ زار اور صحت مند تفریح کے مفت مواقع فراہم نہیں کرسکتی تو کم سے کم پہلے سے موجود وسائل کو تو کسی خاص طبقے کی تفریح طبع تک کے لئے محدود نہ کیا جائے۔کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی مجبوریوں اور ضروریات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسے سبزہ زار کی ماحولیاتی و سماجی حیثیت تبدیل کرنا منطقی جواز یا معنی خیزی نہیں رکھتا‘ جو سردست اَیبٹ آباد کی مقامی آبادی اور ملکی و غیرملکی سیاحوں کے لئے تفریح کا واحد ذریعہ ہے۔
Efforts need to save the Lady Garden of Abbottabad  

No comments:

Post a Comment