Retired female civil servant to contest for kurram NA seat
علی بیگم: ہمت مرداں کی عملی تصویر!
پاکستان کی صرف سیاسی جماعتیں ہی آئندہ عام انتخابات اُور ممکنہ کامیابیوں پر نگاہیں جمائے ہوئے نہیں بلکہ کئی سماجی شخصیات بھی بطور اُمیدوار انتخابی معرکے میں حصہ لینے کی تیاری کئے بیٹھی ہیں اور اِن میں کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والی علی بیگم بھی شامل ہیں جن کا تعلق وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) سے ہے۔ اگرچہ علی بیگم ایسی پہلی خاتون نہیں جو قبائلی علاقے سے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے اُمیدوار ہوں گی لیکن وہ اپنی جیت کے لئے پراُمید اور مقابلے کے لئے سنجیدہ تیاری رکھتی ہیں۔ اُن کے عزم کا اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سات اپریل کو کرم ایجنسی کے صدر مقام (ہیڈکواٹر) پاڑہ چنار میں ایک عوامی اجتماع (پبلک میٹنگ) سے بھی خطاب کیا جبکہ ابھی عام انتخابات کا انعقاد مہینوں کے فاصلے پر ہے۔ درحقیقت انہوں نے کرم ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ سے اِس اجتماع کے انعقاد کی تحریری اجازت بھی حاصل کی تھی جس کے لئے ’’مہاجرین گراؤنڈ‘‘ کا انتخاب کیا گیا لیکن پولیٹیکل انتظامیہ نے سیکورٹی صورتحال کی وجہ سے اُنہیں تاکید کی کہ وہ رابطہ عوام کے سلسلے میں عوامی اجتماع کا انعقاد اپنے انتخابی دفتر ہی کے احاطے میں کریں۔
علی بیگم‘ قومی اسمبلی کے انتخابی حلقہ 46 (این اے چھیالیس) کرم ایجنسی سے اُمیدوار ہوں گی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ’مردم شماری 2017ء‘ کی روشنی میں نئی انتخابی حلقہ بندیاں طے کی گئی ہیں‘ جن کی رو سے کرم ایجنسی کے مذکورہ حلقے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اس سے قبل کرم ایجنسی میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں تھیں۔ عمومی طور پر ایک نشست پر بالائی علاقوں پر مشتمل اکثریتی شیعہ اُمیدوار کامیاب ہوتا اور دوسری نشست جو کرم ایجنسی کے زریں اور وسطی علاقوں پر مشتمل ہوتی اُس سے سنی اُمیدوار کی کامیابی یقینی ہوتی۔ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے اِس مرتبہ کرم ایجنسی سے صرف ایک رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگا اُور اِسی وجہ سے سخت انتخابی مقابلے کی توقع ہے۔ نئی حلقہ بندی کی وجہ سے کرم ایجنسی کے بالائی‘ وسطی اور زریں علاقوں پر مشتمل نشست پر کامیابی کسی بھی طرح آسان نہیں ہوگی‘ کیونکہ اِن علاقوں میں فیصلہ کن اکثریت مردوں کی ہے لیکن اِس زمینی حقیقت کے باوجود ’علی بیگم‘ نے انتخاب میں بطور اُمیدوار حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنی جیت کے لئے پراُمید بھی ہیں۔
علی بیگم دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ قبائلی علاقے ’اب پرامن ہیں‘ اور اَمن کی بحالی اِس حد تک ہو چکی ہے کہ اب ایک خاتون بھی انتخابی عمل میں حصہ لے رہی ہے اور اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں عوامی اجتماعات کا انعقاد بھی کر رہی ہے۔
علی بیگم کا تعلق کرم ایجنسی کے گاؤں ’ماکئی مالانہ (Maikai Malana) کے ایک معروف اور پڑھے لکھے گھرانے سے ہے۔ اُن کے بھائی ڈاکٹر مقداد امراض قلب کے ماہر ہیں جن کا شمار معروف معالجین میں ہوتا ہے۔ علی بیگم نے جامعہ پشاور سے ’بیچلرز آف آرٹس‘ اور ’بیچلرز آف ایجوکیشن‘ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1977ء میں ’آل پاکستان فیڈرل سول سروس ایگزیمینیشن‘ (مقابلے کے امتحان) میں حصہ لیا۔ وہ ایسی پہلی قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والی خاتون تھیں جنہوں نے مذکورہ امتحان میں حصہ لینے کی اہلیت حاصل کی تھی اور پھر انہیں سرکاری ملازمت (سول سرونٹ) حاصل کرنے میں بھی کوئی دقت نہ ہوئی۔ ملازمت ملنے کے بعد بھی اُنہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ’اسٹریٹجیک سٹڈیز‘ میں ماسٹرز کیا۔ علی بیگم اُنتیس برس تک مختلف اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہنے کے بعد سال 2009ء میں 22ویں گریڈ میں ریٹائرڈ ہوئیں۔ اِس عرصے میں انہیں فرنٹیئر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی منیجنگ ڈائریکٹر‘ گورنر انسپکشن ٹیم کی چیئرپرسن‘ خیبرپختونخوا کی سیکرٹری برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ‘ پاپولیشن ویلفیئر کی ڈائریکٹر جنرل اور سیکرٹری‘ ایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن‘ ایڈیشنل سیکرٹری فنانس اُور پلاننگ اینڈ ایجوکیشن میں فاٹا سیکشن میں بطور سربراہ خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا اُور اِس تمام عرصے میں وہ ہمیشہ ایک فرض شناس آفیسر کے طور پر متعارف ہوئیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد علی بیگم کچھ عرصہ کے لئے اپنے بیٹے کے پاس امریکہ میں مقیم رہیں تاہم اِس دوران وہ پاکستان آتی جاتی رہیں اور اپنے آبائی اور قبائلی علاقے کے لوگوں سے تعلق کو برقرار رکھا۔ امریکہ کے قیام کے دوران وہ ’ٹولیڈو (Toledo)‘ میں ’پان پیسیفک ساؤتھ ایسٹ ایشیاء ویمن ایسوسی ایشن‘ کی سربراہ بھی رہیں‘ جو ایک معروف عالمی تنظیم ہے۔ اِس تنظیم کے پلیٹ فارم سے علی بیگم کو ’اقوام متحدہ‘ میں خواتین کی نمائندگی کا موقع ملا اور اُنہوں نے اپنی قابلیت و ذہانت سے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔
علی بیگم ایسی دوسری خاتون ہوں گی جو قبائلی علاقے سے قومی اسمبلی کی نشست کے لئے عام انتخاب میں بطور اُمیدوار حصہ لیں گی۔ پہلی قبائلی خاتون جنہوں نے عام انتخاب (مئی دوہزارتیرہ) میں حصہ لیا تھا وہ 38 سالہ محترمہ بادام زری تھیں جو مردان میں پیدا ہوئیں اور اُن کی شادی باجوڑ ایجنسی (قبائلی علاقے) میں ہوئی تھی۔ بادام زری روائتی تعلیم یافتہ نہ تھیں‘ انہوں نے ’باجوڑ ایجنسی‘ سے آزاد حیثیت میں حصہ لیا اور قبائلی علاقوں میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اُن کے خیالات کو ذرائع ابلاغ نے بہت اہمیت دی۔ بادام زری خود تو ناخواندہ تھیں لیکن اُن کے شوہر نور محمد سکول پرنسپل تھے۔ عام انتخاب میں ’این اے 44‘ سے بادام زری کے حصے میں صرف 140 ووٹ آئے تھے اور مذکورہ نشست پاکستان مسلم لیگ نواز کے شہاب الدین خان نے 14 ہزار 990 ووٹ حاصل کرکے جیتی تھی۔
علی بیگم گذشتہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی بادام زری سے کئی لحاظ سے مختلف‘ منفرد اور نمایاں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی ’انتخابی کامیابی‘ کے اِمکانات زیادہ روشن ہیں۔ ممکن ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں علی بیگم قبائلی علاقے سے منتخب ہونے والی پہلی رکن قومی اسمبلی کا اعزاز حاصل کر جائیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Retired civil servant Ali Begum may not be the first female candidate to contest election from the Federally Administered Tribal Areas (Fata), but she is certainly the first serious contestant from the tribal areas for a seat in the National Assembly (NA).
ReplyDeleteHer seriousness could be judged from the fact that she spoke at her first formal public meeting in Kurram Agency’s headquarters, Parachinar, on Saturday months before the polls. In fact, she had written to the Political Agent of Kurram Agency for permission to hold the public meeting in the Muhajireen Ground in Parachinar, but the administration advised her to arrange the gathering at her election office due to security concerns.
Ali Begum is contesting from the NA-46 Kurram Agency, a constituency that has undergone a big change after the recent delimitation of constituencies done by the Election Commission of Pakistan. Kurram Agency earlier had two National Assembly seats. Generally one seat went to a Shia candidate in upper part of the agency and the other to a Sunni in lower and central Kurram. Now one MNA would be elected and the sectarian divide could cause problems during the election campaign. The delimitation has made it even more challenging for Ali Begum to contest the polls in this conservative, male-dominated area, but she is determined to go ahead with her plans and win the election.
“I want to give a strong message to the world that Fata is now peaceful and a lady can hold public meetings there and contest election,” she told The News.
Ali Begum belongs to a prominent family from Maikai Malana village in Kurram Agency. Her family is educated and enjoys respect in the area. Her younger brother Dr Miqdad Ali is a well-known cardiologist in Peshawar.
ReplyDeleteShe did her Bachelor of Arts and Bachelor of Education from the University of Peshawar and qualified the All Pakistan Federal Civil Service examination in 1977. Ali Begum was the first female from Fata to qualify this examination and become a civil servant. She subsequently qualified her Masters in Strategic Studies from the Quaid-i-Azam University in Islamabad.
Ali Begum retired as a BS-22 officer in 2009 after serving for 29 years in the civil service and holding high positions. She served as managing director of the Frontier Education Foundation, chairperson of Governor Inspection Team, secretary Planning and Development Department, Khyber Pakhtunkhwa, director general and secretary, Population Welfare Department, additional secretary Education, additional secretary, Finance Department and chief of Fata Section, Planning and Development Department.
As a bureaucrat, she earned a good reputation because she was hardworking, upright and accessible. She is now using the goodwill she and her family built to interact with the electorate and seek votes.
After retirement, Ali Begum lived with her son in the United States. However, she regularly returned home to maintain her links with her people and area.
As President of the Toledo, US chapter of Pan Pacific S E Asia Women Association (PPSEAWA), an international organization working for women, Ali Begum represented her chapter at the CSW meetings at the United Nations and worked for the good name of Pakistan.
Ali Begum is the second female candidate from Fata to contest for a seat in the parliament.
The honour of being the first-ever female candidate from Fata went to 38-year old Badam Zari, who was born in Mardan and married in Bajaur Agency, in the May 2013 general election. She contested as an independent candidate from Bajaur and was able to make an impact in the media, more so when she spoke about her plans to educate girls. However, the illiterate Badam Zari, whose husband Noor Mohammad was a school principal, failed to impress the deeply conservative voters in Bajaur and polled 140 votes only. The seat was won by PML-N’s Shahabuddin Khan, who obtained around 14,000 votes, while the Jamaat-i-Islami and PTI candidates stood second and third in the contest.
Unlike Badam Zari’s token participation in the elections in Fata in 2013, Ali Begum is an important contender as her achievements are widely recognized and she and her family have over the years served the people of Kurram Agency. She could give other candidates a run for their money and who knows even become the first elected lawmaker from Fata.