Saturday, February 22, 2020

Justice Injustice: Najam Sethi vs Darren Sammy

قومی اعزاز: حق تلفی !
کرکٹ کے منتظم اِدارے‘ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سوشل میڈیا ٹوئیٹر اکاونٹ (@TheRealPCBMedia) سے یہ اِعلان (بائیس فروری کے روز) سامنے آیا کہ ”ویسٹ انڈین کرکٹر اُور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں حصہ لینے والی کھلاڑی ڈیرن سیمی (Darren Sammy) کو اعلیٰ ترین شہری اعزاز اُور اعزازی شہریت دی جائے گی اُور یہ اعزازات صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی تیئس مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والی روائتی سالانہ تقریب کے دوران دیں گے۔“ فوری ردعمل پشاور زلمی کے منیجر جاوید آفریدی کی جانب سے دیکھنے میں آیا جنہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ (@JAfridi10) کے ذریعے فخر اُور مسرت کا اِظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں یہ اعزاز (صرف) پشاور زلمی کے حصے میں آیا ہے کہ اس کے کپتان ڈیرن سمی (@DarenSammy88)کو حکومت پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیا (ہے)۔ ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں سجدہ شکر کے ساتھ ساتھ اپنے چاہنے والوں اُور حکومت پاکستان کی جانب سے اِس عزت (افزائی) کے لئے شکرگزار ہیں۔“

ڈیرن سیمی کے لئے مذکورہ اعزازات پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے لئے اُن کی خدمات کا اِعتراف ہیں لیکن اِس سلسلے میں سب سے زیادہ ’پُرخلوص کوششیں‘ کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ نجم سیھٹی (@NajamSethi) کی ہیں‘ جنہوں نے بیس فروری کو اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں اُن سبھی شائقین کرکٹ کا شکریہ ادا کیا تھا جنہوں نے ’پی ایس ایل‘ کے 5 ویں سیزن کے آغاز پر اُنہیں یاد رکھا۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں عالمی کرکٹ کی واپسی کے لئے ’پی ایس ایل‘ کی کسی بھی ٹیم کے منیجر یا کھلاڑی سے زیادہ خدمات نجم سیٹھی کی تھیں‘ جنہوں نے پاکستان میں کرکٹ کی بحالی و واپسی کے لئے اپنا سب کچھ داو ¿ پر لگا دیا۔ وہ نہ صرف اپنا صحافتی اثرورسوخ بروئے کار لائے بلکہ ملکی اُور بین الاقوامی طور پر بھی ’پی ایس ایل‘ کو ایک مستند ٹورنامنٹ کے طور پر منوایا اُور پاکستان کی کرکٹ سے محبت اُور پاکستان کے لئے اِس کھیل کی اہمیت کو عالمی سطح پر اُجاگر کرتے ہوئے بھارت کی اُن سازشوں کو بھی ناکام بنایا جو عالمی کرکٹ کے فیصلہ ساز ادارے (آئی سی سی) میں کی گئیں تھیں لیکن افسوس کہ پاکستان کے فیصلہ سازوں نے اعزازات دینے میں کنجوسی سے زیادہ بخل سے کام لیا گیا ہے اُور نجم سیٹھی جن کا شمار تحریک انصاف کے انتہائی ناقدین میں ہوتا ہے اُور جن پر 35 پنکچروں (عام انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے تحریک انصاف کو ناکام بنانے) جیسا بناءثبوت الزام عائد کیا گیا تھا‘ آج پورے منظرنامے سے ’آو ¿ٹ‘ کر دیئے گئے ہیں۔ کرکٹ (کھیل) ہی کی اصطلاحات کا سہارا لیا جائے تو نجم سیٹھی ’کلین بولڈ‘ نہیں ہوئے بلکہ اُنہیں ایک ایسی حالت میں ’رن آوٹ‘ قرار دیا گیا ہے جبکہ وہ ایمپائر کے متعصبانہ فیصلے پر نظرثانی (review) کا (آئینی) اختیار بھی نہیں رکھتے۔ یقینا یہ کام کسی صحافی کا نہیں تھا کہ وہ ملک میں عالمی کرکٹ کی واپسی کے لئے اپنا سب کچھ داو پر لگا دیتا اُور اُس پر یہ چھاپ (الزام) بھی تاحیات لگ جاتا کہ وہ کسی خاص جماعت کے سیاسی نظریات (موقف) کا حامی اُور تابع فرمان ہے۔ صحافی اگر بے ضرر نہ بھی ہوں لیکن وہ غیرجانبدار ضرور ہوتے ہیں اُور جہاں تک نجم سیٹھی کا تعلق ہے آج اُن کا شمار غیرجانبدار صحافیوں میں نہیں کیا جاتا‘ جو اپنی جگہ ایک بڑی ناانصافی ہے حالانکہ وہ قلم قبیلے کے اُن چند صائب الرائے اراکین میں شامل و شمار ہوتے ہیں‘ جن کے تجزئیات میں گہرائی ہوتی ہے اُور جن کے تجزئیات کی روشنی میں سیاسی و سماجی مستقبل کو بڑی حد تک سمجھا اُور دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جس قدر کردار کشی نجم سیٹھی کی گئی ہے شاید ہی کسی دوسرے ایسے شخص کی گئی ہو‘ جس نے پاکستان کے نام اُور اِس کی ساکھ کو عالمی سطح پر اُجاگر کیا ہے۔ کپتان کی قیادت میں حکومت بھلے ہی اُن کی خدمات کا اعتراف نہ کرے لیکن پاکستان میں کھیلوں کی تاریخ کا ایک باب نجم سیٹھی ہی کے نام رہے گا۔

حکومت کی جانب سے پشاور زلمی کے کپتان اُور منیجر پر انتہا کی نظر کرم کرنے کے ساتھ اگر اُن تمام دیگر شخصیات کی خدمات کا بھی اعتراف کر لیا جاتا تو فیصلہ کرنے میں آسانی اُور ناانصافی کے امکان کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا تھا اُور ایسا کرنے کا ایک سائنسی طریقہ بھی موجود تھا۔ مثال کے طور پر وزیراعظم عمران خان کے ایک کروڑ گیارہ لاکھ سے زیادہ‘ صدر عارف علوی کے بائیس لاکھ سے زیادہ اُور پاکستان کرکٹ بورڈ کے ٹوئیٹر صارفین کی تعداد بھی بائیس لاکھ سے زیادہ ہے جو سوشل میڈیا کے اِن صارفین کی مجموعی تعداد ڈیڑھ کروڑ بنتی ہے اُور مذکورہ تینوں ٹوئیٹر اکاونٹس مصدقہ (verified) بھی ہیں یعنی یہ جعلی (فرضی ناموں سے تخلیق) نہیں اُور انہی کے ذریعے تینوں حکومتی اِداروں (وزارت عظمی‘ صدر مملکت اُور کرکٹ بورڈ) کی سرگرمیوں اُور اعلامیوں وغیرہ کا اجرا ہوتا ہے تو ٹوئیٹر کے ذریعے یہ سوال پوچھتے ہوئے پاکستانیوں کی رائے معلوم کی جاسکتی تھی کہ ”عالمی کرکٹ کی وطن واپسی کے لئے کوشش کرنے کے صلے میں اعزاز کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟“ مختلف نام اُور آراء(جائزہ) سامنے آ جاتا یوں دودھ کا دودھ اُور پانی کا پانی ہو سکتا تھا۔ کسی غیرملکی کھلاڑی کو کندھوں پر اُٹھاتے ہوئے اُسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے میں اگر ناانصافی اُور حق تلفی کا تاثر اُبھر کر سامنے آ رہا ہو تو ایسا بہرحال پاکستان جیسے اسلامی ملک میں نہیں ہونا چاہئے تھا‘ گرچہ ایسا دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا اُور یہ بات بھی اپنی جگہ غور طب ہے کہ دنیا میں بہت کم ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کسی کھلاڑی یا کسی کھیل سے وابستہ شخصیت کو اُس ملک کی ’اعزازی شہریت‘ دے دی گئی ہو۔

یادش بخیر سال 2002ءمیں شمالی کوریا نے فٹبال کوچ گس ہڈینک کو اعزازی شہریت دی تھی جن کی کوچنگ میں کوریا کی ٹیم نے فٹبال ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جگہ بنائی تھی۔ سال 2006ءمیں امریکی فٹبالر ہائنز وارڈ کو کوریا کی اعزازی شہریت دی گئی جنہوں نے کوریا میں آدھے کورین باشندوں کے لئے پائی گئی نسلی تفریق کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ سال 2007ءمیں ویسٹ انڈیز میں ہونے والے کرکٹ کے عالمی کپ کے بعد سینٹ کٹس نے آسٹریلیا کے میتھیو ہیڈن اور جنوبی افریقہ کے ہرشل گبز کو اعزازی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا۔ سال 2013ءمیں کولمبیا نے ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے فٹبال کوچ ہوزے پیکرمین کو اعزازی شہریت دی تھی جنہوں نے کولمبیا کی ٹیم کو دوہزارچودہ کے عالمی مقابلے (ورلڈ کپ) میں کوالیفائی کرایا تھا اُور اب پاکستان کا نام بھی اِس فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ اپنے تو بہرحال اپنے ہوتے ہیں۔ فیصلہ سازوں کے لئے عرض ہے کہ فراخدلی کا مظاہرہ اُور کرکٹ و کرکٹرز کی قدرشناسی کرتے ہوئے اپنوں سے ناانصافی یا اپنوں کی حق تلفی نہیں ہونی چاہئے۔
”کچھ تو دے اے فلک ناانصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی (مرزا غالب)۔“
Sammy
West Indies’ veteran Darren Sammy set to become honorary citizen of Pakistan
...

No comments:

Post a Comment