اجتماعی قربانی
معروف لسانی و سیاسی جماعت ”پاکستان ہندکووان تحریک (پشاور شاخ)“ کی جانب سے جاری ہونے والا غیرسیاسی پیغام توجہ طلب ہے جس میں عیدالاضحی کے موقع پر (اِس مرتبہ) زیادہ سے زیادہ ’اجتماعی قربانی‘ اُور اِس سلسلے میں تحریک کی زیرنگرانی کئے گئے خصوصی انتظامات سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ قبل ازیں کورونا وبا کے سبب معاشی مشکلات کا سامنا کرنے والے ’ہندکووانوں‘ کے لئے مالی امداد اُور رمضان المبارک کے دوران اشیائے خوردونوش کی مستحق ’ہندکووان خاندانوں‘ میں تقسیم نے مذکورہ تحریک کو نئی پہچان‘ جان اُور شان عطا کی ہے اُور اِس کا شمار پاکستان کی اُن صف اوّل میں شامل معروف فلاحی تنظیموں کے ساتھ ہونے لگا ہے جو مشکل کی ہر گھڑی میں پیش پیش رہتی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ’ہندکوان تحریک‘ کے اہداف و مقاصد صرف اُور صرف ہندکو زبان بولنے والوں کے سیاسی و سماجی حقوق کا تحفظ اُور اُن کی ہر ممکنہ امداد ہے جو نہایت ہی خوش اسلوبی‘ ذمہ داری اُور امانت و دیانت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جاری ہے۔
جولائی 2018ءکے عام انتخابات سے قبل قائم ہونے والی سیاسی جماعت ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ کو اگرچہ ہندکوزبان بولنے والوں کی جانب سے انتخابی مرحلے میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی لیکن جس سیاسی جماعت کا عام انتخاب سے اپنے سفر کے آغاز اُور روائتی انداز میں سیاسی بیان بازی کی بجائے کسی غیرسرکاری تنظیم (این جی اُو) اُور فلاحی ادارے کی طرح سماجی خدمت پر یقین ہو اُس کی سیاست کو زوال نہیں ہوسکتا اُور نہ ہی اُس کی مقبولیت کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل ہو سکتی ہے۔ پہلی نظر میں ’ہندکووان تحریک‘ کا پیغام تعصب اُور امتیازی لگتا ہے لیکن بغور دیکھا جائے تو قومی سیاست کرنے والی خیبرپختونخوا‘ پنجاب‘ بلوچستان اُور سندھ کی قوم پرست جماعتیں کم وبیش اِسی قسم کے اہداف و مقاصد رکھتی ہیں لیکن وہ اِن کا زیادہ پرچار اُور اظہار نہیں کرتیں۔ امتیاز لائق توجہ ہے کہ ہندکووان تحریک کے انتخابی و سیاسی منشور کا ہر لفظ اُور جملہ صرف اُور صرف ہندکو زبان اُور اِس زبان کے بولنے والوں کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریر میں لایا گیا ہے اُور حسن ظن یہ ہے کہ یقینا فیصلہ سازی کا موقع ملنے پر اِسے فراموش نہیں کیا جائے گا اُور مادری زبان ہندکو بولنے والوں سے ہونے والے امتیازی سلوک اُور روئیوں کا خاتمہ کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔
متعدد سوشل میڈیا وسائل اُور بالخصوص واٹس ایپ گروپس کے ذریعے اُن ”سفید پوش ہندکو بولنے والوں“ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو اپنی ضروریات کے لئے ہاتھ پھیلا نہیں سکتے۔ جو اپنی محتاجی و لاچاری کا پرچار کرنے کے ماہر نہیں اُور جن کو سہارا دینے کے لئے سیاسی و سماجی سطح پر خاطرخواہ دردمندی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ پشاور کی ایک معروف کاروباری شخصیت سے بات چیت کے دوران ایک ایسی پریشان کن حقیقت معلوم ہوئی‘ کہ جس کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں اُور وہ یہ کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ پشاور کے اِس سرمایہ دار گھرانے سے تعلق رکھنے والوں کے دروازوں پر زکوة اُور خیرات و صدقات کی صورت مالی مدد مانگنے والوں کی بھیڑ میں ہندکوزبان بولنے والے شامل ہوں لیکن اب اکثریت ہندکو بولنے والوں کی ہوتی ہے!“
آخر ایسا کیا ہوا کہ ہندکو بولنے والے مفلس اُور محتاج ہوتے چلے گئے؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے والوں کو اُن سیاسی امتیازات اُور لسانی تعصبات (سلوک) کو بھی شمار و فہرست کرنا ہوگا‘ جو مادری طور پر ’ہندکو زبان‘ بولنے والوں سے روا رکھا گیا اُور یہ کسی ایک سیاسی دور کی بات نہیں لیکن گزشتہ بیس برس کے دوران بالخصوص خیبرپختونخوا کے ہندکووان گھرانوں کو سرکاری و نجی ملازمتوں‘ معیاری تعلیم و روزگار اُور کاروبار میں آگے بڑھنے کے بہت کم مواقع ملے ہیں۔
اُمید ہے کہ ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ کی پشاور شاخ ہندکووان گھرانوں کے کوائف جمع کرنے اُور اُن کی مالی معاشی و دیگر مشکلات سے متعلق اعدادوشمار جمع کرے گی۔ اِس سلسلے میں تحریک کی ’موبائل فون ایپ‘ جوکہ پہلے ہی فعال ہے‘ کے ذریعے خانہ و مردم شماری کے ساتھ خاندانوں کی انفرادی معاشی و مالی حالت کے بارے میں بھی کوائف (ڈیٹا) جمع کیا جا سکتا ہے اُور چونکہ آئندہ عام انتخابات کی اُلٹی گنتی کا آغاز ہو چکا ہے اُور 2018ءکے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی موجودہ حکومت اپنی نصف مدت مکمل کر چکی ہے اِس لئے ہندکووانوں کو اپنی قسمت کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لینا ہوں گے۔ اغیار سے توقعات وابستہ رکھنا خود کو مزید دھوکہ دینے کے مترادف عمل ہے۔
وقت ہے کہ صاحب ثروت ہندکووان عیدالاضحی کے موقع پر نہ صرف اجتماعی قربانی بلکہ دیگر ایام میں اپنے ’ہم زبان‘ قرابت داروں اُور دکھ درد کے حقیقی شرکا کی استعانت کریں۔
وقت ہے کہ ہندکووان خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنے متعلق قومی و صوبائی فیصلہ سازی کا اختیار اُن نمائندوں کے حوالے کریں‘ جنہیں نمائندگی کرنے کا حق ہونا چاہئے اُور جو اُن کے دکھ درد‘ مشکلات‘ مصائب اُور پریشانیوں کا کماحقہ احساس کرتے ہوئے صرف پریشان نہیں بلکہ عملی جدوجہد کے ذریعے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھکان چکے ہیں جو ہندکو زبان اُور ہندکو زبان بولنے والوں سے روا رکھے گئے تعصبات‘ امتیازات اُور اِن کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لئے پُرعزم ہیں۔
یقینا یہ وقت اجتماعی قربانی کا ہے۔
ایک ایسی قربانی جو معنوی اعتبار سے زیادہ وسیع ہو۔ جو محض عیدالاضحی کے موقع پر مال مویشیوں کی حد تک محدود نہ رہے بلکہ اِس میں حقوق العباد کی ادائیگی اُور اِس کے لئے قرابت داروں کے انتخاب پر مبنی ترجیح بھی شامل حال ہونی چاہئے۔
”انسانیت کے درد کی آواز بن سکے ....
سوزِ نوا سے سینچئے زخم خیال کو (رفیق خاور جسکانی)۔“
آخر ایسا کیا ہوا کہ ہندکو بولنے والے مفلس اُور محتاج ہوتے چلے گئے؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے والوں کو اُن سیاسی امتیازات اُور لسانی تعصبات (سلوک) کو بھی شمار و فہرست کرنا ہوگا‘ جو مادری طور پر ’ہندکو زبان‘ بولنے والوں سے روا رکھا گیا اُور یہ کسی ایک سیاسی دور کی بات نہیں لیکن گزشتہ بیس برس کے دوران بالخصوص خیبرپختونخوا کے ہندکووان گھرانوں کو سرکاری و نجی ملازمتوں‘ معیاری تعلیم و روزگار اُور کاروبار میں آگے بڑھنے کے بہت کم مواقع ملے ہیں۔
اُمید ہے کہ ’پاکستان ہندکووان تحریک‘ کی پشاور شاخ ہندکووان گھرانوں کے کوائف جمع کرنے اُور اُن کی مالی معاشی و دیگر مشکلات سے متعلق اعدادوشمار جمع کرے گی۔ اِس سلسلے میں تحریک کی ’موبائل فون ایپ‘ جوکہ پہلے ہی فعال ہے‘ کے ذریعے خانہ و مردم شماری کے ساتھ خاندانوں کی انفرادی معاشی و مالی حالت کے بارے میں بھی کوائف (ڈیٹا) جمع کیا جا سکتا ہے اُور چونکہ آئندہ عام انتخابات کی اُلٹی گنتی کا آغاز ہو چکا ہے اُور 2018ءکے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی موجودہ حکومت اپنی نصف مدت مکمل کر چکی ہے اِس لئے ہندکووانوں کو اپنی قسمت کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لینا ہوں گے۔ اغیار سے توقعات وابستہ رکھنا خود کو مزید دھوکہ دینے کے مترادف عمل ہے۔
وقت ہے کہ صاحب ثروت ہندکووان عیدالاضحی کے موقع پر نہ صرف اجتماعی قربانی بلکہ دیگر ایام میں اپنے ’ہم زبان‘ قرابت داروں اُور دکھ درد کے حقیقی شرکا کی استعانت کریں۔
وقت ہے کہ ہندکووان خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنے متعلق قومی و صوبائی فیصلہ سازی کا اختیار اُن نمائندوں کے حوالے کریں‘ جنہیں نمائندگی کرنے کا حق ہونا چاہئے اُور جو اُن کے دکھ درد‘ مشکلات‘ مصائب اُور پریشانیوں کا کماحقہ احساس کرتے ہوئے صرف پریشان نہیں بلکہ عملی جدوجہد کے ذریعے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھکان چکے ہیں جو ہندکو زبان اُور ہندکو زبان بولنے والوں سے روا رکھے گئے تعصبات‘ امتیازات اُور اِن کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لئے پُرعزم ہیں۔
یقینا یہ وقت اجتماعی قربانی کا ہے۔
ایک ایسی قربانی جو معنوی اعتبار سے زیادہ وسیع ہو۔ جو محض عیدالاضحی کے موقع پر مال مویشیوں کی حد تک محدود نہ رہے بلکہ اِس میں حقوق العباد کی ادائیگی اُور اِس کے لئے قرابت داروں کے انتخاب پر مبنی ترجیح بھی شامل حال ہونی چاہئے۔
”انسانیت کے درد کی آواز بن سکے ....
سوزِ نوا سے سینچئے زخم خیال کو (رفیق خاور جسکانی)۔“
........
No comments:
Post a Comment