Wednesday, November 2, 2016

Nov2016: Outcome of the PTI's Islamabad Dharna


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِحتجاج: تشکیل و تکمیل کے مراحل!


پاکستان تحریک اِنصاف کے اِحتجاجی دھرنے کو ’ناکام‘ بنانے کے لئے وفاقی اُور صوبہ پنجاب کی حکومتیں ہر ممکنہ طاقت کا ’غیرمحتاط و غیر ضروری‘ استعمال کر رہی ہیں‘ جو پاکستان کے حق میں مفید نہیں کیونکہ اِس سے نہ صرف خیبرپختونخوا کے رہنے والوں کی ایک بڑی اکثریت (بالخصوص تحریک انصاف کے حامیوں) میں پایا جانے والا ’احساس محرومی‘ بڑھا ہے بلکہ آبادی کے لحاظ سے بڑے ایک صوبے (پنجاب) کی ملکی وسائل پر اختیار (حاکمیت) سے پیدا ہونے والی صورتحال (خرابیوں) کو دیکھتے ہوئے یہ ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل ہونی چاہئے تاکہ انتظامی طور پر پاکستان کی صوبائی اکائیاں برابری کی بنیاد پر فیصلہ سازی اور جمہوری عمل میں شریک ہو سکیں۔

اکتیس اکتوبر کی سہ پہر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا صوابی پہنچتے ہیں‘ جہاں مختلف اضلاع سے آئے ہوئے تحریک انصاف کے منتظر کارکنوں کے قافلے گرمجوش نعروں سے اُن کا استقبال کرتے ہیں۔ چند منٹ کی تقریر میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کارکنوں کو پرامن اور غیرمسلح رہنے کی بار بار تلقین کرتے ہیں۔ بدعنوانی سے پاک پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والوں کا قافلہ چلتا ہے۔ چھوٹی بڑی گاڑیوں میں سوار اُور پیدل چلنے والوں کا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا ہے لیکن صوبہ خیبرپختونخوا اور صوبہ پنجاب کی سرحد ’ہارون آباد‘ کے مقام پر اسلام آباد جانے والوں کو راستے میں نصب رکاوٹیں ملتی ہیں‘ جنہیں بھاری مشینری کے ذریعے ہٹا دیا جاتا ہے۔ پنجاب پولیس اِس دوران آنسوگیس کے گولے برساتی ہے اور کارکن دستیاب پانی و نمک کے ذخیرے سے ایک دوسرے کی تکلیف کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔

’صوابی (خیبرپختونخوا)‘ سے ’ہارون آباد (پنجاب)‘ تک کم وبیش ’بیس کلومیٹر‘ کا فاصلہ طے کرنے میں ’چار گھنٹے‘ اذیت و مشکلات بھرے ثابت ہوتے ہیں۔ قافلہ سالار وزیراعلیٰ کالے شیشوں والی ائرکنڈیشن گاڑی میں قیادت کرتے ہوئے برہان تک آ پہنچتے ہیں جو صوبہ پنجاب کی حدود ہے اور یہاں بھی اُن کا سامنا پنجاب پولیس کے چاک و چوبند دستوں سے ہوتا ہے۔ سفید دھواں اگلتے آنسو گیس شیل نہتے اُور پرامن احتجاجی مظاہرین کی ’صوبہ پنجاب آمد‘ پر استقبال کرتے ہیں اور تمام رات وقفے وقفے سے آنسو گیس گولے پھینکنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مہمان نوازی کا یہ انداز پاکستان کی سیاسی تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا کہ جب کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کی قیادت کے باوجود بھی پولیس راستہ نہیں دیتی! تحریک انصاف کے قافلے میں موجود کارکن نماز مغرب و عشاء کے اوقات میں صفیں بنا لیتے ہیں لیکن آنسوگیس کی گولہ باری جاری رہتی ہے۔ یکم نومبر کا صبح نماز فجر کے بعد آنسوگیس کے گولے پھر سے ’یہاں وہاں‘ گرنے لگتے ہیں تو تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے پیغام ملتا ہے کہ کارکن واپس صوابی (خیبرپختونخوا) کی حدود میں چلے جائیں اور اگلے حکم کا انتظار کریں۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت لائحہ عمل بدل لیتی ہے۔ انسانی حقوق اور مستحکم جمہوریت کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیمیں پاکستان میں جاری اِس پولیس تشدد اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتی ہیں کہ ’’نواز لیگ کی حکومت برداشت سے کام لے اور سیاسی کارکنوں کو غیض و غضب کا نشانہ نہ بنایا جائے۔‘‘ دوسری طرف وفاقی حکومت کی جانب سے یکم نومبر کی صبح وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق مذاکرات کی پیشکش کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ حکومت یہی چاہتی ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار کارکنوں کی رہائی کے بدلے اُس احتجاج کو ختم کیا جائے جو خیبرپختونخوا سے صوبہ پنجاب کے راستے اسلام آباد پہنچنا چاہتے ہیں! لیکن لب و لہجہ میں پائی جانے والی فرعونیت محسوس کی جا سکتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق مذاکرات کی دعوت کے ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’تحریک انصاف‘ کے کارکن اگر مہینہ بھر بھی کسی مقررہ جگہ پر بیٹھ کر احتجاج کرنا چاہیں تو وفاقی حکومت کو اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن اُنہیں تحریک انصاف کے کارکنوں کے اسلام آباد داخلے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دکھائی نہیں دیتیں!

اکتیس اکتوبر سے یکم نومبر تک پشاور اُور اسلام آباد کے درمیان جو کچھ بھی رونما ہوا‘ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ احتجاج سے تعلق نہ رکھنے والوں کو جس طرح مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی افراتفری کی وجہ سے جس طرح کئی عالمی کانفرنسیں ملتوی ہوئیں‘ اُس کا حساب کون دے گا؟ خیبرپختونخوا کی قیادت میںآنے والے کارکنوں کو جس انداز میں ’خوش آمدید‘ کہا گیا اور جس طرح طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا گیا‘ وہ بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے جس سے قبل ابواب میں تحریر ملتا ہے کہ جس کسی جمہوری یا جمہوری آمرانہ یا آمرانہ حکومت نے مخالفین کی آواز ’’طاقت‘‘ کے ذریعے دبانے کی کوشش کی اُسے منہ کی کھانی پڑی اور ہر ایک آنسو گیس کا گولہ‘ ہر ایک ربڑ کی گولی اور ہر ایک لاٹھی جو کسی نہتے‘ پرامن سیاسی کارکن کے سر یا کمر پر برسائی گئی اُس کی چوٹ بعدازاں ظلم کرنے والوں یا اُن کے ہمراں فیصلہ سازوں و مشیروں کو جھیلنا پڑی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکن قصور وار ہیں کیونکہ وہ پاکستان کے وسائل لوٹنے والوں کے احتساب کا زبانی کلامی مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر آج ہی کے دن تحریک انصاف مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر وفاقی حکومت سے ’ڈیل (معاہدہ)‘ کر لیتی ہے اور شریک اقتدار ہو کر خود بھی مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا حصّہ بن جاتی ہے تو راتوں رات ’سب ٹھیک‘ ہو جائے گا۔ وزارتیں‘ عہدے اُور مالی فوائد کے ساتھ آئندہ وفاقی حکومت میں زیادہ بڑی حصہ داری ملنے کی یقین دہانی تحریک انصاف کی منتظر ہے لیکن آج کا پاکستان سیاسی کارکنوں کی قربانیوں پر سودا بازی کرنے کا نہیں۔ 

ذرائع ابلاغ ہر بال کی طرح ہر ایک لفظ کی کھال اُتار رہے ہیں۔ الفاظ کے مفہوم اور اُن کی باریک بینی سے تشریح ہو رہی ہے‘ جس میں ’موقع پرستی‘ کی گنجائش نہیں رہی۔ 

پاکستان ایک ’’نئے پاکستان‘‘ کی جانب قدم قدم بڑھ رہا ہے۔ ہر رکاوٹ اُور ہر ایک پرتشدد اقدام ’سیاسی و جمہوری انقلاب‘ کی منزل کو مزید قریب کر رہا ہے کیونکہ یہ سب ایک ایسی شعوری تحریک کا حصہ ہے‘ جس نے 20برس سے زائد کی جدوجہد میں عوام کو ’ایک نئے پاکستان‘ کی تشکیل کی ضرورت سے آشنا اور پاکستان کی تکمیل کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے عملاً آمادہ کیا ہے۔ اب تبدیلی (انقلاب) آ کر رہے گا۔ حکمرانوں کی طرح یہ لمحے جنون کے امتحان کی گھڑیاں بھی ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment