Thursday, March 7, 2019

Tit for Tat: US visa fee revised!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ناآشنا‘ کوئی نہیں!
اَمریکہ نے پاکستان کے لئے اپنی ’ویزا پالیسی‘ تبدیل کرتے ہوئے نہ صرف ’ویزا فیسوں‘ میں اضافہ کیا ہے بلکہ مختلف ویزوں کے قیام کی مدت بھی کم کر دی ہے۔ نئے قواعد کی رو سے پاکستانیوں کے لئے امریکہ میں زیادہ سے زیادہ قیام کی مدت مختصر کرتے ہوئے 3 ماہ کر دی گئی ہے۔ اِس ردوبدل کی وجہ سے امریکی ویزے کے چار مختلف درجات (کیٹگریز) متاثر ہوں گی۔ 

عارضی قیام اُُور کام کاج کے لئے ایچ (H) ویزہ 38 ڈالر (5330 روپے) کے عوض حاصل کیا جا سکے گا۔ صحافی‘ ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے پیشہ وروں کے لئے ’’آئی (I)‘‘ ویزے کی قیمت 6 ڈالر کم یعنی 32 ڈالر (4490 روپے) مقرر کی گئی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ملازمین 38 ڈالر کے عوض ایل (L) اُور مذہبی تقاریب یا سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے امریکہ جانے والے 38 ڈالر کے عوض ’آر (R)‘ قسم کا ویزہ حاصل کر سکیں گے۔ یہ فیسیں ماضی کی طرح اجازت نامہ (ویزا) حاصل کرنے سے قبل (پیشگی) ادا کرنا لازم ہوں گی اُور صرف قیمتوں میں ردوبدل ہی نہیں کیا گیا بلکہ امریکہ میں قیام کی مدت صحافیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ ’3 ماہ‘ جبکہ دیگر تین درجات کے لئے ایک سال (12ماہ) کر دی گئی ہے۔ اگرچہ امریکی حکام کی جانب سے یہ تو نہیں کہا گیا کہ پاکستان سے متعلق امریکی ویزے کی پالیسی میں چند تبدیلیاں کرنے کی بنیادی وجہ ’’اینٹ کا جواب پتھر‘‘ سے دیا گیا ہے لیکن اِسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے ایک ذمہ دار نے ’آف دی ریکارڈ‘ بات چیت کرتے ہوئے کم سے کم 4 ایسے امور کی نشاندہی کی ہے‘ جس کی وجہ سے ’ویزا پالیسی‘ پر حالیہ نظرثانی کی گئی۔ 1: پاکستان میں تعینات سفارتی عملے کو کسی مقررہ شہر سے دوسری جگہ جانے سے قبل وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ سے ’پیشگی سفری اجازت‘ حاصل کرنا پڑتی ہے‘ جس سے سفارتکار خود کو چاردیواریوں تک محدود سمجھتے ہیں۔ 2: امریکی سفارت کاروں سے دیگر ممالک کے مقابلے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے حتیٰ کہ امریکیوں کو اپنی مرضی سے عام انتخابات کا عمل قریب سے دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ 3: امریکی صحافیوں کو پاکستان کا ویزا جاری کیا جاتا ہے لیکن وہ اپنی مرضی سے ملک کے کسی بھی حصے کا سفر نہیں کر سکتے بالخصوص حال ہی میں خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع (وفاق کے زیرانتظام رہے قبائلی علاقہ جات) کا دورہ کرنے پر امریکی صحافیوں اور سفارتکاروں پر سفری پابندیاں عائد ہیں۔ 4: امریکی غیرسرکاری عالمی تنظیموں (iNGOs) کے اہلکاروں یا اُن کے غیرملکی نمائندوں کی پاکستان کے اندر آمدورفت پر پابندی کے علاؤہ‘ اُن کی اپنی ترجیحات کے مطابق کام کاج کی آزادی نہیں۔ پاکستان میں تعینات امریکی سفارتکاروں کو دیگر بہت سے ’گلے شکوے‘ بھی ہیں تاہم اُن میں سے چند کا ’منطقی جواز‘ ملک میں امن و امان کی صورتحال (سیکورٹی) کو مدنظر رکھتے ہوئے تصور (فرض)کیا جا سکتا ہے لیکن لب لباب یہ ہے کہ امریکی سفارتکار پاکستانیوں سے زیادہ نہیں بلکہ کم سے کم اُس طرح کے روئیوں کے متقاضی ہیں جیسا کہ جرمنی کے سفارتکاروں کو حاصل ہیں اور جرمنی کے اِمدادی اداروں (جی آئی زیڈ) کی سرگرمیاں ملک کے چاروں صوبوں میں جاری ہیں۔ ویزہ پالیسی میں ردوبدل امریکہ کی جانب سے ’’اینٹ کا جواب پتھر (tit-for-tat)‘‘ ہے کیونکہ بقول سفارتکار پاکستان نے حال ہی میں امریکی باشندوں کے لئے ویزے کی اِنہی ’4کیٹگریز‘ میں ردوبدل کیا ہے۔ 21 جنوری (دوہزاراُنیس) کو امریکہ کے متعلقہ محکمے (اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) نے پاکستان کے لئے ’ویزا پالیسی‘ میں پائی جانے والی ’اُونچ نیچ‘ کا مطالعہ کیا‘ جو (مبینہ طور پر) ’ایک عالمی جائزہ مہم‘ کا حصہ تھا اُور پایا گیا کہ پاکستان کی جانب سے امریکیوں پر عائد سفری پابندیوں کا یکساں اطلاق پاکستانی باشندوں پر بھی کیا جائے‘ جس کی وجہ سے 5مارچ 2019ء کے روز نئی ویزا پالیسی جاری کی گئی۔

امریکی عوام کی جانب سے پاکستان میں امدادی سرگرمیوں کی تاریخ 60 سال پر محیط ہے‘ جس کے تحت کئی میگاپراجیکٹس جیسا کہ 1960ء اُور 1970ء کی دہائی میں منگلا اُور تربیلا ڈیموں کی تعمیر میں کے لئے مالی معاونت کی گئی اُور آج انہی منصوبوں سے پاکستان کی 60فیصد بجلی کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ سردست ’یوایس ایڈ (USaid)‘ ’5کلیدی شعبوں‘ میں پاکستان کی اِقتصادی ترقی و معاشی اِستحکام کے لئے طویل المعیادی ترقیاتی تعاون کر رہا ہے۔ اِن میں توانائی کے پیداواری منصوبے‘ اقتصادی شرح نمو میں اضافے کے لئے اقدامات‘ معاشی استحکام اُور صحت و تعلیم کے شعبوں میں مالی و تکنیکی امداد شامل ہیں‘ اِن منصوبوں کے لئے گذشتہ 10 برس کے دوران ’یو ایڈ‘ نے 7.7 ارب ڈالر اِمداد دی ہے۔ ممالک کے درمیان تعلقات اُور دوستیاں ’دوطرفہ مفادات‘ پر منحصر ہوتی ہیں۔ پاکستان اُور امریکہ کے تعلقات میں اُتارچڑھاؤ کا حالیہ دور ’ڈیموکریٹ پارٹی‘ سے تعلق رکھنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے روز (20 جنوری 2017ء) سے شروع ہوا۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد سے پاکستان کی خارجہ پالیسی ترتیبی و ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے بلکہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک ایسی حکومت آئی ہے‘ جو امریکی دوستی اُور تعلقات کو لیکر زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں اُور حقیقت پسندی سے کام لے رہی ہے۔

جنوب ایشیائی خطے میں ’چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے کی تکمیل اُور اَفغانستان سے اَمریکی افواج کے ممکنہ اِنخلأ کے بعد رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بعد پاکستان کا اَمریکہ پر اِنحصار کم ہوتا نظر آ رہا ہے لیکن اَمریکہ کو پاکستان کی ’’پہلے سے زیادہ‘‘ ضرورت پیش آئے گی۔ امریکہ کے تعاون سے ’سی پیک‘ کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے علاؤہ پاک بھارت سرحدی کشیدگی بھی ختم کی جا سکتی ہے‘ جس کے لئے پاکستان کو امریکہ اُور امریکہ کو پاکستان کے لئے اپنی اپنی ’ویزا پالیسیوں‘ پر نظرثانی کرنا ہوگی تاکہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری و گرمجوشی اُور بالخصوص امریکی امدادی ادارے (یو ایس اِیڈ) کے ترقیاتی حکمت عملیوں کو وسعت دی جا سکے۔ ترقی یافتہ دنیا کا اِستقبال بند سرحدوں اُور پابندیوں سے نہیں بلکہ اعتماد و یقین سے ہونا چاہئے اُور حالات حاضرہ کے تناظر میں پاکستان کے لئے ’’دوست دشمن کی پہچان‘‘ بھی یکساں اہم و ضروری ہے۔ ’’اپنے من کا عکس ہے اپنی صدا کی بازگشت ۔۔۔ دوست دشمن آشنا‘ ناآشنا کوئی نہیں (خورشید رضوی)۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2019-03-07

No comments:

Post a Comment