ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
دہشت گردی‘ نئی لہر : پشاور لہو لہو
پہلا تجزیہ: خیبرپختونخوا پولیس کے صوبائی مرکز (پولیس لائنز) پر دہشت گرد حملہ اِس لحاظ سے خطرناک ترین ہے کہ اِس میں حملہ آور پولیس کے حفاظتی حصار کو ناکام بنانے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں اُور مستقبل میں اِس قسم کے حملوں کو روکنے کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے لئے خفیہ معلومات پر مبنی کاروائیوں کو زیادہ اہمیت ملنی چاہئے۔ دوسرا تجزیہ: پاکستان کے طول و عرض میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے بیرون ملک تیار ہوتے ہیں لہٰذا سرحدی سیکورٹی نقل و حرکت سخت کرنے کے علاؤہ جب تک ہمسایہ ممالک پاکستان کی داخلی سلامتی کے درپے رہیں گے اُس وقت تک پائیدار قیام امن ممکن نہیں ہوگا۔ تیسرا تجزیہ: خیبرپختونخوا (فرنٹ لائن صوبے) میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے زیادہ مالی و افرادی وسائل بشمول تربیت اُور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ چوتھا تجزیہ: پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہر کے مقابلے پشاور کی معیشت و معاشرت دہشت گردی سے نسبتاً زیادہ متاثر ہے اِس لئے پشاور کے لئے ’سیف سٹی پراجیکٹ‘ کی ترجیحی بنیادوں پر (جلد) تکمیل سمیت معاشی بحالی کے خصوصی امدادی پیکج کا اعلان ہونا چاہئے۔ پانچواں تجزیہ: دہشت گردی بنا مقامی سہولت کاری ممکن نہیں ہوتی۔ گیارہ جون دوہزار اکیس سے صوبائی پولیس سربراہ (انسپکٹر جنرل پولیس) معظم جاہ انصاری کے بقول تفتیش کار اِس امکان کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ پولیس لائنز حملے کا مرکزی کردار (خودکش حملہ آور) پہلے ہی سے پولیس لائنز میں مقیم تھا۔ چھٹا تجزیہ: پولیس لائنز حملے کے بعد سے دہشت گردوں کی منصوبہ بندی عیاں ہو چکی ہے جو اِس مرتبہ اہم سرکاری تنصیبات اُور دفاتر کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اِس امکان کے پیش نظر پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے جملہ سرکاری دفاتر کے حفاظتی اِنتظامات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ساتواں تجزیہ: پولیس لائنز حملے کے بعد ’ریسکیو‘ ادارے کی جانب سے امدادی کاروائیاں ’حواص باختگی‘ کا شکار دکھائی دیں جبکہ یہ ادارہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ ریسکیو کی کارکردگی کا جائزہ اُور تربیت و تیاری سے متعلق امور کا جائزہ (نظرثانی ضروری ہے۔ آٹھواں تجزیہ: خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ پولیس لائنز حملے سے چند گز کے فاصلے پر اپنے دفتر میں موجود تھے لیکن اُنہیں دھماکے کی جگہ تک پہنچنے میں 100 منٹ سے زائد کا عرصہ لگا اُور اُنہوں نے اپنے دفتر اُور موقع پر موجود صحافیوں (ذرائع ابلاغ کے نمائندوں) سے بار بار کی درخواست کے باوجود بھی بات چیت بھی نہیں۔ خودکش حملے کے حقائق کمشنر پشاور کی جانب سے پہلے‘ پشاور پولیس کے سربراہ (سی سی پی اُو) اُور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ’پبلک ریلیشنز‘ کی جانب سے بعدازاں (بالترتیب) گھنٹوں بعد جاری کئے گئے جس کی وجہ سے قیاس آرائیاں ہوتی رہیں کیونکہ جملہ اعدادوشمار میں فرق تھا۔ کسی ہنگامی صورتحال میں جبکہ پورا ملک اُور بالخصوص پولیس لائنز میں تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ حقائق جاننے کے لئے بے چین تھا لیکن شہدا،اُور زخمیوں کے ناموں کی تفصیلات منظرعام پر آنے میں کئی گھنٹے لگے جبکہ پولیس کی موبائل فون ایپس اُور سوشل میڈیا (فیس بک‘ ٹوئیٹر وغیرہ) کے ذریعے حقائق و محرکات کی وضاحت ممکن تھی۔ نواں تجزیہ: سرکاری دفاتر کے کام کاج ’آن لائن‘ سرانجام دینے کے لئے اِنفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا چاہئے تاکہ سرکاری دفاتر سے رجوع کرنے والوں میں کمی لائے اُور صارفین کو سہولیات و خدمات کی آن لائن فراہمی ہو سکے۔ اِس سلسلے میں بھارت کے کئی شہروں بالخصوص نئی دہلی میں سرکاری دفاتر کی تعداد کم کرنے اُور دفاتر کی خدمات آن لائن فراہم کرنے کے تجربے اُور اُس کے نتائج کا مطالعہ کیا جانا چاہئے۔
دہشت گردی کی حالیہ ”نئی لہر“ کے دوران رونما ہونے والے پے در پے واقعات (ٹائم لائن) سے پتہ چلتا ہے کہ عسکریت پسند گروہ دوہزاربائیس کے ماہ نومبر سے فعال ہے جب اِس نے ماہ جون میں حکومت کے ساتھ طے پانے والی جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں تقریبا ایک درجن سنگین دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں جن میں صرف کم از کم 27 سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے ہیں جبکہ تیس جنوری کے روز پولیس لائنز پر حملہ گزشتہ تین ماہ میں ہوئے سبھی حملوں سے الگ اُور زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوا ہے۔ ملک بھر میں مسلح افواج کے ساتھ ساتھ سویلین اہداف پر لگاتار دہشت گردانہ حملے پریشان کن ہیں۔ خاص طور پر اس حقیقت کے پیش نظر کہ ضرب عضب اور ردالفساد جیسی فوجی کاروائیوں کے ذریعے دہشت گرد عناصر کو ان کی محفوظ پناہ گاہوں سے تقریبا ختم کر دیا گیا تھا لیکن دہشت گردی کے خلاف عزم تو برقرار رہا لیکن اِس کے انسداد کی کوششوں میں کمی اُور افغانستان کی جانب سے پاکستان مخالف دہشت گرد عناصر کو دوبارہ منظم ہونے کی اجازت سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے نتیجتاً شمال مغربی اور جنوب مغربی سرحدوں پر پاکستان دشمن تاک لگائے بیٹھے نظر آتے ہیں اُور موقع ملتے ہیں انتہائی بیدردی و بے رحمی سے وار کرتے ہیں۔ افغانستان حکومت کی سرپرستی میں مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پانے کی کوشش بھی تاحال یا خاطرخواہ کامیاب نہیں ہو سکی ہے اُور یقینا اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان مخالف جہاں کہیں بھی ہوں اُور چاہے سرحد پار ہی کیوں نہ ہوں‘ اُن کے خلاف کاروائی کی جائے۔ اِس سے پہلے انسداد دہشت گردی سے متعلق ’قومی اتفاق رائے‘ کی تجدید ہونی چاہئے جیسا کہ آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) حملے کے بعد ہوا تھا اور پھر ملک سے دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کے خاتمے تک ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ کاروائی کی گئی تھی۔
پاکستان کی انسداد دہشت گرد حکمت عملی میں موجود لچک اُور مصلحتوں یا الجھنوں کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر طے کرنا ہوگا کہ عسکریت پسند کبھی بھی اچھا یا بُرا نہیں ہوتا بلکہ عسکریت پسندی ہمیشہ ہی سے ’امن دشمن‘ ہوتی ہے اُور اِس نکتہ نظر سے شہروں کو اسلحے سے پاک کرنے کے لئے خصوصی مہمات کا آغاز ہونا چاہئے۔ ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔ اگر ہم افغان حکومت اور عسکریت پسندوں کو خوش کرنے کو ضروری سمجھیں گے تو دہشت گرد حملوں کی صورت ناقابل تلافی جانی و مالی نقصانات اُٹھاتے رہیں گے۔ وقت ہے کہ ملک کے تمام طبقوں بالخصوص سیاسی جماعتیں اور سکیورٹی فورسز کو مل بیٹھ کر دہشت گردوں کو شکست دینے کے لئے مشترکہ منصوبہ (لائحہ عمل) تیار کریں تاکہ پاکستان کو مزید تباہی اور اموات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بلاشک و شبہ قومی سلامتی خطرات و بحران سے دوچار ہے اُور اگر اِس نازک مرحلے پر ریاست کو سلامتی کے حوالے سے ’قومی پالیسی‘ کی ضرورت ہے جو وفاقی اور صوبائی سطح پر مشترکہ طور پر نافذ کی جائے اُور یہ پالیسی صرف سیکورٹی اداروں ہی کی ذمہ داری نہیں بلکہ اِس کی ملکیت ہر پاکستانی فرد تک ہونی چاہئے۔ وقت ہے کہ حوصلہ مند قومی قیادت‘ جرات مندانہ اور مشکل فیصلوں پر عمل درآمد کرے اُور اُس غیر یقینی کی صورتحال کا خاتمہ کیا جائے جو تکلیف دہ حقیقتوں (خوف‘ دہشت‘ تباہی و بربادی کے نتیجے میں جانی و مالی نقصانات) کی صورت ظاہر ہو رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment