تحریک .... آل یاسین
متوازن غذا : قومی عادات
’باچا خان چوک (پشاور)‘ سے متصل مرغی مارکیٹ میں 100 سے زائد دکانوں سے ہوٹلوں اُور شادی بیاہ کی تقاریب کے لئے ذبح شدہ مرغیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ شادی ہالز اُور ہوٹلز (مستقل گاہگوں) کی جانب سے فون پر آرڈر لکھوانے کے بعد اُنہیں صاف ستھری مرغی مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر فراہم کی جاتی ہے جسے اپنے منافع کے ساتھ مارکیٹ ریٹ پر فروخت کیا جاتا ہے لیکن اِس کاروباری بندوبست کا ”تاریک پہلو“ یہ ہے کہ راشننگ کنٹرولرز کی ایک کاروائی (چھاپے کے نتیجے میں) شادی ہالز اُور ہوٹلوں (کھانے پینے کے عمومی مقامات) کو ”مردہ مرغیاں“ فراہم کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ مردہ مرغی کا گوشت کھانا حرام ہے۔ شرعی طور پر ”ذبح شدہ“ برائلر مرغی کاکھاناحلال ہے محض قیاس آرائی کی بنا پر کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیاجاسکتا لیکن چونکہ مردہ مرغیاں فروخت کرنے کے منظم دھندے کا انکشاف ہو چکا ہے اُور بڑی مقدار میں ایسی مردار مرغیاں برآمد بھی کی گئیں ہیں اِس لئے شرعی طور پر احتیاط اِسی میں ہے کہ صرف اُسی برائلر یا دیسی مرغی کا گوشت استعمال کیا جائے جسے اپنے سامنے حلال کیا گیا ہو نیز شرعی نکتہ نظر سے مرغی کی خوراک (فیڈ) میں اگر خالص حرام اجزا یا ایسی کوئی چیز شامل کی گئی ہو جس کی وجہ سے حرام مواد خوراک کے باقی حصے پر غالب آ جائے تو ایسی مرغیوں کو کھلانا بھی حرام ہوگا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ انسان شرعی اَحکام کا مکلف ہے اُور شریعت میں کسی بھی جاندار کو حرام غذا دینا اُور اِس کے بعد اُس کے حرام ہونے میں شک و شبہ نہیں رہتا۔ ایک شرعی نکتہ نظر یہ ہے کہ اگر کسی مرغی کو حرام چیزیں کھلائی گئیں ہوں لیکن اگر اُس کے گوشت سے بو نہ آتی ہو تو ایسا گوشت کھانا جائز ہے۔ دیسی مرغیاں بھی کیڑے مکوڑے کھاکر پلتی بڑھتی ہیں۔ بہرحال کسی حلال جانور کا کم مقدار میں حرام یا ناپاک چیز کھا لینا اس کے حرام ہونے کے لئے کافی جواز نہیں ہے ہاں اگر اس جانور میں ناپاک یا حرام چیز کی بو پیدا ہوجائے‘ یہ بو کھانے پر حاوی اُور کھانے کے دوران محسوس ہو تو اُس وقت حلال جانور کا کھانا بھی ممنوع ہو جاتا ہے۔ فارمی مرغی میں ہارمونز کی مقدار کا زیادہ ہونا ایک طبی مسئلہ ہے‘ جس پر اطبا (ماہرین صحت) کو قوم کی رہنمائی کرنی چاہئے کیونکہ خوراک کے حلال و حرام اُور مضرصحت ہونے سے متعلق یہ معاملہ (منظرنامہ) انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے اُور اِس کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
پاکستان کی معروف فلم و ڈرامہ ایکٹر اُور یوٹیوبر ’عائشہ عمر‘ کی شناخت ’بلبلے‘ نامی مزاحیہ (سٹ کام) ڈرامہ ہے جو سال 2009ءسے اندرون و بیرون ملک دیکھا اُور پسند کیا جا رہا ہے۔ اکتالیس سالہ عائشہ عمر فن اَداکاری اُور گلوکاری میں کئی ملکی و بین الاقوامی اعزازات حاصل کر چکی ہیں اُور چاہتی ہیں کہ ’صحت مند خوراک‘ کے حوالے سے ’قومی عادات‘ تبدیل کریں۔ متوازن غذا کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے عائشہ عمر نے اپنے انسٹاگرام اکاونٹ (ayesha.m.omar) سے جاری پیغام میں اپنی خوبصورتی اُور جاذب نظر ہونے کا راز بتایا ہے اُور کہا ہے کہ ”میں گھاس پھوس (کچھ بھی) نہیں کھاتی بلکہ اپنے کھانے پینے کی اشیا کا سوچ سمجھ کر انتخاب کرتی ہوں۔ باقاعدگی سے ورزش کرنا فعال زندگی بسر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے جس کے لئے جسمانی ضرورت اُور موسم کے مطابق ’متوازن غذا‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے اگر کوئی بھی شخص (مرد یا عورت) چاہتا ہے کہ وہ ایک مطمئن زندگی بسر کرے تو اُسے اپنے کپڑوں‘ آسائش یا دیگر نمودونمائش پر حد سے زیادہ خرچ کرنے کی بجائے اچھے کھانے پینے پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ صرف زندہ رہنے ہی کے لئے بلکہ صحت مند رہنے کے نکتہ نظر سے بھی خوراک کا انتخاب ہونا چاہئے۔ یہ انتہائی افسوسناک اُور بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے پاس پاکستان میں بہت کم ایسی کھانے پینے کی جگہیں ہیں جہاں صاف‘ غیر پروسیسڈ‘ کیمیائی مادوں‘ مصنوعی ذائقوں‘ یا ہارمونز جیسے زہریلے مواد سے پاک کھانا پیش کیا جاتا ہو۔ مقامی پیداوار‘ اجزااُور قدرتی طور پر تیار ہونے والی خوراک کے مقابلے عموماً ایسے مصنوعی خوردنی اجزاکا انتخاب کیا جاتا ہے جو زیادہ تر کم قیمت ہوتی ہیں۔ صحت مند رہنے کے لئے اچھی خوراک کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے میں جلد ہی ایک تصور کو عملی جامہ پہناؤں گی جس پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اِس منصوبے کے تحت کھانے میں سمندری غذا‘ چکن (جو کہ نامیاتی ہو) اور بنا چربی گوشت کے ساتھ وافر مقدار میں سبزی‘ خشک میوہ جات‘ بیج‘ بیریز اور پھل شامل کئے جائیں گے اُور ریفائنڈ شوگر‘ گلوٹین یا کیمیائی مادوں سے بھرپور دودھ یا دودھ سے بنی ہوئی مصنوعات کا زیادہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ضرورت سے زیادہ پکے ہوئے اور ڈیف جنک فوڈ سے دور رہنے کی کوشش کی جائے گی جو کہ تازہ اور صاف کھانے کی کوشش ہے۔ کھانے کے لئے بہترین تیل ناریل یا دیسی گھی کی صورت استعمال کرنا مفید ہوتا ہے۔ کسی شخص (مرد یا عورت) کے لئے ضروری ہے کہ وہ کھانے کے اچھے و اعلیٰ معیار‘ نامیاتی (قدرتی) وٹامنز پر اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ خرچ کرے۔ سفر اُور کھانا انسان کی زندگی میں مقصدیت کو بھر دیتے ہیں۔ مہنگے جوتے‘ بیگز یا زیورات اور ملبوسات کی بجائے ہمیں اپنے کھانے پینے پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔“ عائشہ عمر کراچی میں رہتی ہیں اُور چونکہ فن ِاداکاری کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں اِس لئے اُنہیں معیاری کھانے پینے کے کاروبار میں سرمایہ کاری سے فوری فائدہ حاصل ہونے کی اُمید ہے لیکن لاہور میں پیدا ہونے والی عائشہ عمر کراچی میں مستقل مقیم ہیں اُور اُن کی خدمات بھی کراچی یا لاہور والوں ہی کو میسر آئیں گے جو پاکستان کے ثقافتی مراکز بھی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے طول و عرض بالخصوص پشاور میں رہنے والوں کو بھی اپنے کھانے پینے کے معمولات پر نظرثانی کرنی چاہئے کیونکہ جو کچھ اُنہیں میسر ہے اُس میں خالص ہونا تو دور کی بات حلال ہونا بھی یقینی نہیں ہے اُور آئے روز مردہ جانور اُور زہر آلودہ دودھ تلف کرنے سے متعلق ’محکمہ خوراک (فوڈ اتھارٹی)‘ کی کارکردگی خبروں کی زینت بنتی ہے لیکن مجال ہے کہ سڑک کنارے تکہ بوٹی اُور کباب فروخت کرنے والوں کے گاہگوں میں کمی آئے۔ شام سے رات گئے تک پشاور کے مختلف حصوں میں قائم ہونے والی ’فوڈ سٹریٹس‘ میں کھانے پینے کا معیار کوئی بھی دیکھنے (پرکھنے‘ جانچنے) والا نہیں کیونکہ سرراہ یہ دکانیں دن کے اختتام پر‘ اُس وقت قائم ہوتی ہیں جب سرکاری دفاتر کے اوقات کار ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔ آج کی تاریخ میں جبکہ عمومی امراض بھی پیچیدہ شکل اختیار کر گئے ہیں اُور کھانے پینے کی اشیا‘ اجناس و سہولیات کی اکثریت معیاری بھی نہیں رہے تو پہلی ضرورت یہی ہے کہ گھر سے باہر کھانے پینے سے حتی الوسع گریز کیا جائے اُور مردہ مرغیوں کی شادی ہالز کو فراہمی کے منظم دھندے کا پردہ فاش ہونے کے بعد ضروری (لازم) ہو گیا ہے کہ احتیاط کرتے ہوئے شادی بیاہ کی تقاریب (جن کا انعقاد غیرضروری طور پر شادی ہالز میں ہونا رواج پا گیا ہے) کے دوران بنا گوشت کھانوں ہی کا انتخاب کیا جائے۔
....
No comments:
Post a Comment