ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پکار سے پکار تک
شعبہ تعلیم‘ صنعت و حرفت اُور صوبائی تجارتی و اقتصادی امور پر نظر رکھنے والے صحافی شہریار جلیل نے توجہ دلائی ہے کہ روزنامہ آج کے اِنہی صفحات میں شائع ہونے والی سطور بعنوان ”ہنگام سے ہنگامے تک (چھ ستمبر دوہزاراکیس)“ کے زیرنظر پیش کردہ معروضات میں سرکاری تعلیمی اداروں (سکولز) میں ”سیکنڈ شفٹ“ شروع کرنے کا جو ”بنیادی مقصد“ بیان کیا گیا‘ وہ جاری وبائی ہنگامی صورتحال میں احتیاطی تدابیر سے متعلق نہیں بلکہ اِس سے مقصود یہ ہے کہ سرکاری عمارتوں (انفراسٹکچر) اُور اِن میں موجود سہولیات سے ”زیادہ استفادہ“ کرتے ہوئے طلبا و طالبات کو سکولوں کے عمومی معمولات (صبح کے علاوہ) دوسرے دورانیئے (سہ پہر کے اوقات) میں بھی زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے۔“ تعلیم سے متعلق صوبائی فیصلہ سازوں کے لئے ”25 لاکھ“ ایسے بچے بچیاں درد ِسر ہیں جو کسی بھی تعلیمی ادارے سے استفادہ نہیں کر رہے اُور چونکہ بنیادی تعلیم آئینی ذمہ داری ہے اِس لئے صوبائی حکومت نہ صرف ہر ’تعلیمی سال‘ کے آغاز پر نئے عزم اُور جذبے سے ’داخلہ مہم‘ شروع کرتی ہے بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد میں بھی ہر سال اضافہ کیا جاتا ہے لیکن یہ اضافہ حسب آبادی (حسب ِضرورت) نہیں ہے۔ صوبائی محکمہ تعلیم کی ویب سائٹ (kpese.gov.pk) کے مطابق سال 2021ءکی داخلہ مہم جسے ”پکار رہی ہے سکول کی گھنٹی“ کا نام دیا گیا ہے جبکہ داخلہ مہم کو کامیاب بنانے کے علاوہ ایک الگ ضمنی حکمت ِعملی ’سرکاری سکولوں میں ’ڈبل شفٹ‘ شروع کرنے کی ہے جس کے پہلے مرحلے میں 120 سرکاری (76 بچے اُور 44 بچیوں) کے سکولوں میں ڈبل شفٹ شروع کی گئی ہے جبکہ ضرورت بچیوں کے لئے زیادہ سکولوں کی ہے کیونکہ سکولوں سے استفادہ نہ کرنے والوں میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں (پانچ سے سترہ سال عمر کی بچیوں) کی تعداد زیادہ ہے۔
خیبرپختونخوا میں تعلیم سے متعلق فیصلہ سازی و قانون سازی امتیازی حیثیت (شان) کی حامل ہے‘ جس کئی قومی اعزازات حاصل ہیں جیسا کہ خیبرپختونخوا ملک کا وہ پہلا صوبہ ہے جس نے سکول بیگ کے وزن (کتابی بوجھ) سے متعلق قانون سازی کی اُور ابتدائی درجے (پری گریڈ ون) سے لیکر گریڈ 12 (بارہویں جماعت) تک کے سکول بیگز کا وزن (بذریعہ قانون) مقرر کیا لیکن سکول بیگ وزن سے متعلق قانون کو صرف سرکاری تعلیمی اداروں کے لئے مخصوص و محدود سمجھا گیا اُور یہی وجہ ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کی اکثریت سکول بیگ وزن سے متعلق صوبائی قانون پر عمل درآمد نہیں کر رہی لیکن اِس جرم (قانون کی خلاف ورزی) بارے اِن کی سرزنش بھی نہیں کی جاتی کیونکہ صوبائی فیصلہ سازوں (اراکین اسمبلی و اراکین صوبائی کابینہ) میں نجی تعلیمی اداروں کے مالکان یا شراکت دار شامل ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ شرح فیسوں سے لیکر سکول بیگز تک بات قواعد سازی یا قانون سازی سے زیادہ آگے نہیں بڑھتی۔ مفادات سے متصادم فیصلہ سازی کا یہ اختیار اپنی ذات میں خرابیوں کا مجموعہ ہے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ خوش آئند ہے کہ حسب ِقانون پہلی جماعت سے پہلے درجے (پری گریڈ ون) کے بچے بچی کے بستے (سکول بیگ) کا وزن ڈیڑھ کلوگرام‘ پہلی جماعت کا سکول بیگ 2.4 کلوگرام‘ دوسری جماعت 2.6کلوگرام‘ تیسری جماعت 3 کلوگرام بتدریج بڑھتے ہوئے 12ویں جماعت کے سکول بیگ کا وزن زیادہ سے زیادہ 7 کلوگرام ہونا چاہئے۔ یوں سکول بیگ کا وزن ڈیڑھ سے سات کلوگرام سے زیادہ ہونا قانون جرم ہے جبکہ سکول بیگ وزن سے متعلق عالمی اصول کسی طالب علم کے جسمانی وزن کا 10 فیصد مقرر ہے۔ پاکستان میں تدریس کے جدید عالمی تصورات کو لاگو کرنے والے ایسے نجی سکول بھی موجود ہیں جہاں بچوں کو کتابیں لانے لیجانے کی زحمت و مشقت (تکلیف) برداشت کرنا ہی نہیں پڑتی اُور کلاس رومز میں سکول انتظامیہ کی جانب سے کتابیں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ نصابی کتب بچوں کے گھروں پر رہتی ہیں جن سے متعلق ’ہوم ورک (گھر میں کی جانے والی مشقیں اُور معمولات)‘ آن لائن ارسال کئے جاتے ہیں۔
سرکاری سکولوں سے متعلق ’اِصلاحاتی حکمت ِعملی‘ کی منظوری خیبرپختونخوا کابینہ کے 49 ویں اجلاس منعقدہ 27 جنوری 2021ءمیں دی گئی جس میں صوبائی فیصلہ سازوں نے اِتفاق کیا تھا کہ ”یکم ستمبر 2021“ سے ”سیکنڈ شفٹ سکولز“ کا اجرا کیا جائے اُور ایسا ہی ہوا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے جاری مالی سال 2020-21ءمیں شعبہ تعلیم کے لئے مختص سالانہ مالی وسائل میں 24 فیصد اضافہ کیا اُور صوبائی حکومت کا ارادہ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران طالبات کے لئے 70 نئے سیکنڈری سکولز تعمیر کئے جائیں۔ مفت درسی (نصابی) کتب فراہم کی جائیں گی اُور حال ہی میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے سرکاری سکولوں میں داخلے کو پُرکشش بنانے کے لئے پرائمری و سیکنڈری کی سطح پر طلبا و طالبات کو تعلیمی وظائف دیئے جائیں گے۔ یہ سب اچھی باتیں اپنی جگہ لیکن ہر سال داخلے سے محروم رہنے والوں کے بارے میں فیصلہ سازی‘ عمل اُور آبادی بڑھنے جیسی زمینی حقیقت کے درمیان توازن ہونا چاہئے۔
خیبرپختونخوا میں تحریک ِانصاف حکومت کا دوسرا دور ’اگست 2018ئ‘ سے جاری ہے۔ بچوں کے عالمی دن (20 نومبر 2018ئ) کے موقع پر خیبرپختونخوا کے ابتدائی و ثانوی تعلیم کے محکمے نے اعداد و شمار جاری کئے تھے جن سے معلوم ہوا کہ صوبے بھر میں 18 لاکھ (پانچ سے سترہ سال عمر کے) بچے بچیاں تعلیمی اداروں سے باہر ہیں اُور سکول نہ جانے والے اِن بچوں سے متعلق اعدادوشمار کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ ایک جائزے (سروے) سے اخذ کئے گئے جن کی تفصیلات کے مطابق ”خیبرپختونخوا کی آبادی کا ”23 فیصد“ 5 سے 17 سال عمر کے بچے بچیوں پر مشتمل ہے‘ جنہیں اگر 100فیصد مان لیا جائے تو اِس میں شامل 23 فیصد آبادی (64 فیصد بچیاں اُور 36 فیصد بچے) سکول نہیں جا رہے۔ یہاں یہ نکتہ بطور خاص توجہ لائق ہے کہ ’نومبر دوہزار اٹھارہ تک‘ 11 لاکھ 52 ہزار بچے بچیاں ایسے تھے جو کبھی بھی سکول نہیں گئے جبکہ 64 ہزار بچے بچیاں سکولوں میں داخل ہوئے لیکن وہ کسی نہ کسی مرحلے پر تعلیمی عمل سے علیحدہ ہو گئے اُور تعلیم کے دوران سکول چھوڑنے والوں میں طالبات (لڑکیوں) کی تعداد طلبا (لڑکوں) کے مقابلے زیادہ ہے۔ اگست دوہزار اٹھارہ میں مجموعی طور پر 34 فیصد بچے اُور 66 فیصد بچیاں تعلیمی نظام سے الگ تھے جبکہ پاکستان نے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی دستاویز (معاہدے) پر دستخط کر رکھے ہیں اُور مذکورہ عالمی معاہدے پر دستخط کرنے والا پاکستان چھٹا ملک تھا جس نے ’12 نوبرم 1990‘ سے بچوں کے تعلیم و دیگر حقوق کی ادائیگی کا وعدہ کیا ہے لیکن کیا ملکی آئین اُور عالمی وعدے پر اِس کی روح کے مطابق عمل ہو رہا ہے؟ نتیجہ خیال یہ ہے کہ تحریک ِانصاف کے دوسرے دور ِحکومت (اگست 2018) کے آغاز کے موقع پر خیبرپختونخوا میں سکولوں سے اِستفادہ نہ کرنے والے بچوں کی تعداد 18 لاکھ تھی جو سال 2021ءمیں بڑھ کر 25 لاکھ ہو چکی ہے یعنی 3 سال میں 7 لاکھ سکول نہ جانے والے بچے بچیوں کا اضافہ ہوا ہے لیکن اِن اعدادوشمار کا ماخذ (source) معلوم نہیں اُور نہ ہی اِن کی کسی آزاد ذریعے سے تصدیق یا تردید کی جا سکتی ہے۔ اگر آج یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پچیس لاکھ بچے جن کی عمریں پانچ سے سترہ سال ہیں اُور یہ کسی بھی سرکاری یا نجی تعلیمی اِدارے سے وابستہ نہیں تو اِس ”بڑھتی ہوئی تعداد“ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال تعلیمی اِداروں میں نئے داخلوں کی گنجائش کس قدر پیدا ہونی چاہئے اُور کیا ”سکینڈ شفٹ“ ہی واحد حل ہے‘ جس پر محکمہ تعلیم کی ساری توجہ اُور توانائیاں مرکوز ہیں!؟
....
No comments:
Post a Comment