ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پشاور: مر رہا ہے!؟
خیبرپختونخوا محکمۂ آثار قدیمہ کو ’پشاور‘ میں تاریخی اہمیت کی عمارتوں سے متعلق تفصیلات جمع کرنے میں 3 سال کا عرصہ لگا‘ جس کے بعد ’’1 ہزار 865‘‘ ایسی ’قدیم تعمیرات‘ کو فہرست کر لیا گیا‘ جن سے پشاور کے شاندار ماضی کی عکاسی ہوتی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ پشاور کے ماضی کا سورج کبھی غروب نہ ہو۔ علمی تحقیق کے ذریعے کوشش یہ تھی کہ فن تعمیر کے نادر اور موجود اُن تمام حقیقی نمونوں (مثالوں) کو ہر ممکن حد تک محفوظ رکھا جائے‘ جو اہل پشاور کی بودوباش کے گواہ ہیں‘ بلکہ اِن کی موجودگی ’پشاور شہر کی سیاحت‘ کے فروغ میں اہم کردار اَدا کر سکتی ہے اُور اگر مستقبل میں بھی وفاقی یا صوبائی حکومت کو خیال آتا ہے کہ وہ جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہر‘ پشاور کو خاطرخواہ توجہ دے اور امن و امان کی صورتحال میں بھی اِس قدر بہتری آئے کہ غیرملکی سیاح پھر سے پشاور کا رخ کرنے لگیں تو اُس وقت کم سے کم پشاور میں ایسی عمارتیں تو ضرور موجود ہوں‘ جنہیں بطور نمونہ پیش کیا جا سکے۔ اِس کوشش کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پشاور کی تاریخ و ثقافت‘ رہن سہن اور فن تعمیر کی آئینہ دار اِن ’یادگار عمارتوں‘ کو ’’جہاں ہیں‘ جیسا ہیں‘‘ کی بنیاد پر محفوظ کر لیا جائے اُور اِنہیں منہدم کرنا تو بہت دُور کی بات اِن سے چھیڑچھاڑ بھی نہ ہو اور آثار قدیمہ کے قوانین و قواعد کی رو سے ایسا کرنا ’قابل سزا جرم‘ قرار پائے لیکن ماہرین آثار قدیمہ کی عملی کوششیں‘ خواہشات اُور تیاریاں اپنی جگہ دھری کی دھری رہ گئیں جب یہ اطلاع ملی کہ ’’محلہ مغلاں‘ بازار کلاں (اندرون پشاور)‘‘ میں ’سکھ دور‘ میں تعمیر ہونے والے ایک مکان کے اُس بڑے حصے کو منہدم کر دیا گیا‘ جو تاریخی اہمیت کا حامل تھا اور اب دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکے گا یعنی ’ناقابل تلافی نقصان‘ ہو چکا ہے جس پر آثار قدیمہ کے ماہرین کی تشویش کے 2 رُخ ہیں۔ اوّل: مذکورہ مکان ’پشاور کے اُس ’تاریخی و ثقافتی ورثہ راہداری (Culture Heritage Trail) کا حصہ تھا‘ جسے خیبرپختونخوا حکومت نے خطیر رقم (30 کروڑ روپے) سے 4ماہ میں مکمل کیا اور ابھی اِس منصوبے کو مکمل ہوئے گنتی کے چند مہینے ہی گزرے ہیں کہ اِس ’تاریخی و ثقافتی ورثہ راہداری‘ کا ایک نگینہ توڑ کر الگ کر دیا گیا ہے۔ دوئم: کہیں پشاور کے آثارقدیمہ کو محفوظ کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں نہ چلی جائیں!کیونکہ اگر ’ورثہ راہداری‘ کی حدود میں لب سڑک‘ ایک مکان محکمۂ آثار قدیمہ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے مسمار کر دیا گیا ہے تو دیگر مقامات اور بالخصوص گلی کوچوں میں موجود ’تعمیراتی اثاثوں‘ کی حفاظت کیونکر ممکن ہو سکے گی۔ فیصلہ سازوں کو مجوزہ ’’پشاور والڈ سٹی اتھارٹی‘‘ جلد از جلد قائم کرنا ہوگی تاکہ آثارقدیمہ قرار دی جانے والی عمارتوں کا تحفظ عملاً یقینی بنایا جا سکے۔ سردست ’سانحۂ محلہ مغلاں‘ کا نوٹس لیتے ہوئے محکمۂ آثار قدیمہ نے مالک مکان کے خلاف ضابطے کی کاروائی کے طور پر ’ابتدائی تفتیشی رپورٹ (FIR)‘ درج کرنے کی درخواست دی ہے لیکن ظاہر ہے کہ چند ہفتے قبل گھر خریدنے والے کے عزائم پہلے ہی دن سے یہ تھے کہ وہ پہلے سے گنجان آباد علاقے میں کثیرالمنزلہ تجارتی تعمیرات کرے‘ حالانکہ تجارتی اُور رہائشی علاقے میں تیزی سے مٹتی تمیز پر کئی ادارے پابندیاں تو لگا چکے ہیں‘ لیکن عملدرآمد کا نام و نشان نہیں!؟ آثار قدیمہ کاروائی کے خوف سے مذکورہ مکان سستے داموں فروخت کیا گیا اور خریدار کسی بھی طرح معمولی شخص نہیں‘ جس نے ممکنہ خطرات کا پہلے سے حساب لگا لیا ہوگا۔ ماضی میں جب جی ٹی روڈ پر فصیل شہر کے ایک جدید حصے کو بااثر مالک نے مسمار کرنے کا منصوبہ بنایا تو اُس نے پشاور کے نامور وکیل اور گورنر خیبرپختونخوا سے دوستی رکھنے والے کالم نگار کو ’کاروبار‘ میں شریک کر لیا۔ مذکورہ وکیل کا دفتر (مالکانہ حقوق کے ساتھ) آج بھی اُسی عمارت کا حصہ ہے‘ جس کا مقدمہ لڑتے ہوئے اُنہوں نے پشاور کو ’فصیل شہر‘ سے ہمیشہ سے محروم کردیا۔ پشاور سے بددیانتی اور خیانت کرنے والے صاحبان علم و دانش اور اہل سیاست کی ایسی درجنوں مثالیں قلم بند کی جا سکتی ہیں! محلہ مغلاں‘ بازار کلاں میں مسمار ہونے والا مکان ’ایسا پہلا شکار‘ نہیں بلکہ چند قدم آگے شاہین بازار کے بلمقابل آج اُن گھروں کا نام و نشان بھی نہیں جہاں کبھی پشاور کے یہودی خاندان آباد تھے اور جن کا فن تعمیر سکھ دور سے کہیں زیادہ قیمتی (قدیم) تھا تب بھی قانون شکنی ہوئی لیکن بااثر اُور ہروقت مسلح دستے کے ہمراہ رہنے والے مالکان کے خلاف کسی حکومتی ادارے کو ایک لفظ بولنے کی جرأت نہ ہو سکی!
گلی کوچوں‘ در و دیوار میں گم
فراموشی‘ کہیں اِظہار میں گم
سکوں گرداں‘ سکوں بازار میں گم
پشاور ہو گیا‘ اغیار میں گم
مرض لاحق ہے ایسا ڈر‘ رہا ہے!
پشاور گھٹ کے دیکھو مر رہا ہے!
خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں ’آثار قدیمہ‘ کے ’لعل و جوہرات‘ بکھرے پڑے ہیں۔ سال 2017ء میں ’ہری پور‘ کے قریب بدھ مت کی ایک عبادت گاہ ’بہامالا اسٹوپہ (Bhamala Stupa) دریافت ہوا‘ جس کے آثار کی کھدائی 1929ء میں شروع ہوئی اور اِس چوتھی صدی عیسوی کے مقام کو اقوام متحدہ کی ’ثقافتی ورثہ مقامات‘ کی فہرست (ہیریٹیج سائٹس) میں شامل کرنے کی درخواست بھی کر دی گئی ہے کیونکہ یہ ایک مذہبی یادگار ہے جسے اصل شکل و صورت میں محفوظ اُور بحال رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اگر ایسا کر لیا جاتا ہے اور مارکیٹنگ بھی ہو جاتی ہے تو ’بدھ مت‘ کے ماننے والے پوری دنیا سے پاکستان کا رُخ کر سکتے ہیں۔ مذہبی‘ تاریخی و ثقافتی اہمیت کے اِن مقامات کی اندرون و بیرون ملک تشہیر عام کرنا ضروری ہے تاکہ ’قدر شناسی‘ میں اضافہ ہو۔ اِس سلسلے میں ’تحریک انصاف حکومت کے پہلے دور (2013-2018ء) کے دوران دلچسپی دکھائی اُور چونکہ دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ کا تعلق ’سوات‘ سے ہے‘ جہاں بدھ مت کے معلوم و موجود آثار و باقیات کا شمار انگلیوں پر ممکن نہیں‘ اِس لئے اُمید ہے کہ صوبائی حکومت (پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے) اِس مرتبہ ’’آثار قدیمہ‘‘ سے جڑے مقامات کو بھی ’سیاحتی ترقیاتی حکمت عملی‘ کا حصہ بنائے گی‘ جو قیمتی زرمبادلہ کے حصول‘ روزگار کے مواقعوں اور کم ترقی یافتہ علاقوں کی معیشت و معاشرت کو عروج عطا کر سکتی ہے۔ سیاحتی اَمور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ’’ایک سیاح اپنے ساتھ کم سے کم پانچ ملازمتیں اُور اوسطاً پانچ ہزار ڈالر لاتا ہے۔‘‘
۔
No comments:
Post a Comment