ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
گھر گھر کی کہانی!
شناخت کبھی بھی یک قطبی نہیں ہوتی بلکہ اِس کے کئی پہلو اور حوالے ہوتے ہیں جن میں ہر ایک دوسرے سے معتبر اور یکساں اہم ہوتا ہے۔ اِس تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے تصور کیجئے کہ جہاں گلی کوچوں اُور گھروں کی تاریخی حیثیت ایک مسلمہ (جانی مانی) حقیقت ہو‘ اُس ’معلوم نگر‘ کے بارے میں سوچتے ہوئے ہم عشاق کے دلوں میں ’پشاور‘ کے سوأ بھلا اُور کہاں کا تصور اُبھر سکتا ہے۔ گنجان بھی اور آباد بھی‘ پُرپیچ راستے‘ پرامن‘ پرسکون اور بساطوں سے مزین ٹھنڈی گلیاں دیگر کس شہر کا تعارف ہو سکتی ہیں بالخصوص ’محلہ خداداد‘ میں یوسف خان المعروف دلیپ کمار کسی ایسے مسیحا کا منتظر ہے جو اِسے نئی زندگی عطا کرے۔ دلیپ کمار کا یہ آبائی گھر‘ جسے محفوظ رکھنے اور اِس تاریخی ورثے کی حفاظت سے جڑی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ایک سے زائد صوبائی حکومتی ادارے عملاً ناکام ثابت ہوئے ہیں ایک ایسا موضوع ہے‘ جس کو مختلف زاوئیوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اِس گھر میں ’دلیپ کمار‘ کا بچپن بسر ہوا‘ جو قطعی معمولی حوالہ نہیں اور یہی دکھ ہے کہ اِس خستہ حال مکان کی عمارت جو اپنی موت آپ مر رہی ہے تو اِسے بچانے کا یہی آخری (نادر) موقع ہے!
دلیپ کمار کا گھر کئی دہائیوں سے کسی کے زیراستعمال نہیں اور اِس کی خستہ حالی کا یہی ’بنیادی سبب‘ ہے کہ اِس گھر کی دیکھ بھال اور تعمیرومرمت عرصہ دراز سے نہیں ہو سکی ہے۔ لکڑی‘ مٹی اور پختہ اینٹوں سے بنا ڈھانچہ موسمی اثرات کو مزید برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا! غیرمقامی اہل علاقہ کی اکثریت کے لئے یہ مقام ’گندگی پھینکنے کی جگہ‘ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا‘ جنہوں نے اِس کے ایک حصے میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگا دیئے ہیں! وجہ یہ ہے کہ جن مقامی افراد کو اِس گھر کی اہمیت کا علم تھا وہ یا تو وفات پا چکے ہیں یا پھر کسی سبب اندرون پشاور سے کوچ کر گئے ہیں اور نئی نسل تو بالخصوص پشاور کے تاریخی اثاثوں کی اہمیت و شناخت آشنا نہیں! اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آج ’گھر گھر کی یعنی ہر گھر کی کہانی‘ یہی ہے کہ وہ ’پشاور آشنا‘ نہیں۔ جب پشاور اور اِس کی اہمیت کو چار چاند لگانے والے اثاثوں کے بارے میں نئی نسل کو آگاہ کرنے کا کوئی وسیلہ اور ذریعہ ہی موجود نہیں تو اُس دن کو قریب دیکھا جا سکتا ہے جب پشاور کے گلی کوچوں کے ’قدیمی نام‘ بھی تبدیل ہوتے چلے جائیں گے یا پھر (خدانخواستہ) اِن کی وجہ تسمیہ کسی کو یاد تک نہیں رہے گی!
سال اُنیس سو بائیس‘ دلیپ کمار ’محلہ خداداد‘ کے مذکورہ مکان میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اِس مکان کا تذکرہ اپنی آب بیتی (کتاب) میں بھی تفصیلاً کیا ہے‘ جس کا اُردو ترجمہ ’روزنامہ آج‘ کے ہفتہ وار ’سنڈے میگزین‘ میں قسط وار شائع کیا گیا جو یقیناًقارئین کی ایک تعداد کے حافظوں میں محفوظ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ’دلیپ کمار‘ کون تھا‘ کیا تھا اور اُس کے آبائی گھر (جنم بھومی) کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اِسے محفوظ ہونا چاہئے؟ قیام پاکستان (برصغیر پاک و ہند کی تقسیم) سے قبل یوسف خان نامی جادوئی شخصیت کا مالک خوبرو نوجوان‘ ملازمت کی تلاش میں اتفاقیہ طور پر فلمی دنیا جا پہنچا‘ اُور اِس کے بعد ملنے والے اِس موقع کو اُس نے حقیر نہیں سمجھا اور نہ ہی پھر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ فلم انڈسٹری کے اُن دنوں تقاضوں کی وجہ سے اُس نے فرضی فلمی نام ’دلیپ کمار‘ اپنایا اور خوب شہرت پائی۔ شاید اِس زوایئے سے بہت کم لوگوں نے سوچا ہو کہ جس ’دلیپ کمار‘ کی فن اداکاری کا ایک جہان معترف ہے اُنہوں نے ’قصہ خوانی بازار‘ سے ملحقہ ایک ایسے محلے میں آنکھ کھولی جہاں سماج اور معاشرے کے مضبوط خاندانی نظام پر گہرے اثرات ہوا کرتے تھے۔ دلیپ کمار نے اداکاری کی تعلیم و تربیت کسی ادارے سے حاصل نہیں کی بلکہ یہ اُن کی وہ خداداد صلاحیت تھی جو محلہ خداداد سے لیکر ’بالی ووڈ‘ تک عروج کی داستان ہے اور حکومت پاکستان نے اُن کی فلمی خدمات و نایاب شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے 1998ء میں اُنہیں اعلیٰ ترین ’سویلین اعزاز‘ نشان امتیاز‘ سے بھی نوازہ۔
دلیپ کمار کی پشاور میں پیدائش‘ یہاں بودوباش اور اِس شہر سے دلی تعلق کا اندازہ اُن کی آپ بیتی (کتاب) سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے‘ جس کے لئے تجویز ہے کہ ’گندھارا ہندکو بورڈ (اکیڈمی)‘ اِس کتاب کا ہندکو اُردو ترجمہ شائع کرے اور اگر کوشش کی جائے کہ دلیپ کمار کے آبائی گھر کے بچے کچے ملبے کو ایک نئی زندگی عطا کریں کیونکہ اب موسمی اثرات نے عمارت کو اِس حد تک خستہ حال کر دیا ہے کہ اِس کی بحالی اور ازسرنوتعمیر کے سوأ چارہ نہیں رہا۔ بیس برس سے ’’ہندکو دی ترقی دا عزم‘‘ لئے ’گندھارا ہندکو بورڈ‘ کی علمی ادبی اور ہندکووانوں کو متحد کرنے کے سلسلے میں خدمات (کوششیں) کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جنہیں ’دلیپ کمار‘ کے گھر کو ’مرکزی دفتر‘ بنانے کے لئے تحریک انصاف کے سربراہ (چیئرمین) عمران خان سے ملاقات کرنی چاہئے کہ بنی گالہ کا حکم ٹالا نہیں جاتا۔ ’گندھارا ہندکو بورڈ‘ کی زیرنگرانی نہ صرف مذکورہ مکان کی اراضی کی قسمت کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ ہو جائے گا بلکہ اِس کا زیادہ بہتر‘ مفید اور کارآمد استعمال بھی ہو سکیگا‘ جس پر دلیپ کمار کے اہل خانہ بھی فخر کریں گے۔
ہندکو زبان کے کسی معتبر و معزز ادارے کے لئے شہر کے دل میں مرکز ہونے کی کمی پوری ہونے کے ساتھ‘ علمی ادبی و دیگر تقاریب میں مقامی افراد کی زیادہ بڑی تعداد میں شرکت ممکن ہو گی اور پھر دلیپ کمار کی یادآوری‘ اُن کی ہندکو زبان سے محبت و نسبت کا یہ عملی اظہار تادیر زندہ و تابندہ بھی رہے گا۔
ذہن نشین رہے کہ سال دوہزار چودہ میں خیبرپختونخوا کے محکمۂ آثار قدیمہ نے ایک اعلامیہ (نوٹیفیکیشن) جاری کیا تھا جس میں ’آثار قدیمہ سے متعلق وفاقی حکومت کے ایک مجریہ 1975ء (Antiquities Act)‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ’دلیپ کمار‘ کے مکان کو ’قومی ورثہ (National Heritage)‘ قرار دیا گیا جس کا فوری ردعمل یہ دیکھنے میں آیا کہ مالک مکان (اراضی) نے اِس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع (حکم امتناعی حاصل) کر لیا اور یہ مقدمہ ایک آئینی رکاوٹ بن گیا‘ جو آج بھی کسی نہ کسی طور موجود ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ’’خیبرپختونخوا انٹی کوئٹیز ایکٹ 2016ء (KP Antiquities Act)‘‘ کے تحت مذکورہ مکان کو ازسرنو تعمیر کیا جا سکتا ہے لیکن پشاور کے تاریخی و (مبینہ) قومی ورثے کے بارے میں اس قدر دردمندی سے سوچ بچار کرنے والوں کو ابھی فرصت نہیں! پشاور میں صرف دلیپ کمار ہی نہیں بلکہ بھارتی فلمی دنیا کے دیگر نامور کرداروں راج کپور اور شاہ رخ خان کے آبائی مکانات (یا اُن کے آثار) بھی موجود ہیں‘ جن کی جلدازجلد بحالی اور اِن کے حسب اہمیت استفادے کی سبیل ہونی چاہئے۔
بنیادی طور پر ’دلیپ کمار‘ کے آبائی گھر کی ’آثار قدیمہ‘ کے نکتۂ نظر سے کوئی خاص حیثیت نہیں لیکن یہ ایک نادر موقع (جواز) ہو سکتا ہے کہ اِس مکان کی ثقافتی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پشاور کے اُس طرزتعمیر کو ’بطور نمونہ ہی سہی‘ لیکن پھر سے بحال (زندہ) کر دیا جائے‘ جو یہاں وہاں کی دیکھا دیکھی کی جانے والی تعمیرات (جدت پسندی کے عمل) میں کہیں گم ہو چکا ہے!
![]() |
The house of Dilip Kumar (Yusuf Khan) in Peshawar need restoration |
No comments:
Post a Comment