Saturday, June 24, 2017

June2017: Why protecting the-environment with laws, not just enough!?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مشن: پاک سرزمین!
خیبرپختونخوا حکومت کی ’خلوص نیت‘ سے کوشش رہی ہے کہ غیرمعیاری پلاسٹک سے بنی مصنوعات بالخصوص اُن کم قیمت ’شاپنگ بیگز‘ پر عائد پابندی کا ’سوفیصدی‘ اطلاق عملاً ممکن بنایا جائے‘ جن کی وجہ سے نہ صرف قدرتی ماحول کو خطرات لاحق ہیں بلکہ ایسی ’مضر پلاسٹک‘ سے بنی اَشیاء کے روزمرہ و عمومی استعمال کی وجہ سے ’اِنسانوں اُور دیگر ہم زمین جانداروں کی صحت‘ بھی مستقل خطرے سے دوچار ہے لیکن صوبائی فیصلہ سازوں کا یہ عزم‘ حتیٰ کہ قانون سازی جیسی ضرورت پوری کرنے کے باوجود بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہ ہونے کے اسباب توجہ طلب ہیں۔

صوبائی حکومت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پابندی کے اطلاق کے باوجود بھی مارکیٹ میں کھلے عام ’غیرمعیاری پلاسٹک‘ سے بنی اشیاء فروخت ہو رہی ہیں بالخصوص دور دراز اضلاع میں صورتحال زیادہ سنگین ہے‘ جہاں کمزور انتظامی نظام کی بدولت قدرتی ماحول (آب و ہوا) کی تباہی کے اِن بنیادی محرکات کی بذریعہ حکم (قوانین اور قواعد) حوصلہ شکنی ممکن نہیں۔ مارکیٹوں میں کھلے عام فروخت ہونے والے ’سیاہ رنگت والے اُور دیگر غیرمعیاری پلاسٹک سے بنائے گئے شاپنگ بیگز‘ کی بھرمار دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ ایک تو معاشرے کی ہر خصوصی و عمومی سطح پر شعور کی کمی ہے کہ صارفین ازخود غیرمعیاری شاپنگ بیگز کا استعمال ترک کر دیں جیسا کہ مغربی ممالک میں ہوا ہے اور دوسرا قانون نافذ کرنے والوں اِداروں اُور ضلعی انتظامیہ کی دیگر مصروفیات (ترجیحات) میں اِنہیں اِس بات کا خیال (دھیان) ہی نہیں رہتا کہ کس طرح ایک ’زہر‘ نہایت ہی خاموشی سے معاشرے کی رگوں میں سرایت کر رہا ہے اُور اگر ’غیرمعیاری پلاسٹک‘ سے اشیاء کی تیاری‘ فروخت اور استعمال کے جاری سلسلے کو اِس مرحلے پر نہ روکا گیا‘ تو اِس سے قدرتی ماحول پر دباؤ بڑھتا چلا جائے گا۔

آنے والے دنوں میں موسمیاتی تبدیلیاں زیادہ تیزی سے ظہور پذیر ہوں گی۔ بارشوں میں کمی اور اِن کی طوفانی شدت میں اضافہ ہوگا جبکہ کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے اور دریاؤں‘ ندی نالوں میں طغیانی کے باعث زمین کے کٹاؤ جیسے انتہاء کے منفی اسباب ظاہر ہوں گے‘ جو پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا جیسی زراعت پر منحصر معیشت و معاشرت کے لئے ’اچھی خبر‘ نہیں۔

کسی تحریک کی کامیابی کے لئے ’عزم‘ کا مسلسل رہنا بھی ضروری ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے غیرمعیاری پلاسٹک سے بنی اشیاء کے خلاف ’نئے عزم‘ سے کاروائی کے لئے ’ایک مرتبہ پھر‘ ایسی ہر قسم کی پلاسٹک سے مصنوعات (اشیاء) کی درآمد‘ تیاری اور خریدوفروخت پر ’پابندی عائد کر دی ہے‘ جنہیں اگر زمین میں دفن کیا جائے تو وہ اَزخود (قدرتی طور پر) زائل (تحلیل) نہ ہوں۔ کیمیائی مادوں سے بنی ہوئی ایسے non-biodegradable مادوں (خام مال) کی درآمد اور اِن سے مختلف اشیاء کی تیاری پر نئی پابندیوں کی منظوری کا اعلامیہ (نوٹیفیکیشن) ’21 جون‘ کو جاری کیا گیا ہے جسے ’’خیبرپختونخوا پروہیبی ٹیشن آف نان بائیوڈیگریڈایبل پلاسٹک پراڈکٹس اینڈ ریگولیشنز آف آکزو بائیوڈگریڈایبل پلاسٹک پراڈکٹس رولز 2017ء‘‘ جیسی طویل و پیچیدہ اصطلاحی نام دیا گیا ہے۔

سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کو قانون اور قواعد سازی کرتے ہوئے ’عام فہم مفہوم‘ کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ عام آدمی (ہم عوام) کی قانون سازی میں دلچسپی کا معیار بڑھایا جا سکے اور اُن جملہ اہداف کا حصول عملاً یقینی بنایا جا سکے جو ائرکنڈیشن کمروں اور ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر وضع کئے جانے والے اعدادوشمار کی حد تک تو بہت ہی خوبصورت ہیں لیکن ان کا برسرزمین حقائق سے تعلق نہیں۔ قوانین اور پابندیوں کا اطلاق کرتے ہوئے روائتی طورطریقوں کی اصلاح کرنا ہوگی جیسا کہ ’ہوائی فائرنگ‘ پر پابندی کا سوفیصد ہدف تاحال حاصل نہیں ہوسکا اور یہی وجہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ’بناء اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے‘ فیصلہ کیا ہے کہ ’ہوائی فائرنگ کے خلاف عوامی شعور میں اضافے کے لئے مسجد و منبر سے مدد لی جائے۔

علماء دین اور مساجد کے وعظین اِس سلسلے میں قرآن و حدیث مبارکہ کی روشنی میں عوام الناس کی رہنمائی کریں کہ کس طرح یہ بات بھی ’فرائض‘ ہی میں شامل ہے کہ نہ صرف اردگرد کے قدرتی ماحول کا خیال رکھا جائے بلکہ ایسی اشیاء کا استعمال بھی ترک کردیا جائے‘ جو ماحول کی تباہی (زوال پذیری) کا سبب بن رہی ہیں اور اِن میں سب سے نمایاں ’غیرمعیاری پلاسٹک‘ سے بنی ہوئی اشیاء ہیں۔

ہوائی فائرنگ جیسے ’بے لذت گناہ‘ کے بارے میں عوامی شعور کی سطح ایک درجے بلند کرنے کی حکمت عملی کا اطلاق اگر ’غیرمعیاری پلاسٹک‘ کی اَشیاء پر بھی کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ غیرمعیاری پلاسٹک سے بنی اشیاء کی مانگ میں کمی ہوتی چلی جائے گی۔ فیصلہ سازوں کے لئے دوسرا محاذ ’غیرمعیاری پلاسٹک‘ سے مختلف مصنوعات (اشیاء) تیار کرنے والی وہ صنعتیں اور فروخت کے مراکز ہیں‘ جہاں پابندی کا اطلاق ہونے سے قبل بڑی مقدار میں ایسی ’پلاسٹک‘ موجود ہے‘ جسے ممنوع تو قرار دے دیا گیا ہے لیکن حکومت کے پاس نہ تو اِن کی مقدار (حجم) کے بارے میں اعدادوشمار ہیں اور نہ ہی ایسے ذخیروں کو قبضے میں لیا گیا ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ ’مضر ماحول پلاسٹک کے ذخیروں‘ کو بھی تلف کیا جائے کیونکہ جب تک چوری چھپے غیرمعیاری پلاسٹک سے روزمرہ استعمال کی کم قیمت مصنوعات کی تیاری کا عمل جاری رہے گا‘ اُس وقت تک صرف قانون سازی اور حکمنامے کارآمد (کارگر) ثابت نہیں ہوں گے۔

تجویز ہے کہ اِس سلسلے میں صنعتکاروں کو بذریعہ مذاکرات (بات چیت) اعتماد میں لیا جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب تک خام مال اور گوداموں میں پڑی ہوئی اشیاء فروخت ہو کر ختم نہیں ہو جاتیں اُس وقت تک ایسی کسی بھی پابندی کے (خاطرخواہ اثرات) ثمرات ظاہر نہیں ہوں گے۔

عوامی سطح پر کپڑے سے بنے ہوئے تھیلے استعمال کرنے کی ترغیبی مہمات شروع کی جا سکتی ہیں جن میں عام آدمی (ہم عوام) کو ماحول دوست ’طرز زندگی‘ کے اصول اور اُن طور طریقوں کی یاد دہانی کرائی جائے جو کبھی ہمارے معاشرے کا خاصہ ہوا کرتے تھے۔ ہر گھر میں دودھ‘ دہی‘ روٹی‘ سبزی یا دیگر روزمرہ ضروریات لانے کے لئے کپڑے سے بنے ہوئے تھیلے یا برتن استعمال کئے جاتے تھے‘ جن کی جگہ رفتہ رفتہ ’پلاسٹک شاپنگ بیگز‘ نے لے لی۔ یاد رہے کہ شفاف پلاسٹک کے علاؤہ دھندلی یا کالی رنگت والی پلاسٹک کی اشیاء بالخصوص ماحول و انسان دوست نہیں۔

صوبائی حکومت کو ’غیرمعیاری پلاسٹک‘ کے بارے میں جہاں ’عوامی شعور‘ میں اضافہ کرنے کے لئے مسجد و منبر‘ نصاب تعلیم‘ ذرائع ابلاغ اور مہمات جیسے حربوں سے کام لینا چاہئے وہیں صنعتکاروں‘ تاجروں اُور دکانداروں کو بھی ’مشن پاک سرزمین‘ کا حصہ بناتے ہوئے اُس ’جدوجہد (جہاد)‘ میں عملاً شریک کرنا چاہئے‘ جس کا تعلق (دارومدار) کرۂ ارض پر رہنے والے ہر جاندار کی حیات و بقاء (حال و مستقبل) سے ہے!

No comments:

Post a Comment