Saturday, July 15, 2023

Development in Peshawar - At a glance

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی .... شہری منصوبہ بندی

صوبائی دارالحکومت پشاور کا کوئی ایک بھی رہائشی یا کاروباری علاقہ ایسا نہیں جہاں بنیادی سہولیات کا نظام مثالی شکل و صورت میں موجود ہو اگرچہ عوامی اجتماعی مسائل کے حل کے لئے فیصلہ سازی کا عمل وسیع کر دیا گیا ہے اُور مقامی حکومتیں (بلدیاتی نظام) اِسی لئے وضع کیا گیا ہے کہ اِس کے ذریعے علاقائی سطح پر عوام کی نمائندگی ہو اُور علاقائی سطح پر ہی بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ اِس مقصد کے لئے ضلع پشاور میں 216 تحصیل کونسلز‘ 1438 ویلیج کونسلز‘ 1076 نیبرہڈ کونسلیں تشکیل دی گئی ہیں۔ اِس نظام میں ویلیج کونسلوں کے علاؤہ نیبرہڈ کونسلیں اُور اِن سے منتخب خواتین‘ مزدور کسان‘ یوتھ اُور اقلیتی اراکین خصوصی اضافی نمائندگی رکھتے ہیں۔ اِن بلدیاتی نمائندوں کی کل تعداد ’4 ہزار 244‘ بنتی ہے جن میں جنرل نشستوں پر (ویلیج اُور نیبرہڈ کونسلوں کی صورت متعلقہ علاقوں کی) نمائندگی کرنے والوں کی تعداد 2 ہزار 514 کونسلر بھی شامل ہیں اُور یہی ڈھائی ہزار سے زیادہ منتخب بلدیاتی نمائندے وہ ہیں جنہیں کی منظوری سے پشاور کی ترقیاتی فیصلہ سازی کا تعین ہوتا ہے۔ اِس نتیجہ خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے پشاور کے مشرق میں واقع 4 نیبرہڈ کونسلوں (این سیز) کا جائزہ لیں جنہیں سرکاری دستاویزات میں ’گل بہار نمبر ون‘ گل بہار نمبر ٹو‘ رشید ٹاؤن اُور گل بہار نمبر فور‘ کا نام دیا گیا ہے اُور اِن چار نیبرہڈ‘ ویلیج کونسلوں سے منتخب ہونے والے جنرل کونسلروں کی کل تعداد 58 ہے جن میں 16خواتین کے لئے‘ آٹھ مزدور کسان نمائندوں کے لئے‘ آٹھ یوتھ (نوجوانوں) کے لئے اُور آٹھ نشستیں اقلیتوں کے لئے مختص کی گئی ہیں۔ غور ہونا چاہئے کہ بلدیاتی نظام کی صورت اِس پوری کوشش (مشق) کا مقصد کیا ہے اُور کیا وہ بنیادی مقصد حاصل ہو رہا ہے؟ گل بہار نمبر ون کے 25‘ گل بہار نمبر ٹو کے 24‘ رشید ٹاؤن کے 25 اُور ’گل بہار نمبر فور‘ کے 24 بلدیاتی نمائندوں کا انتخاب و تقرری کیوں کی گئی اُور اگرچہ اِن میں سے اکثر سیٹوں پر انتخاب بھی مکمل ہو چکا ہے تو کیا وجہ ہے کہ پھر بھی ’شہری مسائل‘ جوں کے توں برقرار ہیں اُور ترقیاتی ترجیحات کا تعین کرنے میں وہی ’دانستہ غلطیاں‘ آج بھی دُہرائی جا رہی ہیں جو ماضی میں کی جاتی تھیں جبکہ بلدیاتی نمائندے نہیں ہوتے تھے؟

