ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاق و سباق: بالائے طاق!
خیبرپختونخوا کے لئے ’مالی سال دوہزار سترہ اٹھارہ‘ کے دوران آمدن واخراجات کا میزانیہ (بجٹ) پیش کرتے ہوئے ہر شعبے کے لئے اضافی مالی وسائل مختص کرنے کو بڑھا چڑھا کر (سیاق و سباق سے ہٹ کر) پیش کیا گیا ہے جس نے اِس سوال کی گنجائش پیدا کر دی ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے سے لیکر ترقیاتی عمل کے لئے درکار (مزید) مالی وسائل (آمدنی) کہاں سے آئے گی؟
عام آدمی کے لئے شاید بجٹ کے اعدادوشمار سمجھنا آسان نہ ہو اور اِسی ’ناخواندگی‘ کا فائدہ ہر حکومت کی طرح موجودہ صوبائی حکومت بھی دل کھول کر اُٹھا رہی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت دوہزار اٹھارہ میں مکمل ہونے والی ہے اور وقت مقررہ یا قبل اَز مدت ’عام اِنتخابات‘ کے انعقاد کی صورتوں میں موجودہ بجٹ ہی ’ترجیحات کا خلاصہ‘ اور ’آخری کارکردگی‘ ثابت ہوگی۔ کیا صوبائی حکومت اِن اعدادوشمار کو یکسر مسترد کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے کہ اختتام پذیر ہونے جا رہے مالی سال میں آمدنی کے جس قدر اہداف مقرر کئے گئے تھے وہ حاصل نہیں ہو سکے! مثال کے طور پر گذشتہ مالی سال (دوہزارسولہ سترہ) کے لئے صوبائی حکومت نے آمدنی کا ہدف 49.5 ارب روپے مقرر کیا تھا لیکن دس ماہ کے دوران (مئی دوہزارسترہ تک) صرف 20.9 اَرب اکٹھا کئے جا سکے! اِسی طرح آئندہ مالی سال (دوہزارسترہ اٹھارہ) کے لئے ٹیکس اور بناء ٹیکس ذرائع سے متوقع آمدنی 45.2 ارب روپے بیان کی گئی ہے جسے حاصل کرنا ممکن نہیں لیکن اگر صوبائی حکومت آمدنی سے متعلق اپنے ہی مقرر کردہ اہداف حاصل کر بھی لیتی ہے تو یہ رقم صوبائی بجٹ کے تناسب سے صرف 7.4فیصد ہی ہوگی۔
مالی سال دوہزارسولہ سترہ اور سترہ اٹھارہ کی بجٹ دستاویزات کا موازنہ کرنے سے باآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف آنے والی صوبائی حکومت کے لئے مالی ذمہ داریوں کا انبار لگا رہی ہے یعنی اگر آئندہ صوبائی حکومت تحریک انصاف کے (چھوڑے ہوئے) اَدھورے کام مکمل کرتی ہے اور اِس دوران کوئی بھی نیا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کرتی تو اُسے کم وبیش ’4 چار سال 5ماہ‘ صرف اُن ترقیاتی کاموں کی تکمیل کے لئے درکار ہوں گے‘ جن کی منصوبہ بندی اور اِس کے لئے مالی وسائل مختص کرنے والوں نے اُس مدت کو زیادہ اہمیت نہیں دی‘ جس پر اُس سے عام آدمی (ہم عوام) کی زندگی میں بہتری کا آغاز ہوگا۔
کیا یہ ممکن ہوگا کہ تحریک انصاف کے علاؤہ اگر کوئی دوسری جماعت خیبرپختونخوا میں آئندہ حکومت بنائے اور وہ اپنے انتخابی منشور و ترجیحات کو پس پشت ڈالتے ہوئے تمام تر مالی وسائل صرف اور صرف تحریک انصاف کی وضع کردہ ترقیاتی حکمت عملی پر خرچ کر دے؟ خیبرپختونخوا میں ترقی کا عمل پہلے سے زیادہ مشکوک اور ماضی سے زیادہ ’ناپائیدار‘ دکھائی دے رہا ہے‘ جو تضاد سے بھرے اعدادوشمار اور برسرزمین حقائق سے عیاں ہے اور باوجود کوشش بھی اِس مالی نظم وضبط اور ترقیاتی حکمت عملی کا دفاع ممکن نہیں‘ جس میں صوبائی خزانے سے ’ہم جماعت‘ اراکین قومی اسمبلی کو مالی وسائل فراہم کئے جا رہے ہوں! اگر ماضی کی حکمرانوں نے اپنے صوابدیدی اختیارات کا (بے دریغ) استعمال کرتے ہوئے ایسی (ناگوار) مثالیں چھوڑی ہیں‘ جن کا تعلق جماعتی‘ سیاسی‘ انتخابی یا پھر ذاتی ترجیحات سے تھا تو ’تبدیلی کی علمبردار‘ ایک تحریک کو قطعی طور پر یہ بات زیب نہیں دیتی تھی کہ وہ اُس دلدلی زمین پر پاؤں رکھتی‘ جس میں سوائے دھنستے چلے جانے کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا۔
عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے بجٹ دستاویز کے ہر صفحے اور ہر سطر کے ذریعے مالی نظم و ضبط یا ترقی کا جو نقشہ پیش کیا گیا ہے وہ زمینی حقائق میں فوری تبدیلی (بہتری) کا مؤجب نہیں بنے گا‘ تاوقتیکہ تحریک انصاف کے ہاتھ کوئی ’کرامت (جادو)‘ آجائے کیونکہ چار سالہ مالی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات ناممکن حد تک دشوار دکھائی دے رہی ہے کہ ترقی کے جو اہداف چار سال کے عرصے میں حاصل نہیں ہوسکے وہ یک بیک آئندہ مالی سال (دوہزارسترہ اٹھارہ) کے دوران حاصل کر لئے جائیں گے!
یاد رہے کہ صوبائی حکومت یہ دعویٰ بھی رکھتی ہے کہ اُسے محصولات (ٹیکسوں) سے 22.3 اور بناء ٹیکس آمدنی کے ذریعے 22.9 ارب روپے حاصل ہوں گے اور بناء ٹیکس لگائے جس آمدنی کا ذکر کیا گیا ہے وہ ’حکومتی اثاثوں‘ کی نجکاری ہے‘ جو کوئی نیا تصور (آئیڈیا) نہیں بلکہ یہ حکمت عملی (خواب) اِس سے قبل بھی پیش کیا جا چکا ہے بالخصوص خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں (بشمول ہزارہ ڈویژن) میں سیاحتی مقامات کو ترقی دینے اور نئے سیاحتی مقامات بنانے کے ذریعے صوبائی آمدنی میں اضافہ ہونے کی نوید سنائی گئی لیکن جو اہداف (کام) چار سال میں مکمل تو کیا شروع بھی نہ ہو سکا‘ وہ محض کسی ایک مالی سال میں کس طرح مکمل کر لیا جائے گا؟
اِس مرحلۂ فکر پر جنگلات کی ترقی اُور شجرکاری مہمات سے برسرزمین حقائق میں تبدیلی کا بطور خاص ذکر ضروری ہے‘ جس کا احتساب کرتے ہوئے اگر چیئرمین عمران خان اُن تمام کرداروں کے ذاتی اثاثوں اور رہن سہن میں تبدیلی کی چھان بین (احتساب) کریں تو حقیقت آشکارہ ہو جائے کہ ’ایک ارب درختوں پر مبنی شجرکاری مہم‘ کی بدولت ترقی کس قدر محدود اور متعلقہ فیصلہ سازوں کی ذاتی زندگیوں (رہن سہن) میں تبدیلی کا مظہر ثابت ہوئی ہے!
خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کے بعد سے جس قدر ترقی اور تبدیلی تحریک انصاف کے وزیروں مشیروں اور اُن کے آگے پیچھے ہاتھ باندھے ’فوج ظفر موج‘ کی زندگیوں میں آئی ہے‘ اُس جیسی ’’آشنا مثالیں‘‘ دیگر سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا بھی (مذمتی) بیان ہے۔ خودفریبی کی انتہاء ہے کہ خیبرپختونخوا کے مالی نظم وضبط کا ایک پہلو ایسا بھی ہے‘ جسے روشن اُور مثالی قرار دیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب گذشتہ مالی سال (دوہزارسولہ سترہ) کا اختتام ہو رہا تھا تو صوبائی خزانے میں 11.8 ارب روپے تھے اور اِس مرتبہ نئے مالی سال (دوہزار سترہ اٹھارہ) میں داخل ہوتے وقت صوبائی خزانے میں 24.8 ارب روپے ’ذخیرہ‘ ہیں! کیا صوبائی حکومت کا کام ’بچت‘ کرنا تھا یا (مینڈیٹ تھا کہ) دستیاب مالی وسائل کا استعمال کرکے وہ ’باسہولت بہتری (تبدیلی)‘ لائی جائے‘ ایک ایسی ’فقیدالمثال تبدیلی‘ جس کی خیبرپختونخوا آج بھی راہ دیکھ رہا ہے!
No comments:
Post a Comment