The real indicator
حقیقی اِشارہ
کسی ملک کی اقتصادی صورتحال پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ’مودیز‘ کی جانب سے پاکستان کے بارے میں تجزیہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان جو درجہ بندی کے لحاظ سے پہلے ’منفی (B-Negative)‘ تھا اُسے ’مستحکم (B3-Stable)‘ قرار دیا گیا ہے۔ کیا یہ کوئی ایسی بات ہے کہ جس پر اظہار مسرت اُور خوشیاں منانی چاہیئں؟ حقیقت یہ ہے کہ درجہ بندی میں ’بی تھری (B-3)‘ وہ آخری سیڑھی ہے جس کے بعد کسی ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے کے پہلے پائیدان پر قدم رکھتی ہے۔ ’بی تھری‘ کے بعد درجہ ’سی (C)‘ شروع ہوتا ہے اُور اِس درجے میں شامل ممالک جزوی دیوالیہ ہونے کے بعد زوال پذیر معیشت کے ساتھ سفر کر رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان کے جیسے طاقتور ملک کے لئے ’بی تھری‘ میں رہنا اپنی شرم کا مقام ہے کیونکہ ماضی میں کئی ایسے ادوار گزرے ہیں جبکہ پاکستان سے متعلق ’مودیز درجہ بندی‘ کافی بہتر تھی۔ 1994ءمیں جب محترمہ بینظیر بھٹو برسراقتدار تھیں تب پاکستان ’بی تھری‘ تھا۔ 2006ءمیں جب صدر پرویز مشرف کی حکومت تھی تب پاکستان ’بی ون (B-1)‘ کے درجے میں تھا۔ کیا مودیز درجہ بندی حقیقت میں قابل بھروسہ بھی ہیں اُور کیا اِن کے ذریعے کسی ملک کی معیشت اُور وہاں ہونے والی اقتصادی سرگرمیاں اُور اصلاحات کو سمجھا جا سکتا ہے؟ کیا یہ درجہ بندی کچھ مطلب بھی رکھتی ہے؟
کرنٹ اکاونٹ:
پاکستان کے جاری اخراجات (کرنٹ اکاو ¿نٹ) جو کہ گزشتہ برس 19.9 ارب ڈالر تھا کم ہو کر 12.75 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ کیا کرنٹ اکاونٹ میں ہونے والے قومی اخراجات میں یہ کمی خوش آئند ہے؟ حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان نے اپنی کرنسی (روپے) کی قدر میں 47 فیصد جیسی غیرمعمولی کمی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں کچھ (4.8فیصد) بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کل خام آمدنی (جی ڈی پی) کی شرح نمو کم ہوئی ہے جو پہلے 5.5 فیصد سالانہ تھی‘ کم ہو کر 3 فیصد پر آ گئی ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ جاری اَخراجات (کرنٹ اِکاونٹ) کا خسارہ کم کرنے کے لئے حکومت نے اقتصادی سرگرمیوں کو سست کر دیا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ معاشی صورتحال سے واقفان حال اِس پر اظہار اطمینان نہیں کر رہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی درآمدات 19 ارب ڈالر سے کم ہو کر 14.65 ارب ڈالر ہوئی ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے جاری اخراجات (کرنٹ اِکاو ¿نٹ) خسارہ کم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں سست ہوئی ہیں اُور برآمدات میں غیرمعمولی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جس پر جشن منایا جانا چاہئے؟
پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض حاصل کر رکھا ہے اُور پاکستان کی اقتصادیات پر ’آئی ایم ایف‘ کی نگرانی جاری ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال پر یقینا ’آئی ایم ایف‘ کے فیصلہ ساز اُور سبھی عالمی اِدارے اظہار اطمینان کر رہے ہوں گے جنہیں صرف مالیاتی حکمت عملیوں سے مطلب ہے۔ اُنہیں اپنے دیئے گئے قرض کی کم سے کم وقت میں واپسی سے غرض ہے۔ حکمرانوں نے عالمی اداروں کو خوش کرنے کے لئے پاکستان کی معاشی و اقتصادی سرگرمیوں کو سست کر دیا ہے اُور اِس بات پر کسی بھی صورت اِظہار اِطمینان نہیں کیا جاسکتا۔
