Saturday, April 21, 2018

APR 2018: Vote registration. Be part of the change!

مہمان کالم
ایسے ویسے ووٹ: کیسے کیسے ووٹ!
’الیکشن کمشن‘ نے آئندہ عام انتخابات (دوہزاراٹھارہ) کے لئے ووٹروں کی رجسٹریشن اور ووٹرز فہرستوں میں تبدیلی کے لئے ’چوبیس اپریل‘ تک کی حتمی تاریخ (ڈیڈلائن) مقرر کر رکھی ہے لیکن ووٹ درج کرنے کے مراکز پر خاطرخواہ رش (جوش وخروش) دیکھنے میں نہیں آ رہا‘ کیونکہ سیاسی جماعتوں کو جس ’ووٹ بینک‘ سے دلچسپی ہے‘ وہ پہلے ہی رجسٹر (محفوظ) کیا جا چکا ہے اور ہر انتخابی حلقے کی سیاست میں ’روائتی ووٹ بینک‘ ہی فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ 

پاکستان میں قریب 10کروڑ 43 لاکھ ووٹرز رجسٹرڈ ہیں اور ’نیا قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی)‘ بنوانے والا ہر فرد کے ووٹ کا اندراج آئندہ سے خودبخود ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ عام انتخابات (دوہزارتیرہ) سے رواں برس (دوہزاراٹھارہ) میں متوقع آئندہ عام انتخابات کے درمیانی عرصہ میں ’کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز بنوانے والے 81 لاکھ ’’نئے ووٹرز‘‘ کے کوائف کا اندراج خودکار طریقے سے ہو چکا ہے لیکن ووٹوں کا ازخود اندراج ہونا کافی نہیں بلکہ سب سے پہلے تو ہر پاکستانی کو معلوم ہونا چاہئے کہ اُس کا ووٹ کس انتخابی حلقے میں درج ہے اور دوسرا اگر وہ اِسے کسی دوسرے عارضی یا مستقل پتے پر تبدیل (درج) کرنا چاہتا ہے تو اُس کا طریقۂ کار کیا ہے۔ ووٹ درج کرانے کے ساتھ اِس کا استعمال بھی ضروری اور لازمی سمجھنا چاہئے۔ ’الیکشن کمشن‘ مقررہ مدت کے علاؤہ ووٹوں کا اندراج‘ تصیح یا تبدیلی نہیں کرتا‘ اِس لئے ’جمہوری عمل میں حصہ لینے اُور ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ۔۔۔ چوبیس اپریل (دوہزاراٹھارہ) مقررہ مدت تک ۔۔۔ ہر پاکستانی کو اپنے ووٹ کا اندراج‘ تصیح اور کوائف معلوم کر لینے چاہیءں کیونکہ اِسی ایک ایک ووٹ سے ملک و قوم کے مستقبل کا تعین ہوگا۔

ووٹ کی رجسٹریشن معلوم کرنے کے لئے موبائل فون سے ’8300‘ پر مختصر پیغام (ایس ایم ایس) ارسال کرنا پڑتا ہے‘ جس سے مردم شماری کی تفصیلات اور ووٹ کے اندراج کے بارے معلومات حاصل ہو جاتی ہیں‘ اِس مقصد کے لئے متعلقہ (قریبی) ضلعی الیکشن کمشنر کے دفاتر بھی مدد کے لئے موجود ہیں‘ تاہم اُن کے اوقات کار عمومی دفتری اوقات سے زیادہ یا مختلف ہونے چاہیءں تھے تاکہ جو لوگ نجی ملازم ہیں وہ بعدازاں بھی اپنے ووٹوں کا اَندراج کروا سکتے یا آن لائن (online) جہاں انتخابی حتمی فہرستیں موجود ہوتی ہیں اور دفتری اوقات کے بعد (دیر شام گئے تک) یا تعطیلات کے روز بھی الیکشن کمشن دفاتر سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ ووٹوں کا اندراج ’الیکشن کمشن‘ کی ایپ (app) کے ذریعے بھی ممکن کی جاتی تو شفاف انتخابات کے لئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اُوز)‘ سماجی کارکن اُور سیاسی جماعتیں گھر گھر جا کر ووٹوں کی رجسٹریشن کروانے میں مدد دیتیں۔

الیکشن کمشن نے ملک بھر میں 14ہزار487 ایسے مراکز قائم کئے ہیں‘ جہاں بلاقیمت ووٹ کی رجسٹریشن‘ کوائف کی درستگی یا ووٹرز فہرستوں سے ناموں کا اخراج کیا جا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں ایسے مراکز کی تعداد ’ڈھائی ہزار سے زیادہ‘ ہے جہاں بمعہ اصل شناختی کارڈ بمعہ نقل (فوٹوکاپی) رجوع کرنے پر ووٹ کے بارے کوائف میں تبدیلی مقررہ تاریخ تک ممکن ہے اُور اِس مقصد کے لئے ’فارم نمبر 15‘ خصوصی طور پر تیار کیا گیا ہے جو الیکشن کمشن کی ویب سائٹ (ecp.gov.pk) سے بھی مفت حاصل (download) کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ فارم کے ذریعے قومی شناختی کارڈ پر درج ’رہائش گاہ کے مقام اور شہر کی مناسبت سے ووٹ کی مناسبت منسلک کی جا سکتی ہے اور یہ عمل چند منٹ کی فرصت و توجہ چاہتا ہے۔ 

جو لوگ آئندہ عام انتخاب میں ’پوسٹل بیلٹ (بذریعہ ڈاک)‘ ووٹ ڈالنا چاہتے ہوں تو اُن کے لئے عرض ہے کہ عمومی طور پر سرکاری ملازمین اِس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ’پوسٹل بیلٹ آپشن‘ کا انتخاب الیکشن ڈیوٹی کے عملے کے ارکان بھی کر سکتے ہیں اور الیکشن کمشن کی مقررہ کردہ تاریخوں میں ’پوسٹل بیلٹ‘ کے ذریعے ووٹ دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاؤہ جسمانی معذوری جو سفر کرنے سے قاصر ہو اور وہ ایک ایسے قومی شناختی کارڈ کا حامل ہو کہ جس پر ’جسمانی معذوری‘ کا نشان (logo) موجود ہو‘ تو وہ بھی ’پوسٹل بیلٹ‘ استعمال کر سکیں گے۔ زیرحراست اُور سزا کاٹنے والے اَفراد بھی ’پوسٹل بیلٹ‘ اِستعمال کرنے کے اہل ہیں۔ ووٹ ہر اُس شخص کا حق ہے جو پاکستان کا شہری ہو۔ جس کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ ہو اُور جس کا نام ’انتخابی (ووٹر) فہرست‘ میں درج ہو۔ ووٹ ایک ایسا حق ہے جس کے حصول کی دستاویزی ضروریات اگر ایک مرتبہ پوری کر دی جائیں‘ تو یہ حق ہمیشہ کے حاصل ہو جاتا ہے اور کوئی بھی پاکستانی اپنا ووٹ کسی دوسرے شخص کے نام منتقل نہیں کرسکتا۔ 

آگاہی کے ساتھ ’سہولت کاری‘ یکساں اہم‘ ضروری و لازمی ہے۔ الیکشن کمشن کی جانب سے امور خانہ داری کرنے والی بالخصوص کم خواندہ یا ناخواندہ خواتین (house wives) کے لئے ووٹوں کے اندراج کا خصوصی انتظام و اہتمام کرنا چاہئے تھا کیونکہ امور خانہ داری کے دباؤ کی وجہ سے خواتین (کمزور طبقے) کی ایک بڑی تعداد ہر مرتبہ عام انتخابات میں بھی ’حق رائے دہی‘ سے محروم رہ جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا فرض (بنیادی ذمہ داری) ہے کہ وہ خواتین کے ووٹ کے اندراج میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لیں۔ اگر عام انتخاب (پولنگ) کے دن ووٹرز (مرد و خواتین) کے لئے ٹرانسپورٹ و دیگر سہولیات کا بندوبست ہوتا ہے تو یہ انتظام ووٹ کے اندراج کے لئے کیوں نہیں ہو سکتا اُور کیوں نہیں کیا جاتا؟

حرف آخر: بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنا حق رائے دہی کیسے استعمال کریں اور اگر اُن کے ووٹ درج نہیں‘ تو کس طرح انتخابی فہرستوں کا حصہ بن سکتے ہیں؟ سیاسی فیصلہ ساز تاحال اِس بات پر متفق نہیں ہو سکے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے۔ عجیب مرحلہ ہے کہ ہماری حکومتوں کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ’ترسیلات زر‘ چاہیءں تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری لائے جا سکے لیکن وہ اُنہیں ووٹ جیسا بنیادی حق دینا نہیں چاہتے! اِس ماحول میں انتخابی اصلاحات کی سب سے بڑی داعی‘ پاکستان تحریک انصاف چاہتی ہے کہ اندرون و بیرون ہر پاکستانی کو ’بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہئے‘ لیکن تحریک انصاف کے اِس مطالبے کی حمایت کرنے والوں کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ میں کوئی کشش محسوس نہیں ہو رہی‘ جو جانتے ہیں کہ وہ کسی بھی پاکستانی کی توقعات پر پورا نہیں اُترے‘ تو ووٹ کس منہ سے مانگیں گے اُور بیرون ملک ڈالے گئے ایسے ووٹ اندرون ملک مرتب ہونے والے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو سکتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments:

Post a Comment