ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بھیکاری!
جو لوگ کچھ بھی کھا لیتے ہیں‘ کچھ بھی پہن لیتے ہیں اور کچھ بھی پی کر اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں اُن کے لئے زندگی سے زیادہ خوبصورت (متبادل) کوئی دوسری نعمت ہو ہی نہیں سکتی تھی لیکن اگر وسائل کی تقسیم منصفانہ ہوتی۔ جو لوگ کچھ بھی نہیں کھا سکتے بلکہ اُنہیں کوئی ایسی خاص خوراک اور وہ بھی نہایت ہی کم مقدار میں لینا پڑتی ہے کہ جو بناء چینی نمک یا مصالحہ (ذائقے)‘ گھی (چکناہٹ)‘ کے ہو۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو باوجود مالی سکت رکھنے کے بھی ہر قیمتی کپڑا نہیں نہیں پہن سکتے اور اُن کی مجبوری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ہر مشروب پی بھی نہیں سکتے تو ایسے افراد کو ’اِمتحان کی گھڑی‘ میں خود سے پوچھنا اُور اِس بارے سوچنا چاہئے کہ غلطی کہاں ہوئی‘ اُس کی ’بھاری قیمت‘ ادا کرنے کے باوجود بھی اگر خلاصی نہیں ہو رہی تو اِس کا ازالہ کیونکر ممکن ہے۔
جمعۃ المبارک کی (ہفتہ وار) نماز کے لئے مسجد کا رخ کرنے والوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ رش کا یہ عالم ہوتا ہے کہ جامع مسجد کے داخلی راستوں پر دھکم پیل کی نوبت آ جاتی ہے۔ معلوم نہیں ہوسکا کہ وسیع و عریض اور کئی منزلہ مساجد تعمیر کرنے والے اُس کے دروازے چھوٹے اور سیڑھیاں تنگ کیوں بناتے ہیں!؟ جمعۃ المبارک کے لئے الگ یا خدانخواستہ کسی ہنگامی صورتحال کے لئے محفوظ اور بڑے متبادل راستے کیوں نہیں بنائے جاسکتے!؟
بلڈنگ کوڈز کا اطلاق مساجد پر کیوں نہیں ہوتا‘ جن کی اپنی پارکنگ عمارت کا حصہ نہیں بنائی جاتی!؟ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مساجد کے آس پاس سڑکوں پر گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں‘ جس سے نماز کے لئے آنے والوں اور شاہراہ یا راستہ استعمال کرنے والوں کو مشکلات پیش آتی ہیں۔ باوجود کوشش یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ جمعۃ المبارک کا لباس شلوار قیمض کیوں ہے جبکہ جو لوگ ہفتے کے باقی دن پینٹ کوٹ اور ٹائی پہنتے ہیں‘ اُنہیں ایک دن کے لئے ’ڈریس کوڈ‘ تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے!؟
مساجد سے مستقل رجوع کرنے والوں کے لئے لاکرز کیوں فراہم نہیں کئے جا سکتے جہاں وہ اپنی بنیادی ضروریات کی اشیاء (مسواک‘ تولیہ‘ صابن‘ کنگھی‘ ناخن تراش‘ عطر‘ سرمہ‘ کپڑے وغیرہ) رکھ سکیں‘
بہرحال ہر ہفتے‘ جمعۃ المبارک کے موقع پر‘ عمومی و خصوصی مصروفیات ترک کر کے عبادت کی طرف رجوع کرنے والوں کا جوش و خروش دیکھ کر یہ اُمید اُور خواہش جاگ اُٹھتی ہے کہ آج مسجد کے در و دیوار سے لگ کر بیٹھے ہوئے حاجت مندوں (مرد و خواتین) کی تمام دنیاوی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ اُن کے چہرے بھی کھل اُٹھیں گے۔ اُن کی دلی مرادیں بھی پوری ہو جائیں گی کیونکہ یہ ناممکن نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ’نماز جمعہ‘ ادا کرنے والے اگر عزم کر لیں تو نہ صرف یہ ممکن ہے کہ درجنوں کی تعداد میں بھیکاری باعزت روزگار شروع کر سکیں گے بلکہ وہ ملازمتوں پر فائز ہو کر دوسروں کی طرح معاشرے کی تعمیروترقی اُور سہولیات کی فراہمی کے ’نیٹ ورک‘ کا فعال حصہ (جز) بن سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو کسی وجہ سے معاشرے سے کٹ کر الگ ہو گئے ہیں‘ اُنہیں معاشرے سے جوڑنا نہ تو مشکل ہے اُور نہ ہی ناممکن لیکن اگر ایسا کرنے کی خواہش کسی طرح عزم جیسی تحریک میں تبدیل ہو جائے۔ اِنسانوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے والوں اُور مسجد کے اندر دعا کے لئے اُٹھے ہوئے ہاتھوں میں فرق کیا ہے؟ دونوں اپنی اپنی جگہ قبولیت کے متمنی اور دونوں اپنی اپنی منتظر ہیں کہ ’’قدرت‘‘ اُن کی جانب متوجہ ہو!