مرکزی مالیاتی ادارے (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی سے نومبر 2019ءکے درمیان سرمایہ کاروں نے 1.097 ارب ڈالر مالیت کے ’ٹی بلز‘ خریدے ہیں۔ کیا یہ اچھی بات ہے؟ یقینا یہ اچھی بات ہے کہ غیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ اُن کی سرمایہ کاری پاکستان کی اقتصادی صورتحال پر اعتماد کی عکاس ہے بلکہ وہ ’بلند ترین شرح سود (کم وقت میں زیادہ منافع)‘ حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے ’ٹی بلز‘ خریدتے ہیں۔ اِس طرح قومی خزانے میں ڈالر تو آ جاتے ہیں لیکن وہ اپنے ساتھ زیادہ مقدار میں ڈالر لے بھی جائیں گے اُور تاریخ گواہ ہے کہ اِس طرح کی سرمایہ کاری سے پاکستان کو فائدے سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اِسی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کاری کی یہ صورت باعث اطمینان نہیں ہے۔ تصور کیجئے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے 1.9 کھرب روپے سود کی مد میں ادا کئے تھے لیکن موجودہ برس یہ رقم بڑھ کر 2.9 کھرب روپے ہو چکی ہے۔ حکومت نے 1.097ارب ڈالر حاصل کئے جس کی وجہ سے اضافی 6.5 ارب ڈالر سود ادا کرنا پڑا۔ کیا ملک کی اقتصادیات کا چلانے کا یہ درست طریقہ ہے؟
پاکستان پر ایسے قرضہ جات کا بوجھ 800 ارب روپے تک جا پہنچا ہے‘ جن کی ادائیگیاں (واپسی) نہیں ہو رہی تو کیا یہ امر باعث اطمینان ہے؟
جی ڈی پی میں اضافہ:
گذشتہ برس پاکستان کی اقتصادی ترقی 5.5 فیصد کے تناسب سے ہوئی جبکہ اِس سال ملک کی خام پیداواری ترقی 3.3 فیصد پر ہے اُور یہ اعدادوشمار وفاقی ادارہ شماریات نے جاری کئے ہیں۔ قومی پیداوار میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ 900 ارب روپے کانقصان ہوا ہے جو قطعی معمولی نہیں۔ قریب 1.2 ارب پاکستانی اپنی نوکریوں سے محروم ہوئے ہیں جبکہ قریب 90 لاکھ پاکستانی ایسے ہیں جنہیں ملک کے اقتصادی حالات نے خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے پیشنگوئی کی ہے کہ آئندہ برس پاکستان کی قومی پیداوار میں مزید کمی ہوگی اُور یہ 3.3 فیصد سے 2.8فیصد پر آ جائے گی جس کا مطلب ہے کہ مزید پاکستانی بیروزگار ہوں گے تو جس ملک میں روزگار کے مواقع ہر سال کم ہو رہے ہوں‘ وہاں کے حکمرانوں کی جانب سے معاشی و اقتصادی ترقی کے دعووں پر یقین (اظہار اطمینان) کرنا چاہئے؟
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
حقیقی اِشارہ
کسی ملک کی اقتصادی صورتحال پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ’مودیز‘ کی جانب سے پاکستان کے بارے میں تجزیہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان جو درجہ بندی کے لحاظ سے پہلے ’منفی (B-Negative)‘ تھا اُسے ’مستحکم (B3-Stable)‘ قرار دیا گیا ہے۔ کیا یہ کوئی ایسی بات ہے کہ جس پر اظہار مسرت اُور خوشیاں منانی چاہیئں؟ حقیقت یہ ہے کہ درجہ بندی میں ’بی تھری (B-3)‘ وہ آخری سیڑھی ہے جس کے بعد کسی ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے کے پہلے پائیدان پر قدم رکھتی ہے۔ ’بی تھری‘ کے بعد درجہ ’سی (C)‘ شروع ہوتا ہے اُور اِس درجے میں شامل ممالک جزوی دیوالیہ ہونے کے بعد زوال پذیر معیشت کے ساتھ سفر کر رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان کے جیسے طاقتور ملک کے لئے ’بی تھری‘ میں رہنا اپنی شرم کا مقام ہے کیونکہ ماضی میں کئی ایسے ادوار گزرے ہیں جبکہ پاکستان سے متعلق ’مودیز درجہ بندی‘ کافی بہتر تھی۔ 1994ءمیں جب محترمہ بینظیر بھٹو برسراقتدار تھیں تب پاکستان ’بی تھری‘ تھا۔ 2006ءمیں جب صدر پرویز مشرف کی حکومت تھی تب پاکستان ’بی ون (B-1)‘ کے درجے میں تھا۔ کیا مودیز درجہ بندی حقیقت میں قابل بھروسہ بھی ہیں اُور کیا اِن کے ذریعے کسی ملک کی معیشت اُور وہاں ہونے والی اقتصادی سرگرمیاں اُور اصلاحات کو سمجھا جا سکتا ہے؟ کیا یہ درجہ بندی کچھ مطلب بھی رکھتی ہے؟
کرنٹ اکاونٹ:
