Sunday, December 9, 2018

TRANSLATION - Good news by Dr. Farrukh Saleem

Good news
اَچھی خبر
پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے ہونے والا ردوبدل اور روپے کی غیرمستحکم حیثیت کاروبار کے لئے ’نیک شگون‘ نہیں ہوتی۔ جب کسی ملک کی کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے تو اِس سے وہاں ضروریات زندگی مہنگی ہوتی ہیں اور یہ بات بھی ’نیک شگون‘ نہیں ہوتی۔ حالیہ چند ماہ کے دوران گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بجلی اب مزید مہنگی ہو گئی ہے۔ عام آدمی مہنگائی میں کمی چاہتا ہے۔ روزمرہ ضروریہ کی قیمتوں میں کمی چاہتا ہے لیکن ایسا عنقریب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ملک کی معاشی صورتحال غیریقینی کا شکار ہے اور جہاں کہیں بھی معیشت غیریقینی سے دوچار ہو‘ وہاں کا ماحول کاروباری سرگرمیوں کے موافق نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ ہمیں ملک کی حصص اور مالیاتی مارکیٹ میں بے سکونی دکھائی دیتی ہے۔

کیا اِس معاشی صورتحال پر حکومت وقت بھی پریشان ہے‘ جو ملک کو موجودہ معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے کوششیں کر رہی ہے؟ جی ہاں‘ حکومتی سطح پر قومی معاشی صورتحال کی بہتری کے لئے تین سطحی حکمت عملی مرتب کی گئی ہے۔ 1: برآمدات میں اضافہ کرنے کے لئے متعلقہ صنعتوں اور دیگر شعبہ جات کی سرپرستی کی جا رہی ہے‘ جس کے فوری اثرات تو ظاہر نہیں ہوں گے لیکن آئندہ چند برس کے دوران پاکستان اِس قابل ہوگا کہ وہ اپنی برآمدات پر بھروسہ کر سکے۔ 2: حکومت ملک میں ایسی سرمایہ کاری لانے کے لئے کوشاں ہے جس کے لئے مالی وسائل غیرملکی قرض کی صورت میں نہ ہوں اُور 3: بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ’ترسیلات زر‘ میں اضافہ کرنے کے لئے حکومت اور عوام کے درمیان اُس اِعتماد کو بحال کیا جائے‘ جس سے عوام خود کو حکمرانوں سے الگ نہ سمجھیں اُور اِس منفی سوچ کی بھی نفی (اَزالہ) ہو کہ حکومت بظاہر عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل تو ہوتی ہے لیکن صاحبان اقتدار اور عوام کے مفادات میں ’’زمین آسمان کا فرق‘‘ ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ وفاقی حکومت ایک جامع معاشی حکمت عملی کے تحت اقدامات کر رہی ہے۔ ممکن ہے کہ اِس حکمت عملی پر عمل درآمد سست رفتار ہو اُور کچھ وقت لگے لیکن وقت تو بہر لگتا ہی ہے۔ وقت چاہے کم لگے یا زیادہ اُور اِس مرتبہ اگر کچھ وقت لگتا محسوس ہو رہا ہے‘ تو اِس کے بہتر نتائج دور رس بھی ظاہر ہوں گے اور مالیاتی و معاشی طور پر پاکستان کی ترقی پائیدار ہو گی۔
تحریک انصاف کی حکومت ترجیحی بنیادوں پر ایسا سازگار ماحول فراہم کر رہی ہے‘ جس سے غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کاروبار کرنے میں رغبت ملے۔ اِس حکومتی کوشش کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے کئی عالمی اداروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس میں ’پیپسی کو (PepsiCo)‘ نامی معروف ادارہ بھی شامل ہے۔ اِس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر برائے ایشیاء‘ مشرق وسطی اُور شمالی افریقہ مائیک اسپینوس (Mike Spanos) نے حال ہی میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اُور اِس عزم کا اظہار کیا کہ اُن کی کمپنی پاکستان میں ’1 ارب ڈالر‘ سرمایہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ سرمایہ کاری آئندہ پانچ برس کے دوران ہوگی۔ قابل ذکر ہے کہ ’پیپسی کو‘ کی سالانہ آمدنی 63 ارب ڈالر ہے۔

’پیسی کو‘ کی طرح ’سوزوکی موٹر کارپوریشن (Suzuki Motor Corporation) کے چیئرمین اُسامو سوزوکی (Osamu Suzuki) نے بھی وزیراعظم سے ملاقات میں ’45 کروڑ ڈالر‘ سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اِظہار کیا۔ سوزوکی موٹر کارپوریشن کی سالانہ آمدنی ’35 ارب ڈالر‘ ہے۔ سوزوکی موٹر پاکستان میں اضافی 25 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کرے گی۔ جے ڈبلیو (JW) نامی کمپنی ’فارلینڈ (Forland)‘ کے تعاون میں پاکستان میں 15کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے‘ جس سے مال برداری میں استعمال ہونے والے ٹرک اور خصوصی استعمال کی گاڑیاں بنائی جائیں گی۔ خاص بات یہ ہے کہ مذکورہ منصوبے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ پاکستان میں لگنے والی اِس صنعت کے ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی ہوگی۔ پائیدار ترقی کے لئے ضروری ہے کہ بیرون ممالک سے صنعتیں اپنی ٹیکنالوجی بھی پاکستان منتقل کریں۔ اِسی طرح والکس ویگن (Volkswagen)‘ سیمنز (Siemens)‘ رینالٹ (Renault)‘ ایگزی موبل کارپوریشن (Exxon Mobil Corporation) پاکستان میں اپنے آپریشنز شروع کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ علاؤہ ازیں پاکستان کے پانیوں میں تیل و گیس کی تلاش کے لئے کراچی کے ساحل سے 230کلومیٹر دور تیل کی تلاش کرنے کی مہم بھی غیرملکی سرمایہ کاری سے شروع کی جائے گی۔ سردست پاکستان چھیاسی ہزار بیرل تیل اُور چار ارب کیوبک فٹ گیس یومیہ اپنے ذخائر سے حاصل کر رہا ہے۔ محتاط اَندازہ ہے کہ آئندہ تین برس میں یومیہ پیداوار 2 لاکھ بیرل تک بڑھ جائے گی۔ پاکستان میں تیل و گیس کے ترقیاتی ادارے ’اُو جی ڈی سی ایل (OGDCL)‘ کے پاس افرادی و تکنیکی وسائل موجود ہیں‘ جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے ہرسال سینکڑوں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش ممکن ہے لیکن یہ ادارہ چند درجن سے زائد کھدائیوں سے زیادہ کچھ نہیں کر رہا‘ جن میں کامیابی کی شرح ممکنہ ذخائر کی موجودگی اور حجم کے لحاظ سے کافی نہیں۔

معاشی استحکام کے مثبت اشارے مل رہے ہیں جیسا کہ پاکستان میں اکتوبر 2018ء کے دوران 4.5 ملین ٹن سیمنٹ برآمد کی گئی جو گذشتہ سال کے اِسی ماہ کے دوران برآمد ہونے والی سیمنٹ سے 7.4فیصد زیادہ ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں بھی اگرچہ معمولی اضافہ ہوا ہے لیکن یہ خوش آئند تبدیلی کا مظہر ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اپنے ملک کے نظام اور حکومت پر اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر پاکستانیوں نے اکتوبر 2018ء کے دوران 2 ارب ڈالر ترسیلات زر کیں جبکہ اکتوبر 2017ء میں ’1.65 ارب ڈالر‘ کی ترسیلات زر ہوئی تھیں یوں 21 فیصد زیادہ ترسیلات زر غیرمعمولی (اہم) پیشرفت ہے۔

