Friday, March 4, 2022

Bleeding Peshawar, once again!

 شبیرحسین اِمام

لہو لہو پشاور

صوبائی دارالحکومت کے وسطی علاقے قصہ خوانی بازار سے متصل ’کوچہ رسالدار‘ میں واقع مرکزی و جامع شیعہ مسجد میں نماز جمعة المبارک کے اجتماع کے دوران ہوئے خودکش حملے نے ایک مرتبہ پھر پشاور کو لہولہان کر دیا ہے!

 چار مارچ کی دوپہر (ایک بج کر سات منٹ پر) ہونے والی اِس دہشت گرد واردات کا نشانہ بننے والے شہدا،اُور زخمیوں میں اکثریت ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے‘ جن کے عزیزواقارب کے لئے یہ حقیقت‘ صدمہ اُور دکھ ناقابل برداشت بھی ہے اُور ناقابل یقین بھی کہ اندرون شہر‘ پُرپیچ گلی کوچوں میں دہشت گردی کی اِس واردات کہ جس میں دو دہشت گرد جن میں سے ایک خودکش بارودی جیکٹ پہنے ہوا تھا کس طرح مسجد تک پہنچے جہاں اُنہوں نے سب سے پہلے سیکورٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا اُور اِس کے بعد فائرنگ کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے۔ خودکش حملہ آور صفوں میں بیٹھے نمازیوں کو پھلانگتے ہوئے منبر کے قریب (تیسری صف میں) پہنچا اُور جسم سے بندھے دھماکہ خیز مواد کو اڑا دیا۔ 

خیبرپختونخوا پولیس سربراہ (انسپکٹر جنرل) معظم جاہ انصاری نے ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان 2001ءسے حالت جنگ میں ہے۔ مسجد کی سیکورٹی پر دو اہلکار بیس پچیس گز کے فاصلے پر تعینات تھے‘ جن میں ایک شہید اُور دوسرا زخمی ہوا۔“ ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید نے خودکش حملے کی تصدیق کرتے ہوئے ابتدائی تفتیش کے بارے میں بتایا کہ ”پانچ سے چھ کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔“ دھماکہ اِس قدر شدید تھا کہ مسجد کے مرکزی ہال کی آہنی کھڑکیاں اُور دروازے تک اُکھڑ کر گلی میں جاگرے جبکہ ہال میں موجود زیادہ تر لوگوں کو سروں میں زخم آئے اُور 150 بال بیرنگز بھی اکٹھا کئے گئے۔ کوئی کہہ رہا ہے تھریٹ جاری نہیں ہوا لیکن تھریٹ تو بیس سال سے چلا آ رہا ہے اُور پشاور پولیس کے سربراہ (سی سی پی اُو) اعجاز خان نے کہا کہ ”پشاور کی کسی بھی مسجد پر حملے کے حوالے سے ’سیکورٹی تھریٹ‘ موجود نہیں تھا۔“ ذہن نشین رہے کہ خفیہ اداروں کی جانب سے دہشت گردی سے متعلق پیشگی خطرے سے نہ صرف آگاہ کیا جانا معمول رہا ہے بلکہ حملے کی منصوبہ بندی سے متعلق تفصیلات سے بھی وفاقی اُور صوبائی محکمہ داخلہ کو آگاہ کیا جاتا ہے جس کی روشنی میں (حسب ضرورت) منصوبہ بندی کی جاتی ہے لیکن گزشتہ روز ہوئے ’خودکش حملے‘ کے بارے میں کسی بھی خفیہ ادارے نے خبردار نہیں کیا اُور یہی وجہ تھی کہ پشاور پولیس حسب ضرورت (خاطرخواہ) سیکورٹی انتظامات نہ کر سکی۔ مذکورہ مسجد میں چار سے پانچ سو افراد ہفتہ وار نماز جمعہ کے اجتماع میں شرکت کرتے ہیں اُور گزشتہ روز بھی مسجد کی نچلی منزل پر موجود ’مین ہال‘ میں سو سے ڈیڑھ سو افراد موجود تھے‘ جن میں اکثریت بزرگوں کی تھی جو مسجد کی پہلی منزل کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے اُور یہ عموماً پہلی صف ہی میں بیٹھتے تھے‘ جسے خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا کیونکہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے صرف جید عالم دین اُور اِمام مسجد ہی نہیں بلکہ پشاور کے معروف ذاکرین اُور علمائے کرام بھی پہلی صف میں موجود تھے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے بیک وقت ایک نہیں بلکہ کئی اہداف حاصل کئے۔ سب سے پہلے تو وہ دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کو خفیہ رکھنے میں کامیاب ہوئے اُور نصف درجن سے زائد خفیہ اداروں میں سے کسی ایک کو بھی کانوں کان خبر نہ ہو سکی کہ خودکش حملہ کیا جائے گا۔ اِس طرح خفیہ انداز میں ذرائع سے معلومات اکٹھا کرنے کا نیٹ ورک (نظام) ناکارہ ثابت ہوا۔

 دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی دہشت گرد واردات سے زیادہ اُس کی منصوبہ بندی زیادہ مشکل ہوتی ہے اُور اِس کے لئے مقامی افرادی وسائل (سہولت کاروں) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس مرحلے پر بھی دہشت گرد کامیاب رہے کہ اُنہوں نے ایک ایسی مرکزی جامع مسجد کا انتخاب کیا جہاں کسی بھی مسلک کی بیک وقت کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔

مسجد کے ’سی سی ٹی کیمروں‘ سے حاصل کردہ فوٹیجز سے معلوم ہوا کہ 1: خودکش حملہ آور مسجد کے مرکزی دروازے کی بجائے عقبی دروازے سے داخل ہوا۔ ایک ایسے عقبی دروازے سے جس کے بارے میں بہت غیرمتعلقہ بہت ہی کم لوگوں کو علم ہوگا۔ 2: خودکش حملہ آور سیاہ رنگ کے لباس میں ملبوس تھا جس کی وجہ سے اُس کی شناخت میں مشکل ہوئی کیونکہ اہل تشیع کی اکثریت اِسی رنگ کا لباس استعمال کرتی ہے۔ اِس طرح حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے لباس جیسی باریکی کا بھی دھیان رکھا۔ 3: خودکش حملہ آور نے مسجد کے قریب پہنچنے پر پستول سے فائرنگ کی اُور بے خوفی سے فائرنگ کرتا ہوں نہایت ہی تیزی سے مسجد میں داخل ہوا جس کے چند سیکنڈ کے بعد دھماکہ ہوا۔ یہ چند سیکنڈ کا وقت وہ عرصہ تھا جو منبر تک پہنچنے میں لگا۔ 4: مسجد میں داخل ہونے کے لئے وہ دروازہ استعمال کیا گیا جو منبر کے قریب تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہو سکتا تھا۔ 5: اگر خودکش حملہ آور پہلی مرتبہ مسجد میں داخل ہو رہا ہوتا تو اُس وہ اتنے پراعتماد انداز میں کاروائی نہ کرتا اُور مختلف اطراف میں کھڑے مسلح پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کا نشانہ بنتا لیکن کلوزسرکٹ کیمروں کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکاروں پر گولی برستے دیکھ کر موقع پر موجود دیگر پولیس اہلکاروں نے موقع سے فرار ہونے میں غنیمت جانی جبکہ فائرنگ سے پہلے ہی بھگڈر مچ چکی تھی۔ 6: مسجد کی دیوار اُور عقبی داخلی دروازے پر لگے کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں میں خودکش حملہ آور کا چہرہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس پر خوف کے آثار نہیں اُور اُس نے جس مہارت سے پستول کا استعمال کیا اُور جس طرح وقت ضائع کئے بغیر مسجد میں داخل ہوا‘ اُس سے دہشت گرد تربیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اُور یقینا اِس قسم کے حملے میں ملک دشمن بیرونی قوتوں کا ہاتھ انتہائی واضح ہے۔

پشاور خودکش حملے نے ملک میں سیکورٹی کی صورتحال کو ازخود ہائی الرٹ کر دیا ہے اُور اب کسی رسمی ’ہائی الرٹ‘ جاری کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اُمید ہے پاکستان کو مزید ایسے زخم نہیں لگیں گے۔ پاکستان کے دشمن وار کرنے میں اگر اِس مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں تو قومی سلامتی کے جملہ اداروں کی ناکامی عیاں ہے اُور یقینا وفاقی اُور صوبائی حکومت کارکردگی کا احتساب کرے گی!

دشمن دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے اُور یہی وقت ہے کہ اِس منصوبہ بندی کو اتحاد و اتفاق اُور صبر و استقامت کے ذریعے ناکام بنایا جائے۔ دہشت گردی کے ردعمل میں ایسا طرزعمل اختیار نہیں کرنا چاہئے جس سے دشمن کو اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کامیاب



No comments:

Post a Comment