ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دور اندیشی کے تقاضے
دور اندیشی کے تقاضے
سیاسی زلزلہ پیمایہ مرکز اسلام آباد سے آمدہ اطلاعات کے مطابق ہنگامی حالات
کا نفاذ کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں گیارہ اگست کے روز جبکہ پاکستان
تحریک انصاف کی جانب سے ’آزادی مارچ‘ کے نام سے ایک انقلاب برپا ہوگا‘
وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے زیراہتمام ملک کی سیاسی قیادت کو ایک چھت تلے
تبادلہ خیال کا نادر اور شاید آخری موقع فراہم کر دیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے
کہ وفاقی حکومت اِس سے کتنا فائدہ اُٹھا پاتی ہے کیونکہ سیاسی مفاہمت کا
ماحول پیدا کرنے میں پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے!
حیرت کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں ہر قول اور فعل پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب وزیراعظم شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں نے زخموں پر مرہم رکھنے جا رہے تھے تو اُنہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی جبکہ اُسی روز وہ ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ تحریک انصاف کے مقام اور حیثیت کا ادارک کرنے میں تاخیر کرنے والے جب بیرون ملک دوروں پر تشریف لے جاتے ہیں تب اُنہیں تحریک انصاف کی یاد نہیں آتی لیکن جب ’پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ‘ کے لئے وہ بظاہر سنجیدہ ہو کر جو چال چلنے کی کوشش کرتے ہیں‘ وہ بیدار قوم اور سیاسی قیادت کی سمجھ سے بالاتر نہیں ہوتی۔
گیارہ اگست کو ہونے والے ’ویژن 2025‘ نامی اجلاس کا مقصد پاکستان کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے نئی حکمت عملیوں اور ایک ایسا جامع لائحہ عمل پر غوروخوض کرنا ہے‘ جس سے تعمیروترقی کا عمل بامعنی ہو سکے۔ حسب اعلان توقع ہے کہ وزیراعظم اِس کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوں گے۔ عجب ہے کہ میزبان حکومت خود ہی بطور مہمان بھی شریک ہوگی حالانکہ اگر حقیقت میں ملک کے مستقبل کی فکر لاحق ہوتی تو مختلف شعبوں سے ماہرین کو طلب کیا جاتا اور حکومت کہیں کونے میں بیٹھ کر اُن کی باتیں سنتی اور لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا۔ توقع ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ اِس کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ دعوت کو رد بھی نہ کریں اور اپنی جماعت کی نمائندگی کرنے والا ایک وفد اس اجلاس میں بھیج دیں‘ جس کے دعوت نامے فراخدلی کے ساتھ ہر مکتب فکر بشمول سیاست دانوں‘ فوجی حکام‘ افسرشاہی‘ تاجر‘ صنعتکاروں‘ ادیبوں‘ فنکاروں‘ مصوروں اور حتیٰ کہ صحافیوں کو بھی بطور خاص ارسال کئے گئے ہیں۔ منصوبہ بندی و ترقی کی وزارت سے تعلق رکھنے والے ایک انتظامی اہلکار کے مطابق ’’ویژن 2025‘‘ سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہرممکن کوششیں اور بڑھا چڑھا کر تیاریاں کی جارہی ہیں لیکن یہ ساری کوششیں بے معنی اور کانفرنس پر اُٹھنے والے جملہ اخراجات بے معنی دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی 14 اگست کے روز ’آزادی مارچ‘ کے نام سے ایک ایسا انقلابی احتجاج شروع کرنے جا رہی ہے جس کا راستہ روکنے کے لئے حکومت نے ایک طرف تو وفاقی دارالحکومت کو یکم اگست سے فوج کے حوالے کر دیا ہے اور دوسری جانب التجائی بیانات کے ذریعے اُس طوفان کو روکنے کی کوششیں کر رہی ہے‘ جو مبینہ طور پر منظم و بڑے پیمانے پر دھاندلی سے منتخب ہونے والی حکومت کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جانے کی یقینی طور پر طاقت رکھتا ہے!
پاکستان کا 68واں یوم آزادی تاریخی اور خونیں ہونے جا رہا ہے یا پھر یہ طوفان پاکستان عوامی تحریک کی طرح شور شرابے کے بعد ٹل جائے گا جبکہ قبائلی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی اور اس سے متاثرہ افراد سے غمخواری کرنے جیسا بہانہ اور مضبوط جواز بھی موجود ہے! جہاں تک ’ضرب عضب‘ کارروائی کا تعلق ہے تو اِس سلسلے میں زمینی حقائق پوشیدہ رکھے جا رہے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا دائرہ محدود رکھنے کی بجائے اِسے وسیع کیا جائے۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے قومی سطح پر لائحہ عمل تشکیل دیا جائے جس میں انتہاء پسند مسلح و غیرمسلح طبقات سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی واضح پیغام ملنا چاہئے۔ تیسری ضرورت نقل مکانی کرنے والوں کی باعزت واپسی اور بحالی کے لئے حکمت عملی مرتب کرنا ہے‘ جن کی بنیادی ضروریات اور سہولیات پوری نہیں ہو رہیں۔ ’ضرب عضب‘ کارروائی کے اہداف کتنے وقت میں حاصل کر لئے جائیں گے‘ اِس بارے میں بھی معلومات کا تبادلہ نہیں کیا گیا۔ جن علاقوں سے عسکریت پسندوں کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں‘ وہاں حکومت کی رٹ بحال کرنے کے لئے اقدامات کون کرے گا۔ اب تک جن عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے اُن کے نام ظاہر نہیں کئے گئے جس کا واضح مطلب ہے کہ وہ نچلے درجے کے رضاکار تھے جب تک خوف و دہشت پھیلانے والے نامور کرداروں کو کھوج کھوج اور چن چن کر انجام تک نہیں پہنچایا جاتا‘ اِس پوری کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونا ممکن نہیں۔ قبائلی علاقوں میں صحت و تعلیم اور بنیادی سہولیات کی فراہمی‘ سیاسی استحکام اور اُنہیں قومی دھارے میں شامل کرنے میں مزید تاخیر بھی کسی کے مفاد میں نہیں۔
حاصل کلام احساس ’ویژن (بصیرت برائے) 2025‘کے ایجنڈے میں قبائلی علاقوں کو شامل کرنے اور موروثی سیاست کی بجائے ملک کے اُس وسیع تر مفاد کے تقاضوں کا سمجھنے کی ضرورت ہے‘ جسے پس پشت ڈالے چھ دہائیاں گزر چکی ہیں! ’’دل بینا بھی کر خدا سے طلب: آنکھ کا نور دل کا نور نہیں! (علامہ اقبالؒ )۔‘‘
حیرت کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں ہر قول اور فعل پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب وزیراعظم شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں نے زخموں پر مرہم رکھنے جا رہے تھے تو اُنہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی جبکہ اُسی روز وہ ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ تحریک انصاف کے مقام اور حیثیت کا ادارک کرنے میں تاخیر کرنے والے جب بیرون ملک دوروں پر تشریف لے جاتے ہیں تب اُنہیں تحریک انصاف کی یاد نہیں آتی لیکن جب ’پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ‘ کے لئے وہ بظاہر سنجیدہ ہو کر جو چال چلنے کی کوشش کرتے ہیں‘ وہ بیدار قوم اور سیاسی قیادت کی سمجھ سے بالاتر نہیں ہوتی۔
گیارہ اگست کو ہونے والے ’ویژن 2025‘ نامی اجلاس کا مقصد پاکستان کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے نئی حکمت عملیوں اور ایک ایسا جامع لائحہ عمل پر غوروخوض کرنا ہے‘ جس سے تعمیروترقی کا عمل بامعنی ہو سکے۔ حسب اعلان توقع ہے کہ وزیراعظم اِس کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوں گے۔ عجب ہے کہ میزبان حکومت خود ہی بطور مہمان بھی شریک ہوگی حالانکہ اگر حقیقت میں ملک کے مستقبل کی فکر لاحق ہوتی تو مختلف شعبوں سے ماہرین کو طلب کیا جاتا اور حکومت کہیں کونے میں بیٹھ کر اُن کی باتیں سنتی اور لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا۔ توقع ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ اِس کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ دعوت کو رد بھی نہ کریں اور اپنی جماعت کی نمائندگی کرنے والا ایک وفد اس اجلاس میں بھیج دیں‘ جس کے دعوت نامے فراخدلی کے ساتھ ہر مکتب فکر بشمول سیاست دانوں‘ فوجی حکام‘ افسرشاہی‘ تاجر‘ صنعتکاروں‘ ادیبوں‘ فنکاروں‘ مصوروں اور حتیٰ کہ صحافیوں کو بھی بطور خاص ارسال کئے گئے ہیں۔ منصوبہ بندی و ترقی کی وزارت سے تعلق رکھنے والے ایک انتظامی اہلکار کے مطابق ’’ویژن 2025‘‘ سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہرممکن کوششیں اور بڑھا چڑھا کر تیاریاں کی جارہی ہیں لیکن یہ ساری کوششیں بے معنی اور کانفرنس پر اُٹھنے والے جملہ اخراجات بے معنی دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی 14 اگست کے روز ’آزادی مارچ‘ کے نام سے ایک ایسا انقلابی احتجاج شروع کرنے جا رہی ہے جس کا راستہ روکنے کے لئے حکومت نے ایک طرف تو وفاقی دارالحکومت کو یکم اگست سے فوج کے حوالے کر دیا ہے اور دوسری جانب التجائی بیانات کے ذریعے اُس طوفان کو روکنے کی کوششیں کر رہی ہے‘ جو مبینہ طور پر منظم و بڑے پیمانے پر دھاندلی سے منتخب ہونے والی حکومت کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے جانے کی یقینی طور پر طاقت رکھتا ہے!
پاکستان کا 68واں یوم آزادی تاریخی اور خونیں ہونے جا رہا ہے یا پھر یہ طوفان پاکستان عوامی تحریک کی طرح شور شرابے کے بعد ٹل جائے گا جبکہ قبائلی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی اور اس سے متاثرہ افراد سے غمخواری کرنے جیسا بہانہ اور مضبوط جواز بھی موجود ہے! جہاں تک ’ضرب عضب‘ کارروائی کا تعلق ہے تو اِس سلسلے میں زمینی حقائق پوشیدہ رکھے جا رہے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا دائرہ محدود رکھنے کی بجائے اِسے وسیع کیا جائے۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے قومی سطح پر لائحہ عمل تشکیل دیا جائے جس میں انتہاء پسند مسلح و غیرمسلح طبقات سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی واضح پیغام ملنا چاہئے۔ تیسری ضرورت نقل مکانی کرنے والوں کی باعزت واپسی اور بحالی کے لئے حکمت عملی مرتب کرنا ہے‘ جن کی بنیادی ضروریات اور سہولیات پوری نہیں ہو رہیں۔ ’ضرب عضب‘ کارروائی کے اہداف کتنے وقت میں حاصل کر لئے جائیں گے‘ اِس بارے میں بھی معلومات کا تبادلہ نہیں کیا گیا۔ جن علاقوں سے عسکریت پسندوں کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں‘ وہاں حکومت کی رٹ بحال کرنے کے لئے اقدامات کون کرے گا۔ اب تک جن عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے اُن کے نام ظاہر نہیں کئے گئے جس کا واضح مطلب ہے کہ وہ نچلے درجے کے رضاکار تھے جب تک خوف و دہشت پھیلانے والے نامور کرداروں کو کھوج کھوج اور چن چن کر انجام تک نہیں پہنچایا جاتا‘ اِس پوری کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونا ممکن نہیں۔ قبائلی علاقوں میں صحت و تعلیم اور بنیادی سہولیات کی فراہمی‘ سیاسی استحکام اور اُنہیں قومی دھارے میں شامل کرنے میں مزید تاخیر بھی کسی کے مفاد میں نہیں۔
حاصل کلام احساس ’ویژن (بصیرت برائے) 2025‘کے ایجنڈے میں قبائلی علاقوں کو شامل کرنے اور موروثی سیاست کی بجائے ملک کے اُس وسیع تر مفاد کے تقاضوں کا سمجھنے کی ضرورت ہے‘ جسے پس پشت ڈالے چھ دہائیاں گزر چکی ہیں! ’’دل بینا بھی کر خدا سے طلب: آنکھ کا نور دل کا نور نہیں! (علامہ اقبالؒ )۔‘‘
No comments:
Post a Comment