Friday, December 16, 2016

Dec2016: E Management of Public Transport, why not?

ژرف نگاہ .... شبیر حسین اِمام
پبلک ٹرانسپورٹ: اِی مینجمنٹ کیوں نہیں!؟

اَلمیہ ہے کہ ’وسائل سے ’محروم طبقات‘ کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والوں کو اُس عام آدمی (ہم عوام) کو درپیش مشکلات کا رتی بھر اِحساس نہیں‘ جس کی آنکھیں ایک کے بعد ایک مسیحا کا انتظار کرتے کرتے پتھرا چکی ہیں۔‘ پبلک ٹرانسپورٹ سے بطور مسافر واسطہ رکھنے والوں کو روزمرہ یا کبھی کبھار جن تکلیف دہ اور ذلالت بھرے مراحل (برتاؤ) سے یومیہ یا حسب ضرورت نمٹنا پڑتا ہے‘ اُس کا خاتمہ ’اِی مینجمنٹ (کمپیوٹرائزیشن)‘ سے باآسانی ممکن ہے۔ 

سردست جنرل بس اسٹینڈ سے مال برداری تک آمدورفت یا نقل و حمل کے لئے استعمال ہونے والے وسائل (گاڑیاں اُور ٹرک) نہ تو ماحول دوست ہیں اور نہ ہی صارفین (مسافروں) کے موافق (فٹنس کنڈیشن) کے کسی کم سے کم معیار پر ہی پوری اُترتی ہیں!

کسی بھی ضلع میں ’جنرل بس اسٹینڈ‘ پر جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ماضی کی طرح آج بھی معمول دکھائی دیتا ہے‘ وہیں ٹرانسپورٹروں اور مسافروں کے درمیان تعلق وقتی‘ سطحی اُور ایک کاروبار سے زیادہ اہمیت (تعارف و بیان) نہیں رکھتا جس میں خالص منافع ہی پیش نظر (مقصود و ترجیح) یعنی کاروباری ذہنیت حاکم ہونے کی وجہ سے صورتحال انتہاء تک بگڑ چکی ہے۔ 

کسی مسافر کا پہلا واسطہ ’بس اسٹینڈ‘ کے عملے اُور ڈرائیور و کنڈیکٹر سے ہوتا ہے جس کے ساتھ اخلاق و شائستگی سے بات نہیں کی جاتی۔ کسے یاد ہوگا کہ کبھی ٹکٹ گھر بھی ہوا کرتے تھے! بہرحال بطور صارف‘ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والوں کی بنیادی شکایات کا مختصر بیان یہ ہے کہ 1: اضافی کرایہ کی وصولی‘ 2: مسافروں کے سازوسامان کے کرائے کا تقاضا‘ 3: فی گاڑی مقررہ نشستوں سے زیادہ مسافروں کو سوار کرنا‘ 4: غیرآرام دہ نشستیں‘ 5: صفائی کی ناقص صورتحال‘ 6: نشستوں کے نیچے ایندھن (سی این جی) کے سلینڈر نصب ہونے کی وجہ سے مسافروں کو تمام وقت پاؤں سمیٹ کر رکھنے کے علاؤہ ایک ایسے مستقل خطرے پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑتا ہے‘ جو نہ تو محفوظ ہے اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کے حفاظتی پروٹوکول (حکومتی جاری کردہ ہدایات واحکامات) سے مطابقت رکھتا ہے۔ 7: مسافر گاڑیوں کی آڑ میں اسمگلنگ (اشیاء کی غیرقانونی نقل و حمل) جو بین الاضلاعی و بین الصوبائی روٹس پر کھلے عام کی جاتی ہے۔ قیمتی پتھر‘ معدنیات‘ کپڑا‘ بیش قیمت الیکٹرانکس آلات اور گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات وغیرہ کو مسافروں کی نشسوں کے نیچے‘ گاڑی کے کونوں کھدروں‘ اکثر پاؤں رکھنے کی جگہ پر رکھا جاتا ہے‘ جس سے کئی گھنٹوں پر محیط سفر ایک مستقل سزا بن جاتا ہے۔ 8: جنرل بس اسٹینڈ یا ایسے مقامات پر پینے کے صاف پانی‘ سایہ دار انتظارگاہیں اور دیگر سہولیات کی فراہمی اور اُن کا معیار و مقدار میں اضافہ ہونا چاہئے۔

پبلک ٹرانسپورٹ کی ’اِی مینجمنٹ‘ عملاً کیسے کی جائے؟ اَصولی طور پر ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کے شعبے میں حکومت بذات خود سب سے بڑی سرمایہ کار ہونی چاہئے تھی لیکن چونکہ یہ شعبہ سوفیصدی نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا ہے تو اِس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت سے غلاموں جیسا یا اِس سے بھی بدتر سلوک روا رکھے یا ایسا کرنے کی غیرتحریری اجازت دے دی جائے۔ 

پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑے جملہ شعبوں کے اصلاح بذریعہ ’اِی مینجمنٹ‘ باآسانی ممکن بنانے کے لئے تمام گاڑیوں اور اُن کے روٹس پر مشتمل ’کمپیوٹرائزیشن کوڈنگ‘ کے ذریعے ’ڈیٹابیس‘ بنائی جا سکتی ہے جو کسی ایک روٹ پر چلنے والی گاڑیوں کو اُن کی فٹنس کے مطابق عارضی و مستقل روٹ پرمٹ (اجازت نامے) جاری کرے۔ 

مستقل روٹ پرمٹ صرف ایک جبکہ اضافی روٹ پرمٹ زیادہ سے زیادہ فراہم کئے جا سکتے ہیں تاکہ کسی ایک روٹ پر خاص حالات و اوقات میں گاڑیوں کی تعداد کم زیادہ ہونے کے علاؤہ نجی شعبے کے لئے سرمایہ کاری کرنے کے مواقع مشتہر کئے جا سکیں۔ ڈرائیورز کے کوائف‘ رابطہ نمبر‘ صحت و زندگی کا بیمہ (انشورنس)‘ ڈرائیونگ لائسینس ہونے کی لازمی شرط سے مشروط ہونے چاہئیں جبکہ ڈرائیور کی جسمانی و نفسیاتی صحت و تندرستی کے لئے کم سے کم ہر چھ ماہ یا ایک سال بعد مرکزی سرکاری ہسپتال میں ماہر معالجین کی زیرنگرانی طبی معائنہ لازمی قرار دیا جائے۔ ڈرائیور و کنڈیکٹر کا متعلقہ تھانے سے کریمنیل ریکارڈ وغیرہ کی تفصیلات اگر ڈیٹابیس کا حصہ ہوں گی‘ تو ’اِی ٹیگ‘ کی طرح ایک خودکار نظام کے ذریعے نہ صرف کسی بھی روٹ پر رواں دواں گاڑیوں کی کل تعداد بلکہ اُن کی اسپیڈنگ پر بھی نظر رکھی جاسکے گی جو انسداد دہشت گردی کے لئے وضع کی گئی قومی حکمت عملی کے اہداف حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہوگی اُور نہ صرف ڈرائیور بلکہ ہر مسافر کے ’کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی)‘ کے ذریعے ٹکٹوں کا حصول ممکن ہوگا۔ 

گاڑیوں میں ’جی پی ایس‘ آلات اُور ’سی سی ٹی وی‘ کیمروں کی تنصیب سے مسافروں بالخصوص خواتین اور بزرگوں کی شکایات کا اَزالہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک سے زیادہ صوبائی حکومت کے محکمے ہونے کے باوجود نہ صرف مسافروں سے اضافی کرایہ یومیہ بنیادوں پر وصول کیا جارہا ہے بلکہ کسی مسافر کے بطور صارف حقوق کاغذوں پر تحریر کرنے والے اِن پر عمل درآمد کو ضروری نہیں سمجھ رہے؟ 

ماضی میں صوبائی وزیرٹرانسپورٹ سمیت متعلقہ افسرشاہی کے عہدے ایسے افراد کے پاس بھی رہے‘ جو یا تو خود یا اُن کے عزیزواقارب مختلف ناموں سے پبلک ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے۔ فیصلہ سازی مفادات سے متصادم ہونے کی وجہ تھی کہ عام آدمی (ہم عوام) سے زیادہ ٹرانسپورٹروں کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا رہا۔ 

پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے المعروف ملنگ و دبنگ اور دُرویش وزیراعلیٰ پرویز خان خٹک سے درخواست ہے کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں اندرون و بیرون پشاور صوبائی حکومت کی سرمایہ کاری کے علاؤہ ’اِی مینجمنٹ سسٹم‘ نافذ کرائیں‘ اگرچہ سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کی اکثریت اُور اُن کے اہل خانہ ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے خود استفادہ نہیں کرتے‘ اِس لئے انہیں مسافروں کی تکالیف و مشکلات کا احساس نہیں اُور نہ ہی اُن کی شکایات سننے کا بھی کماحقہ فعال نظام موجود ہے ایسی صورت میں ’اِی مینجمنٹ‘ کے ذریعے کسی مسافر کے لئے ممکن ہوگا کہ وہ سفر پر نکلنے سے پہلے اپنی سیٹ مختص کروا سکے۔ کسی خاص روٹ پر گاڑیوں کی دستیابی کے بارے معلومات حاصل کرسکے۔ 


ایڈوانس بکنگ اور اپنی مرضی کی نشست حاصل (بُک) کر سکے اُور اگر اِس جیسے لاتعداد اِمکانات کو ’مرکزی ڈیٹابیس‘ سے جوڑتے ہوئے ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کی اِی منیجمینٹ‘ متعارف کی جاتی ہے تو فی سواری ٹیکس وصول کرنا بھی ممکن ہو پائے گا‘ جو مالی مشکلات سے دوچار صوبائی حکومت کے لئے اضافی و معقول (پائیدار) آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

"Public Transport in Khyber Pukhtunkhwa need to be managed & organized using the tools of "E-MANAGEMENT

No comments:

Post a Comment