Tuesday, May 30, 2017

May2017: Strike of Doctors in Ayub Medical Institute Abbottabad


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
منتظر ساعتیں!

خیبرپختونخوا میں ڈاکٹروں اُور محکمۂ صحت کے درمیان ’اختلافات و تنازعات‘ کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کا نظام بُری طرح متاثر ہو رہا ہے اُور اگر بالخصوص ایبٹ آباد کے ’ایوب میڈیکل اِنسٹی ٹیوٹ‘ کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو چھ روز سے جاری ہڑتال 29 مئی کو ساتویں روز میں داخل ہوئی اور ہسپتال انتظامیہ کے مطابق اِس عرصے میں ’علاج معالجہ معطل‘ ہونے کے سبب 75 سے زیادہ اموات ہوئیں جبکہ عمومی طور پر اِس عرصے میں اوسطاً بیس سے پچیس اموات ریکارڈ ہوتی تھیں۔ جہاں سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ‘ سرکاری سکولوں میں تعلیم معیاری نہ ہو اور جہاں کے حکمرانوں کو اِن ’بحرانی مسائل‘ کے حل کی فرصت (توفیق) بھی نہ ہو تو اِس طرزحکمرانی کو کیا نام دیا جائے؟ 


تیئس مئی سے ایبٹ آباد کے ڈاکٹرز اپنی کیمونٹی سے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبائی سطح پر جاری احتجاجی تحریک کا حصہ ہیں اور اضافی طور پر مطالبات پیش کئے بیٹھے ہیں کہ ’ایوب میڈیکل انسٹی ٹیوٹ‘ کے انتظامی نگرانوں (بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین اور سیکرٹری) کو برطرف کیا جائے‘ جن پر مبینہ طور پر مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے سنگین الزامات ایک عرصے سے عائد کئے جا رہے ہیں لیکن اُن کا نوٹس نہ تو صوبائی حکومت لے رہی ہے اور نہ ہی ’بدعنوانی سے پاک اور احتساب کی علمبردار‘ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اِس سلسلے میں دلچسپی لے رہی ہے کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے؟! ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری‘‘ نہ ہوتی تو اب تک ایک سے زیادہ تحقیقاتی کمیٹیاں بنا کر حقائق عوام کے سامنے پیش کر دیئے جاتے لیکن ایک طرف ’’مردہ باد‘‘ کے نعرے لگانے والے ’علی الاعلان‘ الزامات عائد کر رہے ہیں تو یقیناًاُن کے پاس ثبوت بھی ہوں گے اور دوسری طرف سرکاری ہسپتالوں کے معاملات کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑنے والوں کے پاس مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا کوئی بھی جواز ’معقول‘ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ کسی جمہوری معاشرے میں اگر حکومت عام آدمی (ہم عوام) کو درپیش مسائل و مشکلات کا سبب بننے والے کرداروں اور محرکات سے نمٹنا نہیں جانتی تو اِس سے زیادہ قابل مذمت طرزعمل کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔

ہر منصب عالیہ کی اپنی اخلاقی و آئینی ذمہ داریاں اور فرائض ہوتے ہیں۔ منصب جتنا بڑا ہوگا‘ واجب الادأ ذمہ داریاں بھی اُسی قدر زیادہ ہوں گی۔ اگر ہمارے تعلیمی اداروں سے صرف اعلیٰ تعلیم کی اسناد (ڈگریاں) جاری کرنے کا معمول نہ ہوتا تو ہمارے اردگرد صرف پڑھے لکھے نہیں بلکہ فرض شناس (تعلیم یافتہ) انسانوں کی کثرت ہوتی۔ ایسے انسانوں کی کثرت جو اپنی طرح دوسروں کو بھی انسان سمجھتے اور جنہیں اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کی مشکلات و تکالیف کا احساس ہوتا۔ ڈاکٹر مسیحا ہیں‘ باشعور ہیں اور منصب مسیحائی کے تقاضے اُن سے زیادہ بہتر انداز میں کون سمجھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر جانتے ہیں کہ سرکاری علاج گاہوں سے ملک کے سیاسی و غیرسیاسی بااثر طبقات اور سرمایہ دار رجوع نہیں کرتے بلکہ وہ عام آدمی (ہم عوام) صحت و زندگی کی تمنا لیکر اُن کے در پر آتا ہے جو مالی وسائل یا رہنمائی کے لئے محتاج ہوتا ہے۔ دوسری جانب حکمرانوں کو اپنے منصب سے جڑی ذمہ داریوں اور فرائض پر نظر کرنی چاہئے کہ آخر ڈاکٹروں اور معاون طبی عملے کو احتجاج کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ اگر اِحتجاج کے درپردہ کوئی مخالف سیاسی قوت تحریک انصاف حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنا چاہتی ہے تو کیا اِس سازش کو بے نقاب (ناکام) کرنا صوبائی حکومت ہی کی ذمہ داری نہیں؟


اجتماعی طور پر خیبرپختونخوا کے (ینگ) ڈاکٹروں نے دو بنیادی مطالبات پیش کئے ہیں اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ شاطرانہ انداز میں ایک جائز مطالبے کی آڑ میں دوسرا ناجائز (غیراخلاقی اور غیرآئینی) مطالبے کے لئے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے‘ جسے من و عن تسلیم کرنا صوبائی حکومت کے لئے ناممکن حد تک دشوار ہے اور اگر وہ بادلنخواستہ تسلیم کر بھی لیتی ہے تو اِس سے (ماضی کی طرح) سرکاری علاج گاہوں میں ڈاکٹروں کی کم سے کم ’بروقت حاضری‘ یقینی بنانا ممکن نہیں رہے گا۔ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت وفات پانے والے ڈاکٹروں کے لواحقین کو مالی امداد دے‘ دوران ملازمت وفات پانے والے ڈاکٹروں کے اہل خانہ کا سہارا بنے اور ڈاکٹروں کو جانی و مالی تحفظ فراہم کیا جائے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ انگوٹھے کے نشان سے ڈاکٹروں کی حاضری (بائیومیٹرک تصدیق) رجسٹر کرنے کی بجائے انہیں رعائت دی جائے کہ وہ ماضی کی طرح جب چاہیں اور جس وقت چاہیں‘ ہسپتال قدم رنجہ فرمائیں‘ یا خود ہی اِس بات کا تعین کریں کہ اُن کی ’آمدورفت‘ کے اوقات کیا ہوں گے۔ (توجہ برقرار رہے کہ یہاں لفظ ’آمدورفت‘ کا استعمال کیا گیا کیونکہ ڈاکٹروں کی سرکاری ہسپتالوں میں موجودگی اِس بات کی ضمانت نہیں ہوتی کہ وہ اِس دوران مریضوں کا معائنہ کریں گے یا اپنی تعلیمی قابلیت‘ اہلیت اور مہارت پر مبنی جنس کی قیمت کا ازخود تعین کریں گے۔) دیکھا جائے تو کسی بھی سرکاری ملازم کو ملازمت یا عوام کے منتخب نمائندوں کو فیصلہ سازی و حکمرانی کا اختیار ملنے کے بعد انہیں نہ تو اوقات کار کی پابندی پسند ہوتی ہے اور نہ ہی یہ اپنی کارکردگی کے لئے خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں۔ درحقیقت اِس منفی و عمومی معاشرتی رویئے کی بڑی وجہ وہ خاص ’طرزفکروعمل (مائنڈسیٹ)‘ ہے جس کی دیکھا دیکھی پیروی کرنے والوں کو درحقیقت ملک و قوم کی جانب سے دی جانے والی ’’عزت راس نہیں آتی!‘‘ ہر سرکاری ملازم کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اُس کی کارکردگی پر کم سے کم نگرانی ہو اور باقاعدگی سے حاضری کے اوقات تو مقرر نہیں ہونے چاہیءں یا اُن پر سختی سے عمل درآمد تو بالکل بھی قابل قبول نہیں ہوتا! 


خیبرپختونخوا میں صرف ڈاکٹر ہی سراپا احتجاج نہیں بلکہ ملازمتی حالات کار اُور اُوقات کار کے بارے میں اِسی قسم کے مطالبات سرکاری ہسپتالوں کے معاون طبی عملے کی جانب سے بھی پیش ہیں۔ قصوروار نہ ہونے کے باوجود عام آدمی (ہم عوام) کی نہ تو کوئی عزت ہے اور نہ ہی حقوق و استحقاق۔ جس کی تمام زندگی دکھوں اور موت بیماریوں کی اذیت جھیلنے کا نام ہو‘ اُس کے لئے ’استحصالی نظام کب ’تبدیل‘ ہوگا؟ تضاد یہ ہے کہ جب یہی اور اِن جیسے احتجاج پر آمادہ ڈاکٹر اور اِن کے معاونین نجی ہسپتالوں سے اپنی خدمات کا معاہدہ کرتے ہیں تو اُن کے قواعد و ضوابط کی سختی سے پابندی کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن سرکاری ہسپتالوں میں جہاں بروقت اور ہر سال ماہانہ تنخواہوں میں اضافے کے علاؤہ ڈاکٹروں کو دیگر مساوی گریڈ کے ملازمین سے زیادہ مراعات اور بعدازملازمت تاحیات مالی سپورٹ (پینشن) کی ضمانت اور معاشرہ عزت نچھاوڑ کرتا ہے تو کیا یہ سب تعظیم (آؤ بھگت) ناکافی (بے معنی) ہے؟

No comments:

Post a Comment