Saturday, February 2, 2019

Peshawar not treated with care and love!

شبیرحسین امام
گل بہار: سچائی اُور حقیقت!
صوبائی دارالحکومت پشاور کی نسبتاً جدید بستی کہلانے والے ’’گل بہار‘‘ کے طول و عرض میں رہائش پذیر شہریوں کی ایک جیسی مشکلات کے حل کے لئے ہر دور حکومت میں مالی وسائل خرچ کئے گئے لیکن نتیجہ ’ترقئ معکوس‘ کی صورت دیکھا جا سکتا ہے بالخصوص ’عشرت سینما روڈ‘ ایک ایسی ’عمدہ مثال‘ ہے جہاں پہنچ کر 1: رہائشی و تجارتی علاقے کی تمیز ختم دکھائی دیتی ہے۔ 2: نکاسئ آب کا نظام صرف بارشوں کے موسم ہی میں نہیں بلکہ سارا سال خراب رہتاہے۔ یہاں کے رہنے یا گزرنے والوں نے شاید ہی شاہراہ کے قریب ایک کلومیٹر حصے کو کبھی خشک دیکھا ہو۔ کیچڑ‘ گندگی‘ غلاظت اُور پانی نالے نالیوں میں نہیں بلکہ سڑک کے وسطی (درمیانی) حصے کا استعمال کرتے ہیں۔ 3: اہل گل بہار کی اکثریت گندگی و غلاظت سے اُٹھنے والے تعفن اور گردوپیش کے مسائل کی عادی ہو چکی ہے اور اِسے اپنی تقدیر کا لکھا سمجھ کر صبر کئے بیٹھی ہے۔ 4: دوہزار تیرہ اور دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں گل بہار سے تعلق رکھنے والے رجسٹرڈ ووٹرز کی اکثریت نے ’تحریک انصاف‘ کے نامزد اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو منتخب کیا۔ اِسی طرح بلدیاتی انتخابات میں بھی تحریک انصاف ہی مرکز نگاہ رہی لیکن قانون سازوں اور بلدیاتی نمائندوں سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئی ہیں۔ 5: پشاور کی عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) کے واضح احکامات کے باوجود گل بہار کے سبھی حصوں بالخصوص ’عشرت سینما روڈ‘ اُور اِس سے ملحقہ گلی کوچوں میں نہ صرف تجارتی (کمرشل) سرگرمیاں جاری ہیں بلکہ بناء پارکنگ اور اپنی حد سے متجاوز نئی تعمیرات کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری ہے!

پھولوں کے شہر پشاور کے باغات میں آبادی بڑھنے کے تناسب سے اضافہ ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ گل و گلزاروں کے وجۂ شہرت رکھنے والا پشاور پہلے ’گل بہار‘ کی حد تک محدود ہوا تو اب ’گل بہار‘ میں بھی ’گل‘ باقی نہیں۔ یہاں کے چند پبلک پارک بااثر افراد نے اپنے ناموں پر منتقل کروا رکھے ہیں۔ باقی ماندہ بھی سکڑ کر صحت مند تفریح کا ذریعہ نہیں رہے اُور تحریک انصاف سے جس انصاف کی بصورت احتساب توقع تھی‘ وہ مصلحت کے باعث تاحال شروع نہیں ہو سکا ہے! اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ نشتر آباد کے بعد پشاور کی پہلی منظم رہائشی بستی ’گل بہار‘ کا تجربہ بُری طرح ناکام ہو چکا ہے جس کی بنیادی وجہ ایک سے زیادہ شہری ترقی پر نظر رکھنے والے حکومتی اداروں کے اہلکار ہیں‘ جن میں سے کسی کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا لیکن یہ سب ’پشاور کی تباہی کے لئے ذمہ دار (قصوروار) ہیں۔ ذاتی مفاد کے لئے پشاور کا سودا کرنے والوں کو شرمندگی تو کیا‘ احساس ندامت اُور احساس جرم تک نہیں۔

پشاور کے مسائل کی کل کہانی یہ ہے کہ یہاں سچائی اُور حقیقت میں فرق ہے۔ سچائی (truth) یہ ہے کہ بلدیاتی حکام (ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن) اُور پشاور ڈویلپمنٹ اَتھارٹی (پی ڈی اے) کے ایک سے زائد شعبہ جات سے پیشگی و تکنیکی اجازت حاصل کئے بغیر نئی تعمیر یا مرمت کا کام پشاور کے کسی بھی حصے میں نہیں ہو سکتا لیکن حقیقت (reality) یہ ہے کہ قوانین و قواعد پر بہرصورت اُور بہرحال یعنی سختی سے عمل درآمد نہیں کروایا جاتا اُور ماضی کی طرح آج بھی رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں کی اجازت دی جا رہی ہے۔ جس کے پاس سرکاری اہلکاروں کی مٹھی گرم کے لئے مالی وسائل ہیں‘ اُس کے لئے قواعدوضوابط میں گنجائش نکل آتی ہے۔ تجاوزات کے اِس مستقل پہلو پر ’گہرائی و گیرائی‘ سے غور ہونا چاہئے۔ پشاور سے منتخب ہونے والی سیاسی و بلدیاتی قیادت کو غور کرنا چاہئے کہ اُنہوں نے ’تجاوز‘ ہونے کے لفظ کو کتنے محدود معنوں میں سمجھا ہے جبکہ تجاوزات میں وہ عمارتیں کیوں نہیں آتیں‘ جنہیں بناء حفاظتی انتظامات اور کاغذات میں ذاتی رہائشی دکھا کر کثیر المنزلہ تجارتی عمارتیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بے قاعدگیاں نہ تو راتوں رات ہوئی ہیں اور نہ ہی کسی جادو کی طاقت یا ’خلائی مخلوق‘ کی کارستانی ہے بلکہ پشاور نے جنہیں عزت (شناخت) دی‘ وہی اِس کی تباہی کے ’شریک مجرم‘ ہیں!

سرکاری محکموں میں ایک سے بڑھ کر ایک خوش لباس‘ قیمتی گھڑی پہنے اُور جدید ترین موبائل فون سے لیس‘ اندرون و بیرون ملک سے تعلیمی اسناد حاصل کرنے والا دانشور‘ معزز و نامی گرامی شجرۂ نسب رکھنے کے ساتھ چبا چبا کر انگریزی زبان کے مشکل الفاظ بولنے والا صاحب فراست مل جائے گا‘ لیکن ’’پشاوری‘‘ نہیں ملے گا۔ شہری ترقی یا پشاور میں سہولیات سے متعلق کسی بلدیاتی دفتر میں چلے جائیں‘ میزوں پر تہہ در تہہ فائلوں کے انبار نظر آئیں گے لیکن اِن کرداروں کی کارکردگی گلی کوچوں اور شاہراہوں سے عیاں ہے‘ جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ابھی دنیا نے تعمیرات میں ’انجنیئرنگ‘ کا استعمال نہیں سیکھا۔ سچ تو یہ ہے پشاور کے لئے اپنے ذاتی مفادات کی قربانی دینے اُور اپنے ’’علم اُور تجربے‘‘ سے استفادہ کرنے والے ’دردمندوں‘ کی تعداد اُنگلیوں پر شمار کرنے جتنی بھی نہیں۔ 

کوہاٹ سے آبائی تعلق رکھنے والے معروف شاعر مرحوم اَحمد فراز (پیدائش: بارہ جنوری اُنیس سو اکتیس۔ وفات: پچیس اگست دوہزار آٹھ) سے ہوئی ایک ملاقات میں اُنہوں نے پشاور کے بارے میں کہا تھا کہ ۔۔۔ ’’پہلے جب یہاں سے کسی دوسرے شہر جانا ہوتا تو دل افسردہ ہو جایا کرتا تھا لیکن حالت یہ ہوگئی ہے کہ اَب تو پشاور داخل ہونے پر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں! ’’کیسا ہے پشاور یہ‘ یہ کیسا پشاور ہے؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment