Sunday, August 3, 2014

Aug2014: The real mean of democracy

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جمہوری حقوق اور ذمہ داریاں
سب بول رہے ہیں‘ اور سننے والا کوئی نہیں۔ سب اپنی اپنی خواہشات کا حصول چاہتے ہیں اور کسی میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں۔ سب سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں لیکن کوئی بھی دوسرے کو معاف کرنے کو تیار نہیں۔ سبھی سیاست اور جنگ میں سب کچھ جائز سمجھتے ہیں لیکن یہ رعائت اپنے سوا کسی دوسرے کو دینے کے لئے تیار نہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور عوامی نیشنل پارٹی ایک جیسا مؤقف رکھتی ہے کہ ’’تحریک انصاف کو سیاسی بالغ النظری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور محض احتجاج کی بجائے وہ اپنے عزائم واضح کریں۔ آزادی مارچ کے نام سے احتجاج کے لئے منتخب کیا گیا وقت غیرمناسب ہے۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان خود رکن قومی اسمبلی ہیں‘ اگر وہ کسی بھی طرح کی اصلاحات چاہتے ہیں تو اس کے لئے مہذب اور جمہوری راستہ اپناتے ہوئے قانون ساز اسمبلیوں کے اندر جدوجہد کریں۔ اپنے ہم خیالوں کی تعداد میں اضافہ کریں اور دوسروں کو قائل کریں۔ اگر احتجاج جمہوری حق ہے تو پارلیمنٹ کے ذریعے مسئلے کا حل جمہوری ذمہ داری ہے۔ عمران خان اور طالبان کے طریقہ کار میں فرق صرف یہ ہے کہ ایک کے ہاتھ میں بندوق ہے۔‘‘ غم و غصے اور عزم سے بھرا دوسرا طبقہ تحریک انصاف‘ عوامی تحریک‘ مسلم لیگ عوامی اور مسلم لیگ قاف کا ہے جس کے بقول ’’حکومت کا مستقبل تاریک ہے۔

چودہ اگست کو برپا ہونے والے جمہوری انقلاب کو اب کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘اِس گرما گرم سیاسی منظرنامے میں پیپلزپارٹی کا مؤقف سب سے وزنی اور منطقی ہے جو متحدہ قومی موومنٹ کی طرح درپردہ تحریک انصاف اور اُن کے ہم خیال ہم عصروں کے نکتہ نظر کو جائز سمجھتی ہے۔ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ ’’نواز لیگ کو خود اُس کے اپنے اقدامات لے ڈوبے ہیں۔سیاست میں فیصلہ کرنے کی ٹائمنگ (timing) بڑی اہم ہوتی ہے۔عمران خان کا معاملہ ’مس ہینڈل‘ ہوا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں جمہوری نظام رائج ہے وہاں ’حزب اختلاف‘ حالات کا فائدہ اٹھاتی ہے لیکن حکومت وقت کا کام ہوتا ہے کہ وہ ’ڈیڈلاک‘ پیدا نہ ہونے دے اور نت نئے امکانات پیدا کرتی رہے۔ تحریک انصاف کو اگر ’الیکشن ٹریبونل‘ سے انصاف نہیں مل رہا تو اُن کا احتجاج جائز ہے کیونکہ قواعد کے مطابق انتخابات سے متعلق اختلافات کا زیادہ سے زیادہ چار ماہ میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے‘ اگر کسی وجہ سے سال بھر میں فیصلہ نہیں ہو پا رہا تو وفاقی حکومت کو چاہئے تھا کہ ایک مکتوب کے ذریعے الیکشن کمیشن کو جگاتی۔ نواز لیگ سے ہونے والی دوسری غلطی ڈاکٹر طاہر القادری کے رہائشگاہ کے باہر نصب رکاوٹیں دور کرنے کے بہانے طاقت کے استعمال سے اُنہیں مرعوب کرنے کی کوشش تھی۔ کیا ماڈل ٹاؤن لاہور میں طاہر القادری کی رہائشگاہ واحد ایسی جگہ تھی جہاں رکاوٹیں کھڑی کر کے شاہراہ عام بند کی گئی تھی؟ سب جانتے ہیں کہ ماڈل ٹاؤن کی ہر ایک گلی میں بااثر افراد نے اپنی اپنی رہائشگاہوں کو جانے والے راستوں پر ذاتی محافظ بٹھانے پر داخلے کے حقوق ہاتھ میں لے رکھے ہیں جبکہ صرف طاہر القادری کے رہائشگاہ پر نصف شب کے بعد کارروائی کا آغاز اور پھر صبح تک انتظار کیا جانا کہ اُن کے حامی بڑی تعداد میں جمع ہو جائیں اور جب وہ احتجاج کرنے لگے تو اُن پر خودکار ہتھیاروں سے گولیاں اور بدترین لاٹھی چارج (تشدد) کرنا درحقیقت نواز لیگ کا اپنے پاؤں پر دوسری مرتبہ کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ تیسری غلطی ڈاکٹر طاہر القادری کے جہاز کو اسلام آباد کی بجائے لاہور اُتارہ گیا۔ چوتھی غلطی اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنا ہے اور پانچویں غلطی صدر پرویز مشرف سے آئینی معاملہ کرنے میں غیرضروری سختی سے نواز لیگ کے دشمنوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

کیا تحریک انصاف کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے طرز حکمرانی پر انگلی اُٹھائے جبکہ ایک سال تک خیبرپختونخوا میں جو اصلاحات کی گئیں اور جس طرح منظور نظر افراد کو نوازہ گیا‘ وہ ماضی کی روایت پسند سیاسی جماعتوں سے قطعی مختلف نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان جب کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں تو وہ اٹل ہوتا ہے۔ عمران خان کو بند گلی میں دھکیلنے والوں نے اُنہیں کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اُن کے اردگرد ایسے لوگوں کا جھمگھٹا ہے جنہوں نے اقتدار میں آنے سے متعلق ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے پوری تحریک انصاف کو داؤ پر لگا دیا ہے!

سوالات بہت ہیں! طرز حکمرانی کی اصلاح کیسے کی جائے؟ مردم شماری کرانی ہے یا نہیں تاکہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے اور مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی محض اندازوں پر نہیں بلکہ سائنسی بنیادوں پر ہو؟ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر اور حائل رکاوٹیں کیسے دور کی جائیں؟ آئندہ عام انتخابات کیسے ہونے چاہئے کہ وہ سب کے لئے قابل قبول ہوں؟ عام انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے مقناطیسی سیاہی کا استعمال ہو یا الیکٹرانک پولنگ کا نظام اختیار کیا جائے؟ انتخابی فہرستوں اور انتخابی حلقہ بندیوں کی اصلاح کیسے کی جائے؟ انتخابی عمل سے متعلق شکایات فوری طور پر نمٹانے کا طریقہ کار کیا ہونا چاہئے؟ ضرورت محض کسی ایک جماعت کے اقتدار سے الگ اور دوسرے کے ہاتھ حکومت تھمانے کی نہیں بلکہ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ توانائی بحران اور امن و امان کی غیریقینی صورتحال سے نمٹتے ہوئے عام آدمی کی توقعات پر پورا اُترنے کی بھی ہے حکمرانوں کو امیر المومنین اور بادشاہ بننے کی بجائے خدمت گزار بننا ہوگا۔

ٹیکسوں کے پیسے اور قرضوں پر شاہانہ زندگی بسر کرنے اور اختیارات سے اربوں روپے ذاتی اثاثوں میں ڈھالنے والوں کو حکومت کے جانے سے خوف نہیں بلکہ اس بات سے اُن کی نیندیں حرام ہیں کہ کہیں اُن کا احتساب نہ ہو! ضرورت ایک ایسے نظام کے نفاذ کی ہے جس میں عام آدمی کو اپنی اہمیت کا عملی احساس ہو۔ سرکاری ملازمین کا احتساب ہو۔ زیادہ آمدنی والے طبقات سے زیادہ ٹیکس وصول کئے جائیں۔ سیاسی جماعتوں میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی بجائے پیشہ ور ماہرین کو جگہ ملے اور ذات برادری‘تھانہ کچہری‘ رشتے ناطوں کے بل بوتے پر مسلط طبقے سے آزادی حاصل کی جائے مگر کیسے؟ انقلاب کے ذریعے موم کی طرح کا قانون اور بااثر افراد کے تابع فرمان نظام اگر جھٹکے سے تبدیل کیا گیا تو اس سے ایک ایسی کھائی بن جائے گی‘ ایک ایسی مثال اور ایک ایسا طرزعمل جائز ہو جائے گا‘ جس کا استعمال دیگر سیاسی و بالخصوص مذہبی جماعتیں یا دیدہ و نادیدہ طاقتیں حسب ضرورت کر سکیں گی۔ یقینی امر ہے کہ جمہوری حکومت کو کھائی میں گرانے والے خود بھی اُسی گڑھے میں گر سکتے ہیں‘ جو سوچ بچار یا جذبات کی لہر میں کھودا جا رہا ہے!

No comments:

Post a Comment