Saturday, June 25, 2022

Congo outbreak

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

کانگو وائرس: احتیاط اُور قربانی

مال مویشیوں (جانوروں) سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریوں میں ’کانگو‘ نامی بیماری خیبرپختونخوا میں پھیل رہی ہے اُور رواں ہفتے (جون دوہزاربائیس) کانگو سے متاثرہ مریض ’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس ہسپتال (پشاور) میں ہلاک ہو چکا ہے جبکہ کانگو بخار میں مبتلا چار دیگر مریض زیرعلاج ہیں۔ صوبائی اُور قومی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر کانگو بخار کے کیسز بڑھنے کے خدشات ہیں جس کے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں اُور بالخصوص بچوں کو قربانی کے لئے لائے گئے جانوروں سے الگ رکھا جائے۔ قومی ادارہ صحت کے ”الرٹ“ میں کہا گیا ہے کہ شہری مویشی منڈی جاتے ہوئے ہلکے رنگ کے پوری آستینوں والے اور آگے سے بند کپڑے اور جوتے پہنیں۔ مویشی منڈی سے گھر واپس آکر نہائیں یا کم سے کم کپڑے تبدیل کر لیں۔ قربانی کا جانور خریدنے سے پہلے اچھی طرح یقین کر لیں کہ اس کے جسم پر چیچڑیاں نہ ہوں۔ قربانی کا گوشت بناتے اور دھوتے ہوئے دستانے استعمال کئے جائیں۔ قربانی کے جانوروں کا گوشت اچھی طرح پکاکر کھایا جائے۔ ذہن نشین رہے کہ قصاب یا کانگو سے متاثرہ شخص کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو کانگو بخار منتقل ہو سکتا ہے۔اِس بخار کی مخصوص علامات میں اچانک تیز بخار‘ کمر‘ پٹھوں اور گردن میں درد‘ کھینچاؤ‘ متلی‘ قے‘ گلے کی سوزش‘ جسم پرسرخ رنگ کے دھبے ظاہر ہونا ہے۔ مسوڑھوں‘ ناک اور اندرونی اعضا سے خون آنا بھی کانگو بخار کی علامات میں شامل ہے۔

کانگو بخار ایک قسم کے جرثومے (وائرس) سے پھیلتا ہے جوزیادہ تر بھیڑ‘ بکریوں‘ گائے‘ اونٹ‘ بیل‘ دنبے کے بالوں میں چھپی چیچڑیوں میں پایا جاتا ہے۔ جب یہ چیچڑی کسی مویشی یا انسان کو کاٹ لیں تو وائرس متحرک ہو جاتا ہے۔ کانگو وائرس متاثرہ جانور کی قربانی کے خون‘ ٹشو یا سیال مادہ سے بھی منتقل ہو سکتا ہے۔

شرعی نکتہ نظر سے قربانی کی غرض سے خریدا گیا جانور اگر اِس حد تک بیمار ہو جائے کہ وہ کمزوری اور لاغر پن کی وجہ سے چند قدم چل بھی نہ سکے اُور کھڑا بھی نہ رہے پائے تو ایسے بیمار‘ کم زور‘ لاغر (عیب والے) جانور کی قربانی کرنا درست نہیں لیکن اگر جانور اس حد تک بیمار نہ ہو اور وہ اپنے پاؤں پر چل پھر سکتا ہو اُور اُسے جلد کی بیماری لاحق تو ایسے جانور کی قربانی کرنا درست ہے۔

خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت نے صوبے کے تمام اضلاع کے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ کانگو بخار کے مشتبہ مریضوں کے نمونے ’خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور‘ کی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری بھیجیں۔ ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ مویشی منڈیوں میں یا عیدالاضحی پر قربانی کی رسومات کے دوران جانوروں کے قریبی رابطے میں نہ رہیں۔ انہوں نے فوری تشخیص کے لئے ضلعی اسپتالوں میں پولیمرز چین ری ایکشن (پی سی آر) ٹیسٹ کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ صحت کی سہولیات نے کریمیا کے ”کانگو ہیمرجک فیور (سی سی ایچ ایف)“ سے متاثرہ مریضوں کو وصول کرنا شروع کردیا ہے۔”سی سی ایچ ایف“ عام طور پر چھچڑی (ٹک) کے ذریعے اور خون کے ذریعے متاثرہ جانور کے ساتھ رابطے کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ گزشتہ سال انہی ایام (عیدالاضحیٰ کے موقع پر) درجہ چہارم کا ایک ملازم اُس وقت انتقال کر گیا جب وہ طبی تدریسی اداروں میں سے ایک میں متاثرہ مریض کے رابطے میں رہا۔ فی الوقت حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کانگو بخار کے چار مریض زیرعلاج ہیں جن میں سے دو مریضوں میں کانگو بخار انتہائی شکل میں موجود ہے جبکہ دیگر مرض کی ابتدائی علامات سے گزر رہے ہیں۔ 

کانگو بخار کے لئے لیبارٹری ٹیسٹ (پی سی آر) کی قیمت آغا خان یا شوکت خانم نامی نجی لیبارٹریز سے بالترتیب پندرہ اُور تیرہ ہزار روپے ہے جو عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ ہے جبکہ خیبرپختونخوا حکومت نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری میں ’پی سی آر‘ ٹیسٹ مفت کرنے کی سہولت فراہم کی ہے اُور اِس سلسلے میں مراسلہ (سرکلر) بھی جاری کر دیا گیا ہے جس میں خیبرپختونخوا کے تمام ہسپتالوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کانگو مرض کے مشتبہ مریضوں کے نمونے خیبر میڈیکل یونیورسٹی بھیجیں۔ مذکورہ لیبارٹری نہ صرف کانگو بلکہ ہیضہ‘ ٹائیفائیڈ‘ ڈینگی اور کورونا وبا کی تشخیص کے لئے ’پی سی آر‘ ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ فی الوقت خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو کانگو کے مشکوک مریضوں کے یومیہ چار سے پانچ نمونے مل رہے ہیں جبکہ پشاور کے علاؤہ دیگر اضلاع کے ’ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں‘ اور ’میڈیکل ٹیچنگ اداروں‘ کو نمونے ارسال کرنے کی اطلاع دیدی گئی ہے۔

محکمہ صحت خیبرپختونخوا نے کورونا وبا کے دوران مختلف اضلاع میں 17 تجزیہ گاہیں (پیتھالوجی لیبارٹریاں) قائم کیں تھیں جنہیں کانگو ٹیسٹنگ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم اضلاع سے مشکوک کانگو مریضوں کے نمونے پشاور بھیجنے اور نتائج کا انتظار کرنے میں بہت زیادہ وقت لگے گا اُور کانگو ’پی سی آر‘ ٹیسٹنگ کرنے کے لئے خصوصی تربیت یافتہ عملے کی کمی بھی ایک الگ مسئلہ ہے۔ خیبرپختونخوا کے ہر طبی تدریسی ادارے کے پاس کورونا وبا کے پی سی آر ٹیسٹ کرنے کی مشین و آلات تو موجود لیکن تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی کے باعث ’پی سی آر‘ ٹیسٹنگ کے لئے پشاور ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔

 بنیادی بات یہ ہے کہ اگر کانگو بیماری پر قابو نہیں پایا جا سکتا تو کم از کم لوگوں کو معلومات (شعور) دینے کی صورت مدد کی جا سکتی ہے۔ موجودہ سخت معاشی مشکلات اُور مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کے لئے ’کانگو بخار‘ ایک نیا مسئلہ ہے۔ کانگو وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 100 افراد میں سے چالیس فیصد کی اموات ہوتی ہیں اُور اِس وائرس سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ’مویشی منڈیاں‘ ہیں۔

قربانی کے لئے جانور خریدنے کے خواہشمندوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ بچوں کو اپنے ہمراہ مذکورہ منڈیاں نہ لیکر جائیں اُور جانور کو گھر لانے کے بعد‘ اپنی اُور اُس کی اچھی طرح صفائی کریں۔ بچے عموماً قربانی کے جانور کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہیں اُور لیکر گھومتے پھرتے ہیں جبکہ جانور کے جانور کو مذہبی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اُس سے خاص احترام اُور اُنس بھی رکھی جاتی ہے لیکن طبی ماہرین احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں اُور دانشمندی اِسی میں ہے کہ قربانی ادا کرنے کی نیت رکھتے ہوئے طبی ماہرین کے مشورے کو توجہ سے سنا جائے۔ خوشی کا کوئی بھی موقع اُور تہوار انسانی جان سے زیادہ اہم نہیں ہوتا۔

...

Clipping from Daily Aaj Peshawar, June 25, 2022 Saturday

Editorial Page Daily Aaj Peshawar Abbottabad June 25, 2022


No comments:

Post a Comment