ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محرم سیکورٹی پلان
صوبائی دارالحکومت پشاور کے لئے ’محرم الحرام‘ کے لئے حفاظتی اِنتظامات کا خاکہ (سیکورٹی پلان) حسب سابق تشکیل دینے کے بعد مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے فریقین کے نمائندہ وفود سے ملاقاتوں کا عمل‘ ذرائع ابلاغ میں تشہیر کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے‘ جس میں حسب سابق ’پرامن رہنے‘ اور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات و رسومات کا احترام کرنے کی تلقین کی گئی لیکن کیا یہ ساری محنت (تگ ودو) اُس وقت تک ناکافی رہے گی جب تک گذشتہ برس محرم الحرام کے تلخ تجربات (واقعات) کے ظاہری و پس پردہ محرکات پر غور نہیں کیا جاتا۔
پشاور میں کل 79 امام بارگاہیں ہیں اور محرم کے پہلے 10روز کے دوران اِن امام بارگاہوں کے علاؤہ دیگر درجنوں مقامات سے بھی 121 مختلف ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں۔ ماتمی جلوس یا مجالس عزأ کے اجتماعات کے لئے چھوٹی یا بڑی کی اصطلاح استعمال نہیں کی جاسکتی۔ دس فٹ کے کمرے میں چند افراد اگر ’فرش عزأ‘ بچھا کر بیٹھتے ہیں تو بھی سیکورٹی فراہم کرنے والوں کی ذمہ داری یکساں اہم رہتی ہے۔ گذشتہ برس جن 20 امام بارگاہوں کے 30 ماتمی جلوسوں کو ’حساس ترین (موسٹ سینسٹیو)‘ قرار دیا گیا تھا تو اِس مرتبہ خطرات میں نمایاں کمی آنی چاہئے تھی لیکن ماسوائے اسپیکر کے محتاط استعمال قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کامیابی کسی دوسرے شعبے میں نمایاں نہیں۔ پولیس حکام کو سمجھنا ہوگا کہ ’’واک چاکنگ‘‘ کا نیا اسلوب ’واٹس ایپ‘ فیس بک اُور ٹوئٹر‘ بن چکے ہیں۔ اشتعال انگیز تقاریر سماجی رابطہ کاری کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے نشر ہو رہی ہیں اور محرم الحرام کے آغاز کی اِس گھڑی پر ’آن لائن منافرت پھیلانے والوں پر بھی گرفت ہونی چاہئے۔‘
ماضی میں کی گئیں وہ تمام تقاریر اور اشاعتوں کے اقتباسات اگر سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس پر زیرگردش ہیں تو اُنہیں روکنا (ڈیلیٹ کرنا) کس کی ذمہ داری ہے؟ ہرسال کی طرح اِس مرتبہ بھی عشرہ محرم کے آخری دو یا تین دن موبائل فونز کی سروسیز معطل کر دی جائیں گی لیکن اگر ’غیررجسٹرڈ فون کنکشن‘ ختم کرنے سے متعلق ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ نے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہوتیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ موبائل فون سروسیز بند کرنا پڑتیں‘ جس سے پورے پشاور میں معمولات زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں۔ حسب سابق اِس مرتبہ بھی افغان مہاجرین کے پشاور میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کے لئے ’دفعہ 144‘ کا سہارا لیا گیا ہے لیکن جو (رجسٹرڈ و بڑی تعداد میں غیررجسٹرڈ) افغان مہاجرین پشاور شہر کی حدود میں بودوباش کرتے ہیں اُن سے کس طرح نمٹا جائے گا؟ کم سے کم پشاور شہر کو ’افغان مہاجرین‘ اور ’ہر قسم کے غیرلائسینس شدہ اسلحہ‘ سے پاک کرنے کے لئے ’پولیس‘ کو جو بھی کردار اَدا کرنے چاہئے تھا وہ کیوں ادا نہیں کیا جاتا جبکہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں دس روز کے لئے کروڑوں روپے کے ’سیکورٹی پلان‘ کی ضرورت پڑی ہے اور اس سال بھی گلی گلی محلے محلے سات ہزار سے زائد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو تعینات کرنا پڑے گا!
محرم الحرام کے پہلے عشرے اور بعدازاں 20صفر (چہلم امام حسین رضی اللہ عنہ تک) سے 8ربیع الاوّل تک ’ایام عزأ‘ کے دوران پشاور کے علاؤہ خیبرپختونخوا کے جو دیگر اضلاع انتہائی حساس قرار دیئے جاتے ہیں اُن میں کوہاٹ‘ ہنگو اُور ڈیرہ اسماعیل خان کے 66 امام بارگاہیں‘ 174 ماتمی جلوس شامل ہیں لیکن اِس مرتبہ ضلع ہنگو حساس ترین اضلاع کی فہرست میں شامل نہیں تو پشاور و دیگر اضلاع کے لئے ایسا کیوں نہیں ہوا؟ یاد رہے کہ اِس سال بھی محرم کے پہلے دس روز کے دوران خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں مجموعی طور پر 429 ماتمی جلوس اور 940 مجالس کا انعقاد ہوگا۔ پشاور میں چھ سے دس محرم تک سیکورٹی پلان کے تحت وہ شاہراہیں اور راستے پورے دن کے لئے بند کر دیئے جاتے ہیں‘ جہاں شام یا رات گئے کوئی مذہبی اجتماع وقت مقررہ اور مقررہ راستوں پر منعقد ہونا ہوتا ہے۔
یومیہ مزدوری (دیہاڑی) کرنے والوں کے لئے محرم الحرام کے ایام کس قدر مشکلات بھرے ہوتے ہیں‘ فیصلہ سازوں کو اِس کا بھی دھیان رکھنا چاہئے! پشاور کو سال 1992ء سے پہلے کا امن و امان واپس دلانے کے لئے سب سے زیادہ توقعات ’قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ سے وابستہ ہیں‘ جو اپنے حصّے کی ذمہ داری دوسروں کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے سیکورٹی پلان کے نام جو انتظامات بھی کرتے ہیں‘ اُس سے عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات میں کمی کی بجائے ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment