مقبوضہ ٹیوب ویل
واٹر اِینڈ سینی ٹیشن سروسیز پشاور (اَلمعروف واسا) کی خدمات میں ”صاف پانی کی فراہمی“ وہ بنیادی کام ہے‘ جس کی اِہمیت و طلب موسم گرما میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ’واسا‘ کے زیرانتظام پشاور کی مختلف یونین کونسلوں میں فراہم کیا جانے والا پانی معیاری (صاف) اُور مقدار میں کافی ہو اُور اِس بات کی ضمانت بھی نہیں دی جاتی کہ کسی علاقے (یونین کونسل) کے صارفین کو فراہم کیا جانے والا پانی وہاں کے ہر گھر (ہر صارف) تک پہنچ بھی رہا ہے جبکہ پانی پہنچے یا نہ پہنچے لیکن ’پانی کا بل (Water Bill)‘ باقاعدگی سے وصول ہو جاتا ہے۔ وقت ہے کہ اخبارات میں شائع کروائی جانے والی کارکردگی پر اکتفا اُور مذکورہ سرکاری اِدارے کی خدمات کا دائرہ ہر دن وسیع کرنے کے ساتھ اُن صارفین کا اِعتماد حاصل کرنے کے بارے میں بھی سوچا جائے‘ جنہیں واسا کے ذریعے ملنے والا پانی اِس کے معیار اُور مقدار بارے شکایات و تحفظات ہیں اُور اِنہی آرا کی روشنی میں ’واسا کارکردگی کا اِحتساب‘ ہونا چاہئے۔
پشاور کی یونین کونسل نمبر 1‘ سیٹھی ٹاون (پہاڑی پورہ)‘ بلدیاتی بندوبست کے لحاظ سے ”ٹاون ون“کا حصہ اُور اُن ’چنیدہ‘ علاقوں میں شامل ہے‘ جہاں کے رہنے والوں کو کمال مہربانی سے (بطور احسان) ”شہریوں“ میں تو شمار کیا جاتا ہے لیکن اُنہیں شہریوں جیسی جملہ سہولیات میسر نہیں اُور نہ ہی واسا کے زیرانتظام تمام صارفین اُور تمام یونین کونسلوں (علاقوں) کو ایک نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیٹھی ٹاون کے ایک حصے کو پانی کی فراہمی کے سلسلے (نیٹ ورک) سے جوڑا گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پانی کی فراہمی کا یہ بندوبست ’واسا‘ کی تخلیق سے پہلے کا تھا‘ جس کی حسب ضرورت اصلاح نہیں کی گئی۔ سیٹھی ٹاون کی غالب سٹریٹ اُور اِس سے ملحقہ گلی کوچوں میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں ’آبنوش صارفین‘ کو ماہ رمضان المبارک سے پانی کی قلت کا سامنا ہے اُور اِس بات کی فریاد (شکایت) کرتے کرتے عید الفطر اُور عید الاضحی جیسے تہوار بھی فریاد کرتے گزر گئے لیکن پانی کے بل باقاعدگی سے وصول کرنے والوں کے ضمیر پر کسی بھی قسم کا بوجھ نہیں! پانی کے بل پر شکایات درج کرانے کے نمبروں پر ٹیلی فون کالز‘ متعلقہ ٹیوب ویل‘ واسا زونل دفتر اُور قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین سے رجوع (رابطہ) کرنے کا بھی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا کہ پانی کی فراہمی بحال ہو سکے۔
آخر کب تک ٹیوب ویلوں سے پانی کی تقسیم جیسے معاملے میں بھی سیاسی مداخلت ہوتی رہے گی؟
اہل علاقہ کے بقول بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں ٹیوب ویل کسی سرکاری زمین یا سرکاری کنٹرول والی جگہ پر نصب کرنے کی بجائے سیاسی اثرورسوخ رکھنے والی ایک مقامی شخصیت (ملک سجاد) کے حجرے کی چاردیواری کے اندر‘ عام شاہراہ سے دور جگہ کا انتخاب کیا گیا‘ جہاں تک رسائی اُور مذکورہ حجرے میں داخلے کے حقوق محفوظ تھے۔ مذکورہ سیاسی و سماجی اُور مالی طور پر بااثر شخصیت نے ٹیوب ویل نصب ہونے کے بعد اپنے حجرے کے ایک حصے میں ’سوئمنگ پول‘ بنا کر کاروبار شروع کر دیا اُور یوں سرکاری بجلی‘ مشینری اُور ٹیوب ویل پر تعینات سرکاری عملے کی خدمات سے ’کمرشل سوئمنگ پول‘ بھرنے لگا۔ موسم گرما میں دور دراز سے لوگ تازہ پانی کے اِس سوئمنگ پول میں نہانے کے لئے آنے لگے یوں ”مقامی سیاحت“ میں ایک خوشگوار تفریح کا اضافہ ہوا‘ جو سراسر ’بدنیتی اُور بدعنوانی پر مبنی اقدام‘ اُور متعلقہ بلدیاتی ادارے کے اہلکاروں کی ملی بھگت کا مظہر تھا۔ ٹیوب ویل کا وہ پانی جو اہل علاقہ کو فراہم ہونا تھا وہ ایک ’نجی کمرشل سوئمنگ پول‘ کے لئے مختص کر دیا گیا اُور جب اہل علاقہ کی شکایات ذرائع ابلاغ کے ذریعے زیادہ ہوئیں تو پائپ لائن بچھا کر مذکورہ ٹیوب ویل سے آس پاس کے چند محلوں کو پانی فراہم کیا گیا لیکن اہل علاقہ کو پانی فراہم کرنا کبھی بھی ترجیح نہیں تھی۔ حسب سابق و معمول موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی ہزاروں لیٹر پانی سوئمنگ پول کو دیا جانے لگا جس کی وجہ سے پہلے پانی کی قلت اُور بعدازاں مکمل بندش کر دی گئی۔
سیٹھی ٹاون کے جملہ رہائشی‘ حسین چوک سے غالب سٹریٹ اُور رنگ روڈ (چغل پورہ) تک کسی نہ کسی صورت پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ کہیں سرکاری پائپ لائنیں مکمل خشک ہیں تو کہیں چند گھنٹوں کے لئے پانی فراہم کر کے صارفین کے منہ کر دیئے گئے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ سیٹھی ٹاون میں زیرزمین پانی کی مقدار اِس حد تک کم ہو چکی ہے کہ گھروں میں موجود بورنگ کارآمد نہیں رہیں۔ پشاور کی اِس نسبتاً جدید رہائشی بستی میں تعمیر ہونے والے ہر مکان کے لئے زیرزمین پانی کے ذخیرے سے اِستفادہ ہوتا تھا لیکن ’پانی کی سطح‘ آبادی بڑھنے کے ساتھ کم ہوتی چلی گئی اُور اب سارے کا سارا انحصار ’واسا‘ کے فراہم کردہ پانی کے نیٹ ورک پر ہو چکا ہے‘ جو اپنی جگہ قابل بھروسہ نہیں۔
سیٹھی ٹاون سے تعلق رکھنے والے ’پانی کے صارفین‘ نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سے درخواست کی ہے کہ وہ اُن کے علاقے میں گزشتہ چھ ماہ سے جاری پانی کی شدید ترین قلت کا نوٹس لیں اُور مقبوضہ سرکاری ٹیوب ویل کو سیاسی جماعت کے چنگل سے واگزار کرانے کے علاوہ اُن تمام بلدیاتی اُور واسا اِہلکاروں کے خلاف تحقیقات کا حکم بھی دیں جو سرکاری ٹیوب ویل کے نجی استعمال و استفادے پر خاموش ہیں اُور یہ خاموشی بلاوجہ نہیں ہو سکتی!
وقت ہے کہ پشاور کی جن یونین کونسلوں میں ’واسا‘ خدمات کا دائرہ وسیع کیا گیا ہے وہاں کے صارفین کی آرا جاننے کے لئے کسی آزاد ذریعے سے سروے کیا جائے۔ ’واسا‘ کے لئے نئے سربراہ کی تعیناتی اپنی جگہ ایک الگ ضرورت ہے کیونکہ موجودہ ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے سربراہ دیگر اہم محکموں (پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اُور میٹرو بس بی آر ٹی) کے بھی منتظم اعلیٰ ہیں اُور کسی ایک شخص کے لئے عملاً ممکن نہیں ہو سکتا کہ وہ باوجود خواہش و کوشش بھی بیک وقت تین محکموں کے اَمور نمٹاتے ہوئے اپنے عہدے سے جڑی ذمہ داریوں کی انجام دہی (کماحقہ) خوش اسلوبی سے کر سکے۔
سیٹھی ٹاون سمیت پشاور کے جن علاقوں میں صارفین کو حسب وعدہ پانی فراہم نہیں کیا جا رہا‘ اُن سے وصول شدہ گزشتہ کئی ماہ کے یوٹیلٹی بلز یا تو واپس ہونے چاہیئں یا پھر اُن بلوں کو آئندہ مہینوں میں (تاوقتیکہ) ایڈجسٹ کیا جائے‘ جب پانی کی فراہمی بحال ہو کیونکہ یہ بات مبنی بر انصاف نہیں کہ صارفین کو پانی تو نہ ملے لیکن آبنوشی کے ماہانہ بلوں کی باقاعدگی سے موصولی اُور وصولی کا عمل جاری رہے۔
....
No comments:
Post a Comment