Charter of economy
اقتصادی میثاق!
پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ تجارتی خسارہ (درآمدات و برآمدات میں عدم توازن) 35 ارب ڈالر جیسی بلند سطح تک جا پہنچا ہو۔ اِسی طرح ملک کے جاری اخراجات (کرنٹ اکاونٹ) کا 15 ارب ڈالر خسارہ بھی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اُور سالانہ آمدن و اخراجات میں خسارہ الگ سے تاریخی (اور پریشان کن) ہے جو ’’2 کھرب روپے‘‘ سے زیادہ ہو چکا ہے!
خطرے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو موجودہ جاری و طاری اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے 26 ارب ڈالر جیسی خطیر رقم کی ضرورت ہے۔ ’بلومبرگ‘ کے مطابق ’’ایشیائی ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے جس کے پاس موجود ڈالر کے ذخائر میں تیزی سے کمی آ رہی ہے اور بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ اِسی طرح برقرار رہا تو پاکستان کے پاس موجود ڈالروں کا ذخیرہ کمبوڈیا سے کم ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ کمبوڈیا کی اقتصادیات کا حجم پاکستان سے دس گنا کم ہے!‘‘
پاکستان کے اقتصادی مسائل اور اِس کے لئے ذمہ دار فیصلہ سازوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 48 برس میں پاکستان میں 10 مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ سال 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں 30.2 ملین (تین کروڑ سے زیادہ) خاندان آباد ہیں جن میں سے صرف ’’1ہزار 174 خاندان‘‘ ہی بار بار عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لیتے رہے ہیں اور مسلسل یہی خاندان ’ایک ہزار ایک سو چوہتر‘ قومی‘ صوبائی اور سینیٹ ایوانوں کی نشستوں پر براجمان ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات پر صرف اور صرف سرمایہ دار (بااثر) خاندانوں کی حکمرانی ہے جن کی ترجیحات میں ملکی اقتصادی صورتحال کی بہتری شامل نہیں اور یہی وہ مرحلہ فکر ہے جہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان پر حکومت کرنے اور پاکستان کے عوام الگ الگ طبقات ہیں۔ ایک طبقے کو معاشی و اقتصادی محاذوں پر درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی فکر نہیں اور دوسرے کی بقاء کا انحصار ہی بہتر معاشی و اقتصادی فیصلوں پر ہے۔
سال 2006ء میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا‘ جسے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کہا جاتا ہے۔ اِس معاہدے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ذاتی و سیاسی مفادات کی حفاظت کریں گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لئے تو اکٹھا ہوتی ہیں لیکن پاکستان کو درپیش اقتصادی مسائل کے حل کے لئے سرجوڑ کر نہیں بیٹھتیں تاکہ اتفاق رائے سے کوئی ایسا ’لائحہ عمل‘ تشکیل دیں جس سے قومی اقتصادی مسائل اور بحران سے نمٹنے کی راہیں متعین ہو سکیں؟
ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت اور اقتصادی ادارے اپنی مثالی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ اب تک ہوئے عام انتخابات 1970ء‘ 1977ء‘ 1985ء‘ 1988ء‘ 1990ء‘ 1993ء‘ 1997ء‘ 2002ء‘ 2008ء اُور 2013ء کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ سیاسی اشرافیہ اپنے مفاد کے لئے عوام (ووٹرز) کا استعمال کرتی ہے لیکن عوام کے اقتصادی مستقبل کو محفوظ اور یقینی بنانا اِس کے لائحہ عمل کا حصہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ قومی وسائل ’ایک ہزار ایک سو چوہتر‘ حکمراں خاندانوں کی بہبود کے لئے مختص دکھائی دیتے ہیں اور اسے تین کروڑ سے زائد پاکستانی خاندانوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔
پاکستان جانتا ہے کہ اِس کی جملہ مشکلات کا سبب اور اِن مشکلات کا فوری اور پائیدار حل کیا ہے۔ ہمارے اقتصادی ادارے امیروں کو لوٹنے اور غریبوں میں مالی وسائل تقسیم کرنے والے افسانوی کردار ’رابن ہڈ‘ کے متضاد ہیں اور یہ غریبوں کو لوٹ کر امیروں کے اثاثوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے حکمران امیروں سے حسب آمدن و رہن سہن ٹیکس (محصولات) وصول کرنے میں مسلسل ناکام ثابت ہوئے ہیں لیکن وہ کم آمدنی والے طبقات پر ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ عجب ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس غریب اور اپنی آمدن کے تناسب سے سب سے کم ٹیکس ’صاحبان ثروت‘ اَدا کرتے ہیں!
مالی سال 2008-09ء کے دوران ’وزیراعظم پاکستان‘ کے دفتر کا یومیہ خرچ ’چھ لاکھ روپے‘ رہا اور یہ چھ لاکھ روپے یومیہ سال کے ہر دن قومی خزانے سے ادا کئے گئے۔ رواں مالی سال میں وزیراعظم پاکستان کے دفتر کا خرچ 25 لاکھ روپے یومیہ ہو چکا ہے!
مالی سال 2008-09ء میں وفاقی حکومت کے انتظامی دفاتر ’’کبینٹ ڈویژن‘‘ کا یومیہ خرچ 40 لاکھ روپے تھا جو رواں برس بڑھ کر ڈیڑھ کروڑ روپے یومیہ ہوچکا ہے اور یہ رقم بھی قومی خزانے سے ادا کی جاتی ہے۔
مالی سال 2008-09ء میں صدر پاکستان کے دفاتر (پریذیڈنٹ ہاؤس) کا یومیہ خرچ 10لاکھ روپے تھا جبکہ رواں مالی سال (دوہزار سترہ اٹھارہ) میں یہ خرچ بڑھ کر ڈھائی کروڑ روپے یومیہ ہوچکا ہے جس کی ادائیگی قومی خزانے سے کی جاتی ہے!
جاپان کی مثال ملاحظہ کریں جہاں گذشتہ 20 برس کے دوران قریب ایک درجن وزیراعظم تبدیل ہوئے لیکن اُن کا اقتصادی نظم و ضبط‘ منشور اور قومی معاشی لائحہ عمل مستقل لاگو رہا‘ جس پر سیاسی تبدیلیوں کا اثر نہیں ہوتا۔ آخر یہ کیوں ممکن نہیں کہ نواز لیگ‘ پیپلزپارٹی اُور تحریک انصاف (پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں) مل بیٹھ کر ایک ایسا ’قومی اقتصادی و معاشی لائحہ عمل (اقتصادی میثاق)‘ مرتب کریں‘ جس کے ذریعے کم خرچ حکمرانی اور اقتصادی شعبوں میں ترقی عملاً ممکن بنائی جا سکے؟
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Never in our chequered financial history have we had a trade deficit of $35 billion. Never in our chequered financial history have we had a current account deficit of $15 billion. Never in our chequered financial history have we had a budgetary deficit of Rs2 trillion plus.
ReplyDeleteRed alert: Pakistan’s gross financing requirement stands at a colossal $26 billion. According to Bloomberg, “Pakistan is depleting its dollar reserves at the fastest pace in Asia and may soon have a buffer that’s smaller than Cambodia, an economy that’s less than a 10th of its size.”
Over the past 48 years, Pakistan’s ‘elite democracy’ has had 10 elections. According to census 2017, there are 30.2 million families in Pakistan, and of these 30.2 million families 1,174 families routinely take part, over and over again, in elections and continue to occupy 1,174 seats in the Senate, National Assembly and provincial assemblies. Pakistan’s elections, in essence, are an intra-elite competition. And the economy is what matters to the other 30.2 million families.
In 2006, Nawaz Sharif and Benazir Bhutto signed the Charter of Democracy in order to protect their personal and party interests. Why can’t all the major political parties sit together and agree upon a ‘core economic agenda’? Why can’t all the major political parties sit together and draft a ‘Charter of Economy’? For the sake of 30.2 million families.
ReplyDeleteWe all know that our democracy is ‘exclusive’ and that our economic institutions are ‘extractionary’. Elections in 1970, 1977, 1985, 1988, 1990, 1993, 1997, 2002, 2008 and 2013 have established a ‘narrow elite that has organised society for its own benefit at the expense of the vast mass of people. Political power has been narrowly concentrated, and has been used to create great wealth for those who possess it’. The losers have been the 30.2 million families.
We all know what is wrong with us. All our economic institutions are reverse Robin Hood – rob from the poor and give to the rich. Our budgets are reverse Robin Hood – rob from the poor and give to the rich. Our regulatory agencies are reverse Robin Hood – rob from the poor and give to the rich. Our taxes are reverse Robin Hood – rob from the poor and give to the rich. Yes, the poorest of the poor Pakistanis are being burdened more and more as the government fails to collect taxes from the rich. That is a classic case of ‘reverse Robin Hood’.
In 2008-09, the PM Office swallowed Rs600,000 a day every day of the year. Today, the PM Office costs Pakistani taxpayers Rs2.5 million a day every day of the year. In 2008-09, the cabinet division swallowed Rs4 million a day every day of the year. Today, the cabinet division costs Pakistani taxpayers Rs15 million a day every day of the year. In 2008-09, the President House swallowed Rs1 million a day every day of the year. Today, the President House costs Pakistani taxpayers Rs2.5 million a day every day of the year.
In Japan, a dozen prime ministers have come and gone over the past two decades. But, the charter of economy stayed intact. Can’t the PML-N, PPP and PTI sit together and write-up a ‘Charter of Economy’?