جنوری 2019ء میں فیصل آباد کی ایک صنعت ’اِنٹرلوپ لمٹیڈ‘ نائیکے (Nike) اُور ایڈیڈاس (Adidas) سے برآمدات کا معاہدہ کریں گی جس کا حجم گزشتہ سال کے مقابلے اور 6.8 ارب ڈالر تک بڑھے گا۔ حکومت اور کاروباری اداروں کے درمیان اعتماد کی بحالی ایک ایسی خاص بات ہے‘ جس کا ذکر ضروری ہے کیونکہ اِسی تعلق کی مضبوطی سے روپے کی قدر پر دباؤ میں کمی لائے جا سکے گی اور یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ بہتر سے بہتر کرنے کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے اور موجودہ حکومت کی کوششیں اپنی جگہ لیکن ابھی معاشی استحکام و ترقی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت سے اقدامات کی ضرورت بہرحال ہے۔

(مضمون نگار اِقتصادی اُور توانائی کے پیداواری اَمور کے حوالے سے حکومتی ترجمان اور مشیر ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

2 comments:

  1. The high volatility in the currency market is not good for business. The falling rupee means a higher cost of living. Not good. Gas prices have been jacked up. Electricity is now more expensive. People want relief and relief is not in sight. There’s uncertainty and uncertainty is bad for business. Yes, financial markets are jittery.
    To be certain, the government has a well-thought-out three-pronged economic strategy: export incentives, non-debt-creating foreign investments, and bringing in additional remittances through banking channels. Three things: a comprehensive economic policy is in place; implementation of the policy may have been slow; policy outcomes will take time (as they always do).

    The good news is that PepsiCo Chief Executive Officer for Asia, Middle East and North Africa (AMENA) region Mike Spanos recently informed Prime Minister Imran Khan that his company will be investing $1 billion in Pakistan over the following five years (revenue: $63 billion).

    The good news is that Suzuki Motor Corporation Chairman Osamu Suzuki (revenue: $27 billion) has said that his company is planning to invest $450 million by setting up another production plant in Pakistan. The Coca Cola Company (revenue: $35 billion) will be investing an additional $250 million in Pakistan. JW in collaboration with Forland has launched a $150 million project to produce cargo trucks and special purpose vehicles in Pakistan. Interestingly, this project has a significant technology transfer component built into it.

    ReplyDelete
  2. Volkswagen, the largest automaker in the world (revenue: $86 billion), has inked a deal to assemble vehicles in Pakistan (according to the German ambassador the “development shows confidence in Naya Pakistan”). Siemens, the German industrial manufacturing giant (revenue: $94 billion), has also shown interest in investing. Renault, the French automobile manufacturer (revenue: $66 billion), has also decided to enter Pakistan.

    Exxon Mobil Corporation, the American multinational oil and gas giant (revenue: $237 million), is making a comeback in Pakistan after an absence of nearly three decades. LNG Market Development Chairperson Emma Cochrane said that her company plans to start Pakistan’s first offshore oil drilling about 230 kilometres from Karachi.

    Pakistan currently produces around 86,000 barrels of oil per day and some four billion cubic feet of gas per day (bcfd). According to conservative estimates, we can produce over 200,000 barrels of oil per day within the next three years. Yes, Oil and Gas Development Company Limited (OGDCL) has financial as well as human resources to dig a hundred wells a year as opposed to a dozen wells a year.

    Intriguingly, over the past five years, no new major exploration blocks have been mJauctioned off (the focus remained on the importation of LNG). For the record, the last bidding round was held in March 2013. The PTI government has already identified 40 new blocks, of which 10 have been auctioned for exploration.

    The other good news is that cement dispatches hit 4.5 million tonnes for October 2018, up 7.4 percent year-over-year. For the four months of Fiscal Year 2018, cement dispatches hit 15.3 million tonnes, up 5.3 percent year-over-year. Surprisingly, overseas Pakistani workers sent home $2 billion in October 2018 as compared to $1.65 billion in October 2017, up 21 percent.

    In January 2019, Interloop Ltd, a Faisalabad-based textile firm that supplies socks to Nike and Adidas, is planning the largest-ever initial public offering (IPO) to raise Rs6.8 billion.

    Yes, the bond of trust between the government and the business community needs to be solidified. Yes, the volatility in the currency market must be brought down. Yes, a lot more needs to be done.

    ReplyDelete