ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
موسم‘ زراعت اُور اِنسان!
ہم زمین موسموں کی تبدیلی اور موسم اہل زمین کی سمجھ بوجھ پر ہنس رہے ہیں!
انسانی تاریخ میں اِن دیکھے بھالے‘ مانوس تغیرات کے منفی اَثرات معلوم ہیں جو نہ صرف متاثرہ علاقوں کے رہنے والوں کے روزمرہ معمولات زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں بلکہ ’زرعی پیداوار‘ اُور کسی نہ کسی صورت زرعی شعبے (زرعی معیشت و معاشرت) سے وابستہ غیرمقامی افراد کی بڑی تعداد بھی متاثرین میں شامل ہے اُور اندیشہ ہے کہ رواں برس (دوہزار اٹھارہ) کے دوران موسم گرما کی شدت ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دے گی لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے آنے والے رواں شدید موسم گرما سے نمٹنے اور اِس دوران بالخصوص اعلیٰ تعلیمی اِداروں اور دفاتر کے اُوقات بارے غوروخوض نہیں کیا گیا‘ جنہیں گرمی کے موسم میں بھی کام کاج جاری رکھنا پڑتا ہے۔ موسمی تبدیلیوں کا پہلا عکس ’بارشوں کی کمی‘ کی صورت ظاہر ہوتا ہے اور خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں بالخصوص ضلع چترال میں گذشتہ برس دسمبر سے بارشیں اور برفباری کا سلسلہ اوسط مقدار سے کم رہا ہے جس کی وجہ سے ’خشک سالی‘ مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن مجال ہے جو کسی سیاست دان کے منہ سے ’خشک سالی‘ کے بارے میں ایک لفظ بھی تشویش کا سننے کو ملا ہو۔
یہ موسم ہماری زرخیز زمینوں کو بنجر بنا رہے ہیں۔ ہماری فصلیں مقدار اور معیار کے لحاظ سے متاثر ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے غذائی اجناس کی قلت اور اِس قلت کی وجہ سے طلب میں اضافے کے باعث مہنگائی عام ہے۔ علاؤہ ازیں حکومت کو سبزی اور پھل جیسی غذائی اجناس درآمد بھی کرنا پڑتی ہیں جبکہ اگر موسمی تبدیلیوں کے اثرات کا مطالعہ اور ان کے محرکات کے ازالے کی کوششیں کی جائیں تو بہتری (اصلاح و تبدیلی) ممکن ہے۔
سردست خیبرپختونخوا کے ضلع چترال پر اِس سال شدید خشک سالی کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ پورا موسم سرما گزر گیا ہے لیکن خاطرخواہ برفباری نہیں ہوئی ہے اور بارشوں کے موسم میں بھی اہل چترال کی آنکھیں اور زمین کی پیاس سیراب نہ ہو سکیں! چترال میں خشک سالی سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث اِس سال ضلع کے بالائی علاقوں میں ’گندم‘ اُور ’جو (barley)‘ کی کم پیداوار حاصل ہوگی جبکہ اِن علاقوں (پہاڑوں اور ودایوں) سے حاصل ہونے والی سبزی بھی رواں سال کم حاصل ہونے کے واضح آثار ہیں۔ یاد رہے کہ چترال کی وادی بہترین معیار کی سبزی‘ پھل اور فصلوں کے لئے مشہور ہے‘ ایک وقت تھا کہ یہاں سے حاصل ہونے والی زرعی اجناس کا بڑا حصہ برآمد کیا جاتا تھا‘ لیکن آج کم مقدار میں سبزی‘ پھل اور فصلیں مقامی ضروریات ہی کے لئے کافی نہیں تو برآمدات کیسے ممکن ہوں گی!؟
ضلع چترال میں سبزی ماہ مارچ سے اپریل کے درمیان کاشت ہوتی ہیں‘ لیکن ملکو‘ شوٹخار‘ زیزدی ماداک‘ لون‘ ڈونے اویر‘ لووائی اور دیگر ملحقہ علاقوں میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے آبپاشی کے لئے آبی وسائل کی کمی ہے! مقامی کاشتکاروں کے لئے اِس کے سوأ کوئی دوسری صورت نہیں رہی کہ وہ فصلوں اُور سبزی کی بجائے ایسے چارہ جات کاشت کریں جن سے اُن کے مال مویشیوں کا گزربسر ہو سکے اور آنے والے زیادہ مشکل دنوں کے لئے چارے کی کچھ نہ کچھ مقدار ذخیرہ بھی کی جا سکے۔ یہ ایک مشکل صورتحال ہے جس میں چھوٹے پیمانے پر کاشتکاروں اور باغبانوں کو پیداوار کی نہیں بلکہ اپنی بقاء کی فکرلاحق ہے اور وہ اِس آزمائش کے مرحلے پر حکومت سے مدد چاہتے ہیں تاکہ اُنہیں زیادہ پیداوار والے بیج‘ فصلوں کی کاشت‘ باغات کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اَدویات اُور بلاسود زرعی قرضہ جات کی صورت سہارا دیا جائے‘ تاکہ خشک سالی کے جاری عرصے میں چترال سے نقل مکانی کی نوبت نہ آئے۔ ’’سمٹنے کا بھی ہے اَب ہوش کس کو ۔۔۔ اَبھی رخت سفر بکھرا ہوا ہے (سالم شجاع انصاری)۔‘‘
چترال کی وادی میں خشک سالی کے اثرات تاحد نظر پھیلے باغات پر دیکھے جا سکتے ہیں جن کی ہریالی اور اِن دنوں (ماہ اپریل کے دوران) پھولوں سے مزین خوبصورتی ماند دکھائی دیتی ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ماضی کی طرح پھل پھول نہیں لگ سکے اور چترال جو کہ منفرد ذائقے والے سیب‘ خوبانی‘ آڑو‘ ناشپاتی اور چیری جیسے پھلوں کے لئے مشہور ہوا کرتا تھا اندیشہ ہے کہ اِس سیزن غیرمعمولی حد تک مذکورہ پھلوں کی کم پیداوار حاصل ہوگی‘ جو مقامی افراد کے روزگار اور آمدن کا بنیادی ذریعہ ہے۔ کوئی ہے کہ جس کے گوش گزار کیا جائے‘ توجہ دلائی جائے کہ چترال میں خشک سالی سے غربت کی شرح بڑھ رہی ہے!؟
پانی کی کمی کی وجہ سے سبزی کی کاشت اُور برداشت کی سرگرمیاں رواں برس شروع نہیں ہو سکی ہیں۔ برفباری نہ ہونے کی وجہ سے ندی نالوں میں پانی کی مقدار کم ہے جس سے صرف کھیتی باڑی ہی نہیں بلکہ چھوٹے بجلی گھروں کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے جیسا کہ گولین (Golen) کے علاقے میں ’ایک سو آٹھ‘ میگاواٹ کا پن بجلی گھر (ہائیڈرو اسٹیشن) اپنی پیداواری صلاحیت کا نصف بھی نہیں دے رہا۔ معلوم ہوا کہ اگر موسم ہم سے ناراض ہو گئے تو نہ صرف زرخیز وادیوں سے انسانی آبادیوں کا وجود ختم ہوتا چلا جائے گا بلکہ وہ ترقی جس پر بحرانوں کے حل کا اِنحصار ہے‘ وہ بھی کارآمد نہیں رہے گی۔ جن فیصلہ سازوں کی نظر میں ’موسم‘ اُور ’موسمی تبدیلیاں‘ ترقی یافتہ (مغربی) ممالک کا مسئلہ ہے‘ اُنہیں اپنے گردوپیش پر نظر کرنی چاہئے کہ کس طرح صرف ایک بارش کے روٹھ جانے سے انسانی بقاء و ترقی کا مستقبل مخدوش دکھائی دے رہا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کو سوچنا چاہئے کہ اگر چترال کی وادیوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہوئی تو اُس وقت پیدا ہونے والے بحران سے کس طرح نمٹا جائے گا اور کیا ہی اچھا ہو کہ ایسے کسی بحران کو تحلیل کرنے کے لئے بروقت اقدامات کئے جائیں؟ ماضی میں لوگ اچھے موسم اور قدرت کو قریب سے دیکھنے کے لئے چترال کا رُخ کیا کرتے تھے لیکن اِس مرتبہ ’خشک سالی‘ کی وجہ سے اہل چترال قریبی علاقوں کو کوچ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اگر صوبائی حکومت شمسی توانائی کے وسائل بروئے کار ہوئے بالائی دیہی علاقوں کو دریاؤں سے پانی کی فراہمی ممکن بنائے تو زرعی معیشت و معاشرت کو درپیش مشکلات میں بڑی حد تک اور وقتی طور پر کمی لائی جا سکتی ہے۔
صوبائی سطح پر ہنگامی حالات سے نمٹنے (ڈیزاسٹر مینجمنٹ) کا اِدارہ تو موجود ہے‘ جسے چترال کی صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے کیونکہ رواں خشک سالی سے چترال کی تہذیب و تمدن‘ ثقافت اُور رہن سہن پر بھی خطرات منڈلا رہے ہیں!
۔
No comments:
Post a Comment