پشاور کو سیاست دیمک کی طرح صرف اندر ہی اندر سے نہیں بلکہ باہر سے بھی کھا گئی ہے! مقامی حکومتوں کے نام سے وہ بلدیاتی نظام جو ’بلاامتیاز و تفرقہ خدمت‘ کے لئے وضع کیا گیا تھا اُسے سیاسی جماعتوں نے یرغمال (ہائی جیک) کر لیا ہے اُور ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ یعنی ’جس سیاسی جماعت کی حکومت اُس کی من مانی‘ کے اصول پر پشاور کے ترقیاتی فیصلے ہو رہے ہیں‘ جو سیاست سے بالاتر نہیں بلکہ سیاست پشاور کے ہر فیصلے پر حاوی ہو چکی ہے۔ اگر پشاور اُور اِس کے موجودہ مسائل پر غور کیا جائے تو یکساں توجہ طلب امر (یہ پہلو) بھی سامنے آتا ہے کہ بنیادی طور پر پشاور کے مسائل کی وجہ اُور اِس کے وسائل پر ’2 قسم‘ کے بوجھ ہیں۔ ایک اِس کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے کہ خیبرپختونخوا کے دور دراز دیگر اضلاع سے بہتر معاشی مستقبل (روزگار و ملازمت)‘ حفاظت‘ تعلیم اُور حتیٰ کہ علاج معالجے کے لئے بھی پشاور کا رخ کیا جاتا ہے اُور یہ بھی پشاور کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں جب بھی کوئی ’وارد‘ ہوا تو اُن کی ایک تعداد پشاور ہی کی ہو کر رہ گئی۔ شاید اِسی لئے تاریخ کی کتب میں ”پشاور“ کی وجہ تسمیہ ’پیش آورد‘ بھی ملتی ہے۔ بہرحال پشاور کا انتخاب کرنے والوں کی نظر میں فوری طور پر یہاں کی سہولیات جم جاتی ہیں اُور اِس کا محرک سرسری و فطری بھی ہے جس کا ایک تعلق پشاور کی آب و ہوا سے ہے اُور اگرچہ اب ماضی کی طرح مثالی نہیں رہی لیکن دیگر اضلاع سے پھر بھی نسبتاً بہتر ہے۔ جب ہم سہولیات کے تناظر میں پشاور کا جائزہ لیتے ہوئے موازنہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع سے کرتے ہیں تو پشاور کی صورتحال نسبتاً زیادہ بہتر دکھائی دیتی ہے اُور یہی کشش یہاں کے مسائل میں اضافے کا ’کلیدی محرک‘ ہے جس کا ”بوجھ“ پشاور کی زرخیز زرعی (قابل کاشت) اراضی پر رہائشی کالونیاں بننے کی صورت دیکھا جا سکتا ہے۔ پشاور کا نہری نظام گندگی و غلاظت کا مجموعہ بن چکا ہے۔ شاہی کٹھہ اُور بازار تجاوزات سے بھر گئے ہیں۔ اکثر علاقوں میں نہری نظام نکاسی آب کا بنیادی ذریعہ ہے جس میں گھریلو و کاروباری اُور صنعتی کوڑا کرکٹ‘ فضلہ اُور کیمیائی مادے بنا روک ٹوک اُور بنا تطہیر بہائے جا رہے ہیں۔ پوچھنے والے تو ہیں اُور پوچھنے والوں کا عوام نے بلدیاتی نمائندوں کی صورت انتخاب بھی کر دیا ہے لیکن پشاور سے دلی تعلق کی بجائے سیاسی تعلق نے صورتحال کو اجتماعی مفاد سے ذاتی و جماعتی مفاد کا اسیر بنا دیا ہے۔ 

توجہ طلب ہے کہ پشاور کا وہ نہری نظام جو کبھی آبنوشی کے لئے استعمال ہوتا تھا چند دہائیوں میں نکاسی آب کا ذریعہ بن گیا ہے اُور یہی ’آلودہ پانی‘ ضلع و تحصیل پشاور کی باقی ماندہ زراعت و باغبانی کے لئے استعمال ہونے کی وجہ سے نت نئی اُور پیچیدہ بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔ پشاور کا اِسی آلودہ پانی میں ’پولیو‘ و دیگر خطرناک بیماریوں کے جرثومے بھی پائے گئے ہیں! ایک ایسا صدر مقام‘ جو پھولوں کا شہر کہلاتا ہو اُور اُس کی مثالی آب و ہوا‘ اگر مثالی نہیں رہی تو قصور وار کون ہے؟جہاں رہائشی و تجارتی علاقوں کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہو چکا ہے اُور جہاں دانستہ و غیردانستہ سرزد ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھنے یعنی اصلاح احوال کا جذبہ بھی نہیں پایا جاتا تو اُس طول و عرض میں پھیلتے شہر کے ساتھ بڑھتے مسائل اگر مربوط و جامع حکمت عملی کے ساتھ حل نہیں کئے جاتے تو مبینہ ترقیاتی عمل کی صورت مالی وسائل کا ضیاع جاری رہے گا۔

منتخب نمائندوں پر مبنی مقامی حکومتوں کے نظام اُور پشاور کے مسائل کی عمومی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے توجہات ’گل بہار‘ کی جانب مبذول کرتے ہیں جس کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اُور یہ تقسیم وقت کے ساتھ ’گل بہار‘ کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے خودبخود ہوتی چلی گئی اُور ’گل بہار‘ کی ابتدائی آبادی (پہلے حصے یعنی گل بہار نمبر ون) کے بعد کسی بھی دوسرے حصے (گل بہار نمبر دو‘ رشید ٹاؤن اُور گل بہار نمبر چار) میں خاطرخواہ شہری منصوبہ بندی کا عمل دخل نظر نہیں آتا بلکہ کھیتی باڑی کے لئے استعمال ہونے والی یہ اراضی ٹکڑوں میں فروخت ہوتی رہی اُور یوں راستے (گلیاں اُور سڑکیں) تخلیق پاتے رہے‘ جن پر تعمیر ہونے والے بے ترتیب گھروں کی اکثریت اُن تعمیراتی نقشوں کے مطابق نہیں جن کی متعلقہ میونسپلٹی (بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی) سے منظوری لی گئی تھی۔ بہرحال ’گل بہار‘ پشاور شہر کا پہلا توسیعی منصوبہ بصورت رہائشی بستی قرار دی جا سکتی ہے جس کے اکثر حصوں میں شہری منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے اُور چار سے پانچ دہائیوں میں ’گل بہار‘ کا کوئی ایک بھی حصہ ایسا نہیں رہا‘ جہاں اینٹ رکھنے (نئی آبادی) کی گنجائش باقی رہی ہو اُور یہ وہ وقت ہے جب گل بہار کے رہنے والے ’نیند سے بیدار‘ ہوئے ہیں اُور آنکھیں مل کر اپنے گردوپیش کو دیکھنے پر اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ فٹ پاتھ تجاوزات سے بڑھ چکے ہیں۔ فٹ پاتھ کے ساتھ بنی ہوئی نالے نالیوں پر بھی قبضہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اُن کی صفائی پندرہ بیس برس سے نہیں ہوئی اُور معمولی سی بارش بھی گل بہار کے نشینی و نسبتاً بالائی حصوں کے لئے طغیانی کا باعث بنتی ہے یا سڑکوں پر کئی کئی دن تک بارش کا پانی کھڑا رہتا ہے جس سے تعلیمی اداروں‘ دفاتر اُور مساجد کو باقاعدگی سے جانے والوں کو مشکلات رہتی ہیں! میئر پشاور نے حال ہی میں انم صنم چوک سے عشرت سینما چوک اُور عشرت سینما چوک سے آفریدی گڑھی تک سڑک کی تعمیر و مرمت کے لئے فراخ دلی سے مالی وسائل فراہم کئے ہیں لیکن یہ مالی وسائل اگر سڑک کے اُن چند حصوں کی مرمت پر خرچ کئے جاتے جو توڑ پھوڑ کا شکار تھے۔ گل بہار کے 3 مسائل انتہائی ضروری ہیں۔ نکاسی آب کا نظام گلیوں سے متصل نہیں۔ گلیاں نیچے اُور سڑک کی سطح ہر ترقیاتی کام کے بعد بلند ہو رہی ہے۔ کئی گلیوں کی فرش بندی چاہئے جو عرصہ بیس سال پہلے بنائی گئی تھیں اُور بجلی کی فراہمی کا بوسیدہ (ناکافی) نظام کی اصلاح و توسیع ہونی چاہئے کیونکہ گل بہار کی آبادی میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن اِس کے ساتھ بجلی پانی و گیس جیسی سہولیات کی فراہمی کو مربوط توسیع نہیں دی گئی! 

اگر ’مکھی پر مکھی مارنا‘ مقصود نہیں اُور گل بہار کی ترقی سے کوئی سیاسی‘ جماعتی و سیاسی فائدہ بھی نہیں جڑا ہوا تو نمائشی اقدامات پر ’مالی وسائل‘ ضائع کرنے کی بجائے حسب ِحال (حسب ِضرورت) ترقیاتی حکمت عملی وضع کی جانی چاہئے۔

....

Editorial Page - Daily Aaj - 15th July 2023

Clipping from Editorial Page - Daily Aaj - 15th July 2023


No comments:

Post a Comment