Thursday, June 15, 2023

Sethi Houses vanishing, like memories, with each curtain's fall

ناقابل اشاعت ……  شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: خاموش اِحتجاج

زوال اُور تبدیلی مستقل عمل ہے لیکن اِس کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے حساس معاشروں میں ’آثار قدیمہ‘ کے تحفظ پر توجہ دی جاتی ہے جبکہ ’پشاور کہانی‘ مختلف ہے کہ یہاں تاریخ و ثقافت سے جڑی ہر نشانی زوال پذیر ہے اُور انتہائی مخدوش حالت میں دیکھی جا سکتی ہے جبکہ متعلقہ حکومتی ادارے (محکمۂ آثار قدیمہ) اُور قانون نافذ کرنے والے ادارے (متعلقہ تھانہ جات) کی کارکردگی سب کے سامنے ہے کہ ایک ایک کر کے پشاور کی نشانیاں مٹ رہی ہیں! بقول ’یحییٰ سیٹھی‘ پشاور کا یہ منظرنامہ‘ یہ حال احوال‘ یہ اجنبیت‘ جو آج نظر آ رہی ہے‘ پہلے کبھی بھی نہیں دیکھی گئی اُور اِس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ پشاور کے آباؤاجداد کی نشانیاں ایک ایک کر کے مٹ رہی ہیں!“ پشاور کے مٹتے نقوش میں ’سیٹھی خاندان‘ کے گھر‘ سیٹھی خاندان کا قبرستان اُور سیٹھی خاندان کے نمایاں ترین فلاحی منصوبے کی اراضی بھی زیادہ دنوں کی مہمان دکھائی نہیں دے رہی!

تازہ ترین  واردات میں ’بازار کلاں‘ سے متصل ’محلہ سیٹھیان‘ کا قدیمی مکان راتوں رات منہدم کر دیا گیا ہے۔
 گھر کے مالک سیٹھی خاندان کے باقی ماندہ بزرگ یا تو انتہائی ضعیف ہیں یا پھر اِس خوف سے سامنے نہیں آ رہے کیونکہ قبضہ مافیا مسلح اُور سینہ زو رہے‘ جسے قانون یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خوف نہیں۔ یہ مافیا ،اپنے سامنے کھڑے ہونے والے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ گالیاں بکتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ’معزز و برتر‘ شریف سیٹھی گھرانے کے بزرگ اُور نوجوان تھانہ کچہری نہیں کریں گے۔ یہ شریف اُور شرفا کی ایک نشانی اُن کی کمزوری سمجھی جاتی ہے حالانکہ یہ کام صوبائی حکومت اُور پشاور کی ضلعی انتظامیہ کا ہے کہ وہ سیٹھی خاندان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو اُور اِس بات کو یقینی بنائے کہ پشاور میں اگر کوئی کمزور و ناتواں ہے تو وہ ’قانون شکن‘ ہونا چاہئے۔ 

محلہ سیٹھیان کا تازہ ترین نشانہ بننے والا مکان افتخار سیٹھی (مرحوم) اُور اُن کی ہمشیرہ مسماۃ شمیم (ریٹائرڈ ڈاکٹر) کے نام پر مکان ہے۔
افتخار سیٹھی کے بھائیوں کو اِس سے دلچسپی نہیں۔ دونوں عمر کے اُس حصے میں ہیں جہاں وہ تھانہ کچہری نہیں کرنا چاہتے اُور نہ ہی ایک مکان کے لئے اپنے بال بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ اِسی محلے کا دوسرا مکان لب سڑک (قریب دو کنال) جو ’اقبال سیٹھی‘ کی عدالت سے تسلیم شدہ ملکیت ہے لیکن وہ بھی قبضہ ہے‘ اگرچہ سیٹھی خاندان اِس مکان کی ملکیت کا مقدمہ جیت چکا ہے لیکن گھر کا قبضہ حاصل نہیں کر سکا۔

سیٹھی ہاؤس ہو یا کوئی بھی تاریخی و ثقافتی اہمیت کی حامل عمارت ، اِس راتوں رات ملبے کا ڈھیر بنانے والے عموماً ہفتہ و اتوار کی درمیان شب واردات کرتے ہیں جب سرکاری دفاتر میں تعطیل ہوتی ہے اُور اِس تعطیل کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس مسرت ہلالی سے درخواست ہے کہ وہ اِس جاری بے قاعدگی اُور لاقانونیت کا نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر آرکیالوجی اُور اُ ن کے عملے کو طلب کریں اُور اِس بات کی بھی الگ سے تحقیقات ہونی چاہئیں کہ جن اہلکاروں کو پشاور کی تاریخ و ثقافت کے نایاب نقوش بطور امانت سونپے گئے تھے اُنہوں نے اپنی ذمہ داریاں (فرائض منصبی) کس حد تک ایمانداری سے ادا کئے ہیں اُور یہ بھی دیکھا جائے کہ اِن اہلکاروں کے مالی اثاثے کہیں اِن کی آمدنی کے جائز و معلوم ذرائع سے زیادہ تو نہیں ہیں۔

تازہ ترین واردات میں  پشاور کے 2 تعمیراتی فن پاروں (سیٹھی ہاؤسیز) کے نقوش مٹا دیئے گئے ہیں لیکن  کوئی روکنے یا بچانے یا اِس نقصان پر مگرمچھ کے آنسو تک بہانے نہیں آیا! (انا للہ و انا علیہ راجعون)۔

سیٹھی ہاؤسیز کے ظاہری شان و شوکت (لکڑی کے ستون ، دروازے اُور کھڑکیاں، روشن دان، فرش اُور قیمتی پتھروں سے سجی چھتیں) مسمار ہونے کے بعد متعلقہ تھانہ اُور علاقے کی سیاسی نمائندگی کرنے والے بلدیاتی نمائندے حرکت میں آئے۔ موقع پر کام کرنے والے چند مزدوروں کو پکڑ لیا گیا جبکہ قریب ہی بازار کلاں میں بیٹھے اِس پورے منصوبے کے ’ماسٹر مائنڈ‘ پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔

توجہ طلب ہے کہ صرف ’محلہ سیٹھیان‘ ہی نہیں بلکہ پشاور میں سیٹھی خاندان کا قبرستان جس کا کل رقبہ 20 کنال سے زیادہ ہے اُور اِس کی ملکیت کے کاغذات بھی موجود ہیں لیکن اِس کا رقبہ بھی قبضہ ہو چکا ہے یا قبضہ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہ معاملہ ماضی میں جب عدالت تک پہنچا تو سیٹھی خاندان کے حق میں فیصلہ ہوا تھا اُور چار سال تک سماعتیں ہوتی رہیں جس کے بعد عدالت نے فیصلہ سیٹھی خاندان کے حق میں دیا لیکن سیٹھی خاندان کو اپنا حق آج تک نہیں مل سکا۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ قبضہ مافیا نے ایک اُور چال چلتے ہوئے ’سیٹھی قبرستان‘ کو بدھ مت کا قدیمی مرکز قرار دینے کی مہم ’سوشل میڈیا‘ پر شروع کر رکھی ہے اُور اِس حوالے سے جس درخت اُور چبوترے کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ سیٹھی خاندان کے بزرگ قرآن کریم کی تلاوت‘ درس قرآن اُور فاتحہ خوانی کی اجتماعی محافل کے اِنعقاد کے لئے کیا کرتے تھے! پاکستان بننے کے وقت یہاں ’سرخ پوشوں‘ نے پناہ بھی لی تھی‘ جنہیں بطور مہمان رکھا گیا تھا اُور اُن کی میزبانی کی گئی تھی۔ سیٹھی خاندان اِس علاقے میں خیرات و زکوۃ بھی دیا کرتا تھا اُور یہی خاندان صرف پشاور ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے کئی ممالک کی مدد کیا کرتا تھا۔

المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ہے کہ پشاور کی تاریخ پر آج اُن لوگوں کو زیادہ عبور ہونے کا دعویٰ ہے جن کی اپنی کوئی تاریخ نہیں!

سیٹھی قبرستان (کم و بیش بیس کنال) کے گردچاردیواری بنانے کی ہر کوشش اب تک ناکام رہی ہے! ماضی میں قبرستان چاردیواری کے تعمیراتی منصوبے پر لاگت کا تخمینہ ’40 لاکھ‘ روپے تھا جو بڑھ کر ’ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے‘ ہو چکا ہے اُور اب اِس قدر خطیر رقم کہاں سے آئے گی‘ یہ سوال اپنی جگہ حکومت کو متوجہ کر رہا ہے کہ اگر سیٹھی قبرستان کے گرد چاردیواری نہ بنائی گئی تو شاید چند مرلے زمین بھی باقی نہ رہے اُور سیٹھی خاندان کے اجداد کی قبروں پر رہائشی بستی آباد ہو جائے جسے حکومتی فنڈ سے ٹیوب ویل‘ جنازہ گاہ‘ مسجد اُور سکول تعمیر کر کے قانونی شکل دیدی جائے گی اُور یہی طریقۂ واردات پشاور کی دیگر اقوام کے قبرستانوں کے ساتھ بھی ہو چکا ہے!

کیا یہ بات قابل مذمت نہیں کہ سیٹھی قبرستان کے ساتھ ملحقہ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مزار بھی قبضہ ہو چکا ہے! 

اَلمیہ نہیں تو کیا ہے کہ سیٹھی خاندان عدالت میں تو ہر مقدمہ جیت جاتا ہے لیکن عدالتی احکامات کو عملی جامہ پہنانے والوں کی دلی ہمدردیاں سیٹھی خاندان کے ساتھ نہیں! وہ کہ جنہیں حقیقی محافظ ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے اِس پورے معاملے سے لاتعلق ہیں۔ سیٹھی خاندان کے لوگ انتہائی شریف النفس ہیں وہ قبضہ مافیا کا مقابلہ اُور اُن کا تن تنہا سامنا نہیں کر سکتے اُور ایسی صورت میں صوبائی و ضلعی حکومت کو سیٹھی خاندان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہئے۔

سیٹھی خاندان کی پشاور میں ’تیسری نشانی‘ اندرون یکہ توت گیٹ (محلہ جٹان) کا ’دارالمساکین‘ ہے جو آج بھی اِسی (سیٹھی) خاندان کی ملکیت ہے اُور جسے ماضی و حال میں کئی مرتبہ قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خاص نکتہ یہ ہے کہ ’دارالمساکین‘ وقف اراضی نہیں تو پھر اِس کا انتظام و ملکیت سیٹھی خاندان کے پاس کیوں نہیں اُور اِس میں حکومتی تعمیرات کس قانون یا اخلاقی جواز کے تحت کی گئی ہیں؟ دارالمساکین سیٹھی خاندان کے آباؤاجداد کی ملکیت تھی اُور ہے اُور صرف ملکیت نہیں بلکہ دارالمساکین پشاور اُور اہل پشاور سے سیٹھی خاندان کی ’دلی محبت‘ کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ افسوس کہ سیٹھی خاندان کے گھر‘ سیٹھی خاندان کا قبرستان اُور سیٹھی خاندان کی طرف سے اہل پشاور کی فلاح و بہبود کا مرکز (دارالمساکین) پر ایک ایسی سوچ رکھنے والے قابض ہیں جن کے لئے پشاور کی تاریخ و ثقافت‘ یہاں کے شریف و محسن خاندانوں کی کوئی اہمیت نہیں!

پشاور کبھی بھی اِس قدر ’بے سروسامان‘ اُور ’بے آسرا‘ نہیں تھا کہ دیگر خیبرپختونخوا کے قبائلی و بندوبستی اضلاع اُور جعلی شناختی دستاویز کے ذریعے پاکستان کی شہریت حاصل کرنے والے افغان جرائم پیشہ گروہوں کے اراکین جنہوں نے پشاور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں یہاں کی ہر نشانی اُور ہر خوبی کو ایک ایک کر مٹا رہے ہیں اُور پشاور تماشا دیکھ رہا ہے۔

صرف سیٹھی ہاؤسیز ہی نہیں بلکہ کئی دیگر نایاب گھر جو فن تعمیر کا نمونہ تھے‘ پشاور کی تاریخ و ثقافت کے گواہ تھے لیکن ملبے کی صورت راتوں رات ’لوٹ‘ لئے گئے ہیں! قبضہ مافیا کے ہاتھ لمبے ہیں جبکہ اہل پشاور بے بس ہیں کیونکہ وہ حقیقی سیاسی و سماجی نمائندگی سے محروم ہیں۔ اِن کی آنکھوں میں آنسوؤں اُور دل غم سے نڈھال ہیں۔ دُکھ بھرے بوجھل وجود کے ساتھ‘ آنسوؤں کی برسات ’خاموش احتجاج‘ کی صورت جاری ہے۔
پشاور کو کون سمجھے گا؟
اہل پشاور کے دُکھ کو کون سمجھے گا؟
پشاور کی مسیحائی کون کرے گا؟

 ”فکر مجھے گلزاروں کی ہے مولا خیر …… بارش تو انگاروں کی ہے مولا خیر
 اُلجھ رہے ہیں سارے مسیحا آپس میں …… فکر کسے بیماروں کی ہے مولا خیر (شمیم فرحت)۔“

……



SethiHouse
In Peshawar's embrace, Sethi House stands tall
Yet vanishing, like memories, with each curtain's fall

No comments:

Post a Comment