Tuesday, September 13, 2016

Sept2016: The real Eid Day

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عید: نجانے کب!؟
پولیس کا ایک سینیئر تفتیشی اہلکار ایبٹ آباد سے گرفتار ہوتا ہے۔ الزام ہے کہ سال 2008ء میں جائیداد کی خریدوفروخت کا دھندا کرنے والے (پراپرٹی ڈیلر) کو قانون شکنی پر گرفتار کرنے کی بجائے اُس کی بدعنوانیوں کے ثبوت نظرانداز کئے گئے جس کے عوض بطور رشوت وہ ’غازی کوٹ ٹاؤن شپ مانسہرہ‘ میں ایک عدد ’عالیشان مکان‘ کا مالک بنا جس کی قیمت ڈیرھ کروڑ روپے ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا یہ اُس کا ’پہلا یا آخری کارنامہ‘ تھا اُور کیا خیبرپختونخوا کے پورے پولیس ڈیپارٹمنٹ اور محکمۂ مال (پٹوار خانے) میں وہ واحد ایسا شخص ہے‘ جو اپنی معلوم مالی حیثیت سے زیادہ بڑے مکان کا مالک ہونے کی وجہ سے نظروں میں آگیا؟ پشاور کی احتساب عدالت کے محترم جج ’عاصم امام‘ نے دس ستمبر کے روز مذکورہ سپرٹنڈنٹ آف پولیس (انویسٹی گیشن) ’ساجد خان‘ کو اُسی ’قومی احتساب بیورو‘ کے حوالے کر دیا‘ جس نے اُنہیں گرفتار کیا اُور صرف ڈیڑھ کروڑ کے ایک گھر کا الزام لگایا جس سے خلاصی پانے کے لئے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ’چور دروازہ‘ موجود ہے۔ قومی خزانے میں چند لاکھ روپے ڈال کر ’پلی بارگین‘ کی جاسکتی ہے اور پھر جہاں قومی حافظہ ہی کمزور ہو‘ وہاں نہ تو وارداتیں کی آڑ میں وارداتیں کرنے والوں کا ’نام و نشان‘ یاد رہتا ہے اُور نہ ہی دوسرے ہم عصر جو عام آدمی (ہم عوام) کو لوٹ رہے ہیں وہ ’اِس قسم کے (واجبی) احتساب سے عبرت حاصل کرتے ہوئے توبہ تائب یا ضمیر کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں!‘

گدھ کی طرح عام آدمی (ہم عوام) کی بوٹی بوٹی نوچنے والے عمائدین کہلاتے ہیں۔ غلامی سے بدتر محرومیوں اور استحصال بھری زندگی بسر کرنے والوں کو کس منہ (جواز) سے ’عید مبارک‘ کہا جائے جبکہ گردوپیش میں خوشیوں اُور سُکھ کا نام و نشان (شائبہ) تک نہیں؟ عہدوں سے جڑے اِختیارت کے ذریعے عام آدمی (ہم عوام) کا استحصال ہو یا مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا ارتکاب‘ ہر دن عام آدمی کی کھال اُتارنے والوں کا شمار انگلیوں پر ممکن ہی نہیں رہا۔ قومی یا صوبائی سطح پر ہونے والے احتساب کی اِکا دُکا ’نمائشی کاروائیاں‘ کسی بھی طرح کافی قرار نہیں دی جاسکتیں۔ 

اندھی لوٹ مار کا بازار کل بھی گرم تھا اُور آج بھی جائز کام کروانے سمیت قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے کہیں سرکاری دفاتر تو کہیں احتساب کے مراحل میں وکلأ کی بھاری فیسوں یا ’لین دین (پلی بارگین)‘ کے قواعد (چور دروازے) موجود ہیں جن کے ذریعے معاملات ’رفع دفع‘ ہو رہے ہیں! عجب غضب نہیں تو کیا ہے کہ نہ تو قومی وسائل یا سرکاری اِداروں کو لوٹنے اُور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی لالچ و حرص ختم ہو رہی ہے اُور نہ ہی قومی اداروں سے مراعات‘ تنخواہیں اُور اعزازات پانے والے سرکاری ملازمین کو ’زندہ درگور‘ اپنے ہی ’ہم وطنوں‘ کی بڑھتی غربت و انتہاء کی بے بسی پر ترس آ رہا ہے! کوشش کی حد تک یقیناًیہ ایک اچھا اقدام ہے کہ ’وارداتوں پر وارداتیں‘ کرنے والوں کا گنا چنا‘ اُور نپا تلا ’نمائشی احتساب‘ کرکے ہم عوام کو ’قانون کی موجودگی و حکمرانی‘ کا یقین دلایا جائے لیکن یہ منظرنامہ اُس کی صبح (جلال) کا نہیں‘ جس کے لئے (مملکت خداداد) ایک الگ ملک کا قیام عمل میں لایا گیا تھا! 

’’پاکستان میں عید کا ظہور‘‘ اُس دن ہوگا‘ جب قانون شکنوں کی پشت پناہی کرنے والے سرپرستوں اُور اُن کے سہولت کاروں کا بھی بیک وقت‘ سرعام‘ بے رحم و بلاامتیاز احتساب ہو۔ جس دن عزیز از جان مفاد کی ’قربانی‘ پر آمادگی پائی جائے‘ وہی دن عید کہلائے۔ وہ گھڑی ’عید‘ ہو‘ جب ’’لازم کہ ہم بھی دیکھیں‘ اور ہم سب دیکھیں‘‘ کہ گھر گھر دستک دے کر مالی حیثیت کے بارے استفسار کیا جائے۔ جب ظاہری مالی حیثیت اُور آمدنی کے دستاویزی ثبوتوں یا اَدا کردہ ٹیکس گوشواروں سے زیادہ تمام اثاثہ جات بحق سرکار ضبط کر لئے جائیں اُور احتساب کا عمل نچلے طبقات سے نہیں بلکہ اوپری منزل پر رہنے والوں سے شروع ہو۔ 

’احتسابی زلزلے‘ کا مرکز ’اسلام آباد‘ ہونا چاہئے‘ جہاں قانون ساز اداروں ایوان بالا‘ ایوان زریں اُور قانون کی تشریح کرنے والی ’سپرئم کورٹ آف پاکستان‘ کی عملاً توہین کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ’رہائش پذیر‘ ہے!! بدعنوانی کے پھیلتے ہوئے ناسور کا علاج دریافت کرنے والے معروف افریقن امریکن سماجی اصلاح کار فریڈرک ڈوگلس کا تجویزکردہ علاج ’پاکستان کے تناظر‘ میں سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے جو لکھتے ہیں کہ ’’ہمیں روشنی (اُمید) کی نہیں آگ (یقین) کی ضرورت ہے۔ ہمیں (نمائشی اقدامات) پھوار کی نہیں بادوباراں (برق رفتار معالجے) کی ضرورت ہے۔ ہمیں (اِمتیازات پھیلانے والوں کے محاسبے کا) طوفان چاہئے۔ (قانون کے بلاامتیاز اطلاق کی) آندھیاں چاہیءں۔ (احتساب کرنے والوں کو تہس نہس کرنے والے) زلزلوں کی ضرورت ہے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment