Saturday, September 23, 2017

Sept 2017: Corruption based development in KP: Story of Street No 8

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
گلی نمبر آٹھ!
بیان کرنے کو ’کارنامے‘ تو بہت ہیں لیکن ’کارہائے نمایاں‘ نہیں۔ خیبرپختونخوا میں ’تبدیلی کے ثمرات‘ یقینی طور پر ظاہر ہوتے اگر (اوّل) قانون ساز اراکین صوبائی اسمبلی سے یہ اِختیار واپس لے لیا جاتا کہ وہ اپنے اپنے انتخابی حلقے میں ترقیاتی عمل کی نگرانی اور اِس کے اِنتخاب سے متعلق ترجیحات کا تعین کریں۔ ماضی کے تجربات سے حاصل ہونے والے نتائج متقاضی تھے کہ اَراکین اسمبلی کے پیش نظر رہنے والے ذاتی‘ سیاسی اُور جماعتی مقاصد (مجبوریاں اُور مصلحتوں) کے باعث اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی نہ تو ترقی کا معیار پائیدار ثابت ہوا ہے اُور نہ ہی اِس سے کسی علاقے میں اجتماعی بہبود کی ضروریات پوری ہوئی ہیں۔ (دوئم) خیبرپختونخوا میں ’تین سطحی ضلعی حکومتوں کا نظام‘ متعارف کرنا ہی کافی نہیں تھا بلکہ اِسے اختیارات کی منتقلی اور سوفیصد ترقیاتی کاموں کی ذمہ داری سونپ دینی چاہئے تھی۔ 

المیہ ہے کہ دنیا کا بہترین اور اصلاح شدہ مثالی ’بلدیاتی نظام‘ وضع اور لاگو تو کر دیا گیا لیکن اِسے ملک کے کسی بھی دوسرے صوبے کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی خاطرخواہ فعال نہیں کیا گیا۔ اعدادوشمار عیاں ہیں کہ موجودہ صوبائی حکومت نے کسی ایک بھی مالی سال (عوام کے منتخب) ضلعی نمائندوں کو حسب دستور ’تیس فیصد‘ ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے! علاؤہ ازیں ضلعی حکومتوں کی موجودگی میں کمشنر‘ ڈپٹی کمشنرز اُور اسسٹنٹ کمشنروں اور اِن کے شاہانہ دفاتر‘ سرکاری رہائشگاہوں‘ گاڑیوں اور ماتحت عملے کی ’فوج ظفرموج‘ کو گود لینے کی ضرورت (منطق) ماسوائے مالی وسائل کے ضیاع اُور کیا ہو سکتی ہے لیکن چونکہ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے ’مالی وسائل‘ استعمال ہو رہے ہیں‘ اِس لئے روائت پسند سیاسی فیصلہ سازوں کو سادگی‘ بچت اور کم خرچ بالانشین طرزحکمرانی کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت (حاجت) نہیں۔ اِس موافق ماحول میں ’’وی آئی پی‘‘ کلچر کے دلدادہ ’انقلابیوں‘ کی کمزوریوں سے افسرشاہی (بیوروکریٹس) خوب فائدہ اُٹھا رہی ہے اور اپنے صوابدیدی اختیارات کی بقاء و مراعات برقرار رکھے ہوئے ہے! 

سیاسی فیصلہ ساز بظاہر ’فرمان تابع‘ افسرشاہی کی تعریف و توصیف سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ (سوئم) تبدیلی اُس وقت تک ممکن ہی نہیں ہو سکتی جب تک سرکاری محکموں میں سزاوجزأ کا نظام متعارف نہ ہو جائے۔ سالہا سال سے ایک ہی ضلع میں تعینات اور انتظامی عہدوں پر صوابدیدی اختیارات رکھنے والوں کے اثاثہ جات کی خفیہ ذرائع سے چھان بین (بلاامتیاز و رعائت احتساب) ضروری ہے۔ مئی دوہزارتیرہ کے عام انتخابات کے بعد جب تحریک انصاف کو صوبائی حکومت ملی تو سرکاری دفاتر میں پہلا ایک سال خوف کی وجہ سے بدعنوانی (خردبرد) کی شرح کم رہی لیکن رفتہ رفتہ یہ خوف زائل ہو چکا ہے اور متعلقہ عزت مآب سیکرٹریوں سے لیکر عوامی نمائندوں‘ وزراء اور مشیروں کی اکثریت بہتی گنگا میں صرف ہاتھ نہیں دھو رہی بلکہ غسل فرما رہی ہے۔ آج کامل ’’چار سال چار ماہ‘‘ بعد خیبرپختونخوا میں حکمرانی کا حال یہ ہے کہ کسی ایک بھی سرکاری محکمے کی کارکردگی مثالی نہیں اور بالخصوص تعمیروترقی کے (فنی و تکنیکی) نگران ’کیمونیکیشن اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو)‘ اُور سول ورک کے ٹھیکیداروں میں ’باہمی احترام و تعاون‘ اور ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنے کا سلسلہ ماضی کے سیاسی ادوار ہی کی طرح بناء خوف و خطر جاری ہے! کیا یہی وہ جنون‘ تبدیلی اور احتساب ہے‘ جس کا خواب دکھاتے ہوئے ’تحریک انصاف‘ نے مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل بلندبانگ وعدے کئے گئے تھے؟

تمہید طویل ہو گئی لیکن ’تین اَمور‘ (ترقیاتی فنڈز پر اراکین اسمبلی کی اجارہ داری‘ ضلعی حکومتوں کی عدم فعالیت سے اَفسرشاہی کی حکمرانی اُور سرکاری ملازمین کی خراب کارکردگی سے نشوونما پانے والے مضمرات) کی نشاندہی اِس لئے بھی ضروری تھی کہ تحریر کے مرکزی خیال کی اہمیت واضح ہو جائے جس میں بظاہر ذکر تو ضلع ایبٹ آباد کی یونین کونسل ’میرپور‘ کا ہے جس کی رہائشی بستی ’سول آفیسرز کالونی‘ کی ’گلی نمبر آٹھ‘ کی ’اَدھوری فرش بندی‘ منتخب نمائندوں کی دلچسپی اور حکومتی اداروں کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تصویر کے بڑا رخ پر نظر کیجئے۔ یہ معاملہ (قضیہ) صرف کسی ایک گلی (سٹریٹ) کا نہیں بلکہ ترقی کے نام پر جاری مالی و اِنتظامی بدعنوانیوں کی وجہ سے دن دیہاڑے‘ کھلم کھلا اُور علی الاعلان ترقیاتی وسائل کی خردبرد کا ہے اور ترقی کے لئے مختص وسائل کا بڑا حصہ ذاتی اثاثوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ ’گلی نمبر آٹھ‘ صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’PK-44‘ اور قومی اسمبلی کے حلقہ ’NA-17‘ کا حصہ ہے جس کی ’پختہ فرش بندی‘ کے لئے رکن قومی اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز سے ’دس لاکھ روپے‘ فراہم کئے گئے۔ یہ فنڈز ’سی اینڈ ڈبلیو‘ کو منتقل ہوئے تو اخبارات میں ٹینڈر شائع ہوا۔ 

سول کام کا ٹھیکہ ’10فیصد‘ کم قیمت پر ایک ایسے ٹھیکیدار کو سپرد کر دیا گیا جس کے وسیع تجربے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ ’سی اینڈ ڈبلیو‘ کے ’قواعدوضوابط‘ کے مطابق سرکاری اہلکاروں کو خوش کرنا جانتا ہے۔ مذکورہ گلی کی تعمیر مکمل کرنے کی حامی بھرنے والے سے محکمے استفسار اور تحقیق ہونی چاہئے تھی کہ کس طرح قریب ’’300 میٹر لمبی اور چودہ فٹ چوڑائی‘‘ گلی کی فرش بندی ’نو لاکھ روپے‘ میں مکمل کی جائے گی جس سے قبل پوری گلی کا لیول (level) ہونا چاہئے۔ ٹھیکیدار نے کل 6 دن (اوسطاً پانچ گھنٹے روزانہ) کام کرنے کے بعد دو تہائی گلی میں (بناء پانی کی نکاسی کی سطح (لیول)کئے) اڑھی ترچھی ریت‘ بجری اور سیمنٹ بچھائی اور چلتا بنا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ محکمے سے منظوری کس طرح لینی ہے! وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ غیرضروری ملنساری اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرض شناس’سی اینڈ ڈبلیو‘ کا ایک اہلکار سرکاری تعطیل (یکم محرم الحرام: بائیس ستمبر) کے روز گلی کی پیمائش کرنے تشریف لایا۔ ’سب اچھا‘ کی رپورٹ لکھی‘ جس میں نہ تو معیار دیکھا گیا اور نہ ہی باقی ماندہ کام‘ جسے مکمل کرنا ٹھیکیدار کی ذمہ داری تھی‘ اُس پر تشویش کا اظہار کیا۔ یوں بمشکل پانچ لاکھ روپے خرچ ہوئے‘ جس میں پچاس ہزار سے کم مزدوروں کی اُجرت اور باقی ماندہ ریت‘ بجری‘ سیمنٹ‘ سازوسامان اور مشینری کے کرایہ میں ادا کرنے کے بعد ’ٹھیکیدار بھی خوش اور ’سی اینڈ ڈبلیو‘ اہلکاروں کے بھی دفتروں میں بیٹھے بٹھائے ’وارے نیارے‘ ہو گئے لیکن اگر قسمت نہیں بدلی تو صرف ’گلی نمبر آٹھ کی!‘ تصور کیجئے کہ ’این اے سترہ‘ میں رکن قومی اسمبلی کے سالانہ ترقیاتی فنڈز سے ہر سال ایک کروڑ جبکہ رکن صوبائی اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز سے سالانہ کروڑوں روپے کے ترقیاتی کام ہوتے ہیں‘ جن کا مجموعی حجم پچاس کروڑ روپے سے زیادہ ہوتا ہے تو جب ’’گلی نمبر آٹھ‘‘ کی فرش بندی میں چالیس سے پینتالیس فیصد فنڈز خردبرد کر لئے گئے ہوں وہاں قریب نصب ارب روپے کا کیا حشر ہوتا ہوگا؟ 

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان‘ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک‘ متعلقہ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون اور رکن صوبائی اسمبلی مشتاق احمد غنی سے درخواست ہے کہ وہ ’گلی نمبر آٹھ‘ کو بنیاد بنا کر نہ صرف مجموعی ترقیاتی فنڈز میں ہونے والی بڑے پیمانے پر خردبرد کا نوٹس لیں‘ جملہ ترقیاتی کاموں کا محکمۂ انسداد بدعنوانی کے ذریعے تکنیکی اور مالی امور کی تحقیقات (آڈٹ) ہوں‘ سی اینڈ ڈبلیو اہلکاروں کے اثاثہ جات کی فہرستیں بھی مرتب ہوں اور سب سے بڑھ کر ازرائے کرم ’’گلی نمبرآٹھ‘‘ کی فرش بندی کا باقی ماندہ کام مکمل کروایا جائے۔ کیا تحریک انصاف اِس ’ادھوری ترقی‘ کے ساتھ آئندہ عام انتخابات میں کامیابی جیسی خوش فہمی کا شکار ہے؟

No comments:

Post a Comment