بھیک مانگنے والے پیشہ ور ہوں یا اُن کی جسمانی معذوری‘ کسی بیماری کی شدت یا کنبے کی کفالت کا بوجھ نے اُنہیں اِس حد تک مجبور و لاچار کر دیا ہو کہ وہ نہ صرف انسان ہو کر انسان ہی سے مانگ رہے ہوں بلکہ جس سے سب مانگنے جا رہے ہوں اُس کی جانب متوجہ نہ ہوں تو درحقیقت اُنہیں رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ’’وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے۔۔۔ ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔ (اِقبالؒ )‘‘
ریاست‘ منبر اُور معاشرے کے سرخرو (منتخب) نمائندہ افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اپنی حیثیت (انفرادی طور) اُور مل بیٹھ کر (اجتماعی طور) سے (غوروخوض کے ذریعے) بھیک مانگنے والوں کے بارے میں کوئی ’لائحہ عمل‘ طے کریں۔ اُنہیں سہارا دینے اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی ہمت کریں۔ ہر سال حج اور ہر چند ماہ بعد عمرہ کی سعادت حاصل کرنے والوں کو اُس انسان کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے جس کی حرمت (جان‘ حیثیت‘ عزت نفس‘ رتبہ‘ مقام اُور حاجات) کعبے کی حرمت سے زیادہ اہم ہیں! ہم گردوپیش میں ایسی درجنوں ’غیرسرکاری تنظیموں (این جی اُوز)‘ کو فعال دیکھتے ہیں‘ جو معاشرے میں اور معاشرت میں پیدا ہونے والی خرابیاں دور کرنے کے لئے عمدگی اور نظم وضبط سے تگ و دو کر رہی ہوتی ہیں جنہیں اِس سماجی عدم توازن کی جانب بھی توجہ دینی چاہئے‘ کہ جس میں چاہے کسی بھی وجہ اور محرک کی بناء پر بھیک مانگی جا رہی ہے اور باوجود بھیک مانگنے کے بھی انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کے کام نہیں آ رہا تو اب چاہے انسان چاند ستاروں اور خلاؤں میں جہاں چاہے ٹھکانہ بنا لے اُس کی ’’دربہ دری‘‘ ختم نہیں ہوگی کیونکہ اِس انسان نے اپنے انسان ہونے کا حق ادا نہیں کیا اور اپنے ہی آس پاس انسانیت کی تذلیل جیسی بکھری مثالوں پر نظر نہیں کر رہا۔
کون بھیکاری نہیں؟
کس کا ’’دامنِ عمل‘‘ گناہوں سے داغدار نہیں؟
بقول شان الحق حقی ’’ڈال دوزخ میں نامۂ اَعمال۔۔۔میرا‘ اقرارِمختصر ہے کہ ہاں!‘‘
جمعۃ المبارک (اکتیس مارچ) کی صبح‘ حسب معمول نیک تمناؤں کے پیغامات میں ’فیس بک‘ کی ایک پوسٹ (خیال) نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا‘ جس میں ’صحافی محمود جان بابر‘ نے تعجب کا اظہار کیا کہ ’’پانامہ کے فیصلے کا اِنتظار کرنے والی پوری ’’پارسا‘‘ اُور ’’دیانتدار‘‘ قوم کچھ ایسی بے صبری کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ جیسے کرپشن (مالی و انتظامی بدعنوانیاں) تو صرف ملک کے وزیراعظم ہی سے سرزد ہوئی ہیں!‘‘ اُن کی طویل پوسٹ (پیغام) کا مقصد معاشرے کے ہر فرد کو اپنے اپنے کردار پر غور کرنے کی دعوت ہے کہ دوسروں پر تنقید اُور دوسروں سے اصلاح احوال کا مطالبہ (تقاضا) کرنے کی بجائے اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے تو ایک ایسا انقلاب برپا ہو سکتا ہے‘ جو ’اِسلامی تعلیمات‘ کا نچوڑ اُور مقصد (خلاصہ) ہے۔ ہمیں عبادات کے مفہوم (اِن کے تربیتی پہلو) پر (بھی) غور کرنا ہوگا۔ ہمیں اُن دینی تعلیمات کو ’نصاب کا حصہ‘ بنانا ہوگا‘ جن سے اِنسان اور عظمت انسان کی اہمیت اُجاگر ہو۔ ہمیں ’’عمل‘‘ کی جانب راغب ہونا ہوگا کیونکہ اِسی ’’عمل کی بدولت‘‘ غیرامتیازی‘ غیراستحصالی اور ترقی کے وسائل کی منصفانہ تقسیم سے یکساں مواقع پیدا ہوں گے۔ اِسی ’’عمل‘‘ سے ایک ایسی زندگی تشکیل پائے گی‘ جس کی بنیاد پر ہمارے اِنجام (سزأ و جزأ) یعنی جنت اُور جہنم کا فیصلہ ہوگا۔
![]() |
The self accountability |
No comments:
Post a Comment