پاکستان کے جاری اخراجات (کرنٹ اکاو ¿نٹ) جو کہ گزشتہ برس 19.9 ارب ڈالر تھا کم ہو کر 12.75 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ کیا کرنٹ اکاونٹ میں ہونے والے قومی اخراجات میں یہ کمی خوش آئند ہے؟ حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان نے اپنی کرنسی (روپے) کی قدر میں 47 فیصد جیسی غیرمعمولی کمی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں کچھ (4.8فیصد) بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کل خام آمدنی (جی ڈی پی) کی شرح نمو کم ہوئی ہے جو پہلے 5.5 فیصد سالانہ تھی‘ کم ہو کر 3 فیصد پر آ گئی ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ جاری اَخراجات (کرنٹ اِکاونٹ) کا خسارہ کم کرنے کے لئے حکومت نے اقتصادی سرگرمیوں کو سست کر دیا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ معاشی صورتحال سے واقفان حال اِس پر اظہار اطمینان نہیں کر رہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی درآمدات 19 ارب ڈالر سے کم ہو کر 14.65 ارب ڈالر ہوئی ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے جاری اخراجات (کرنٹ اِکاو ¿نٹ) خسارہ کم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں سست ہوئی ہیں اُور برآمدات میں غیرمعمولی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جس پر جشن منایا جانا چاہئے؟
پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض حاصل کر رکھا ہے اُور پاکستان کی اقتصادیات پر ’آئی ایم ایف‘ کی نگرانی جاری ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال پر یقینا ’آئی ایم ایف‘ کے فیصلہ ساز اُور سبھی عالمی اِدارے اظہار اطمینان کر رہے ہوں گے جنہیں صرف مالیاتی حکمت عملیوں سے مطلب ہے۔ اُنہیں اپنے دیئے گئے قرض کی کم سے کم وقت میں واپسی سے غرض ہے۔ حکمرانوں نے عالمی اداروں کو خوش کرنے کے لئے پاکستان کی معاشی و اقتصادی سرگرمیوں کو سست کر دیا ہے اُور اِس بات پر کسی بھی صورت اِظہار اِطمینان نہیں کیا جاسکتا۔
مرکزی مالیاتی ادارے (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی سے نومبر 2019ءکے درمیان سرمایہ کاروں نے 1.097 ارب ڈالر مالیت کے ’ٹی بلز‘ خریدے ہیں۔ کیا یہ اچھی بات ہے؟ یقینا یہ اچھی بات ہے کہ غیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ اُن کی سرمایہ کاری پاکستان کی اقتصادی صورتحال پر اعتماد کی عکاس ہے بلکہ وہ ’بلند ترین شرح سود (کم وقت میں زیادہ منافع)‘ حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے ’ٹی بلز‘ خریدتے ہیں۔ اِس طرح قومی خزانے میں ڈالر تو آ جاتے ہیں لیکن وہ اپنے ساتھ زیادہ مقدار میں ڈالر لے بھی جائیں گے اُور تاریخ گواہ ہے کہ اِس طرح کی سرمایہ کاری سے پاکستان کو فائدے سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اِسی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کاری کی یہ صورت باعث اطمینان نہیں ہے۔ تصور کیجئے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے 1.9 کھرب روپے سود کی مد میں ادا کئے تھے لیکن موجودہ برس یہ رقم بڑھ کر 2.9 کھرب روپے ہو چکی ہے۔ حکومت نے 1.097ارب ڈالر حاصل کئے جس کی وجہ سے اضافی 6.5 ارب ڈالر سود ادا کرنا پڑا۔ کیا ملک کی اقتصادیات کا چلانے کا یہ درست طریقہ ہے؟
پاکستان پر ایسے قرضہ جات کا بوجھ 800 ارب روپے تک جا پہنچا ہے‘ جن کی ادائیگیاں (واپسی) نہیں ہو رہی تو کیا یہ امر باعث اطمینان ہے؟
جی ڈی پی میں اضافہ:
گذشتہ برس پاکستان کی اقتصادی ترقی 5.5 فیصد کے تناسب سے ہوئی جبکہ اِس سال ملک کی خام پیداواری ترقی 3.3 فیصد پر ہے اُور یہ اعدادوشمار وفاقی ادارہ شماریات نے جاری کئے ہیں۔ قومی پیداوار میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ 900 ارب روپے کانقصان ہوا ہے جو قطعی معمولی نہیں۔ قریب 1.2 ارب پاکستانی اپنی نوکریوں سے محروم ہوئے ہیں جبکہ قریب 90 لاکھ پاکستانی ایسے ہیں جنہیں ملک کے اقتصادی حالات نے خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے پیشنگوئی کی ہے کہ آئندہ برس پاکستان کی قومی پیداوار میں مزید کمی ہوگی اُور یہ 3.3 فیصد سے 2.8فیصد پر آ جائے گی جس کا مطلب ہے کہ مزید پاکستانی بیروزگار ہوں گے تو جس ملک میں روزگار کے مواقع ہر سال کم ہو رہے ہوں‘ وہاں کے حکمرانوں کی جانب سے معاشی و اقتصادی ترقی کے دعووں پر یقین (اظہار اطمینان) کرنا چاہئے؟
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
No comments:
Post a Comment