Saturday, August 2, 2014

Aug2014: Tension in Libya

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
لیبیا: کشیدگی‘ بحران اور اُمیدیں
صورتحال کی کشیدگی اور بحران کی شدت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ روز (دو اگست) سے برطانیہ نے لیبیا میں اپنے سفارتخانے بند کرکے جملہ سفارتی عملہ واپس طلب کر لیا ہے۔ اس سے قبل اٹلی‘ امریکہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ جاپان اور ہالینڈ بھی بالترتیب اپنے اپنے سفارتخانے بند کر چکے ہیں۔ برطانیہ کے سفارتکار مائیکل آرون (Michael Aron) نے ٹوئٹر (twitter) پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’’نہ چاہتے ہوئے بھی ہم اپنا سفارتخانہ بند کر رہے ہیں اور جیسے ہی لیبیا میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوگی‘ ہم دوبارہ سفارت خانہ کھول دیں گے۔‘‘ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ لیبیا سے متعلق سفارتی خدمات ہمسایہ ممالک سے جاری رہیں گی۔ یوں لگتا ہے کہ عالمی برادری ایک ایک کر کے لیبیا کو تنہا چھوڑ رہی ہے۔ دوسری جانب داخلی امن و امان کی صورتحال کے باعث تیونس نے بھی لیبیا کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لیبیائی باشندے جب اپنی جان بچانے کے لئے ہمسایہ ملک کی سرحد پر پہنچے تو اُن کا آنسو گیس اور لاٹھیوں سے استقبال کیا گیا۔ سبق آموز صورتحال ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی داخلی امن و امان خراب ہوتا ہے وہاں کے رہنے والوں کو نسلوں اِس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
لیبیا میں بدامنی جاری رہنے کے ساتھ ہی اس ملک کے بعض سیاسی اور فکری دھڑوں اور حکومت کی جانب سے خطرے کے احساس کے باعث ’’بورڈ آف گورنرز‘‘ نے سیکورٹی بحران کے حل کے لئے ایک منصوبہ پیش کیاہے‘ جس کی جملہ شقوں میں تمام متصادم گروہوں کے درمیان جنگ بندی‘ پورے لیبیا پر حکومت کا کنٹرول‘ آئل فیلڈز‘ بندرگاہوں اور کسٹمزکے امور وزارت داخلہ کے حوالے کرنے کے ساتھ ہی فوجی اڈوں کو چیف آف آرمی اسٹاف کے سپرد کرنے جیسے موضوعات شامل ہیں۔ بورڈ آف گورنرزکے منصوبے کے مطابق بن غازی اور طرابلس کو ہتھیاروں سے پاک شہر کے طورپر اعلان جبکہ منصوبے کی شقوں پرعمل درآمد اور قومی مذاکرات کے لئے ایک نظام الاوقات بھی مرتب کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ ایسے وقت میں تیار کیا گیا ہے کہ لیبیا کی پارلیمنٹ نے سیکورٹی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے ہنگامی اجلاس طلب کر رکھا ہے۔

لیبیا کے حالات اس وقت کشیدگی اور بحران کا شکار ہیں‘ حتی افریقی یونین نے بھی اس ملک میں تشدد جاری رہنے کے سلسلے میں خبردار کیا ہے۔ یہ انتباہ اس وجہ سے دیاگیا ہے کہ لیبیا میں بحران جاری رہنے کے باعث اس کے پڑوسی ممالک پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ لیبیا سے اس کے پڑوسی ممالک میں مہاجرین کے سیلاب نے ان ممالک کے لئے سیکورٹی مسائل کھڑے کردیئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی لیبیا کی بدحال سیکورٹی صورت حال نے دہشت گردوں کے لئے حالات سازگار بنا دیئے ہیں۔

تیونس‘ مصر‘ اورمراکش جیسے ممالک نے اپنی سرحدوں پر الرٹ جاری کردیا ہے انہیں خوف ہے کہ دہشت گرد لیبیا سے کہیں ان کے ملکوں کا رخ نہ کرلیں۔اس وقت شمالی افریقہ کے بعض ممالک بھی لیبیا کی داخلی صورت حال سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس ملک میں متصادم گروہوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ لیبیا کے بعض علاقوں میں جھڑپوں میں تیزی آئی ہے اور گذشتہ چند ہفتوں کے دوران دارالحکومت طرابلس بھی جھڑپوں کا مرکز رہا ہے۔ مشرقی لیبیا میں بھی دہشت گردوں اور مسلح افراد کے درمیان جاری جنگ اور ایک دوسرے کے خلاف سنگین ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں جبکہ لیبیا کے فوجیوں کے درمیان بھی سنگین صف بندی ہے اور فوج کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔بعض فوجی حکومت مخالف ریٹائرڈ جنرل خلیفہ حفتر کے محاذ میں شامل ہوگئے ہیں اور بعض فوجی طرابلس حکومت کے زیرکنٹرول ہیں۔ اس بیچ مسلح افراد جو درحقیقت وہی سابق انقلابی ہیں‘ لیبیا کے مشرقی اور مغربی حصوں میں سرگرم عمل ہیں اور لیبیا کے عوام بحران اور بدامنی کے عالم میں طرح طرح کی معاشی‘ سیاسی اور سیکورٹی کی صورت حال سے دوچار ہیں۔

اس وقت لیبیا کے عوام کو نہایت تاریک مستقبل کا سامنا ہے اور اس ملک کے لئے کسی قسم کے روشن مستقبل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ایسا نظرآرہا ہے کہ اس وقت لیبیا میں ہرفریق اپنی طاقت کا مظاہرہ کررہا ہے۔ اسلحہ لیبیائی گروہوں کی زبان بن چکا ہے اور یہی چیز لیبیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سنگین بحران کے سبب لیبیا کا وجود داؤ پرلگا ہوا ہے۔ لیبیا کے حالات کے پیش نظر بعض سیاسی حلقے اس ملک کی تقسیم کو توقع کے برخلاف نہیں سمجھتے جبکہ لیبیائی حکام‘ ملک کے مستقبل کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے سیاسی گروہوں کے درمیان تعمیری تعاون اور گفتگو کی ضرورت پرتاکید کررہے ہیں۔ایک ایسا موضوع جس پرحریف مسلح گروہ بالکل یقین نہیں رکھتے اور طاقت اور تشدد کو ہی تنہا وسیلہ سمجھتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment