ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انسانی حقوق کی پائمالی: عالمی تناظر
انسانی حقوق کی پائمالی: عالمی تناظر
طاقت کے نشے میں جہاں سماعت اور بصارت ساتھ دینا چھوڑ دیتی ہے‘ وہیں فہم و
فراست‘ دانش یا مستقبل کے حوالے سے بصیرت بھی باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے
کہ افغانستان سے عراق اور فلسطین سے لیبیا و شام میں جنگ کے آلاؤ بھڑک رہے
ہیں اور اگر اِن سبھی تنازعات کے محرکات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے
تو واقعات کا تسلسل واحد عالمی طاقت امریکہ تک جا پہنچتا ہے‘ جسے صرف اور
صرف اپنے مفادات سے غرض ہے لیکن یہ غرض دوسروں کے لئے کس قدر اذیت اور
تکلیف کا باعث بنا ہوا ہے‘ اس پر امریکہ کی سیاسی و فوجی قیادت زیادہ غور
نہیں کر رہی۔ مسلم ممالک کے سربراہوں کو مٹھی میں رکھنے اور مسلم دنیا کے
وسائل پر کنٹرول حاصل کر لینے کے بعد امریکہ کی راہ میں کوئی ایسی رکاوٹ
نہیں رہی‘ جو اُسے للکار سکے۔ براعظم ایشیاء میں پاؤں جمانے کے بعد
امریکیوں کی نظریں افریقہ پر بھی ہیں جہاں ایک طرف توانائی جیسے وسائل کی
کمی نہیں اور دوسرا وہاں سونے اور ہیرے جیسی معدنیات بھی وافر مقدار میں
موجود ہیں۔
تین سے چھ اگست واشنگٹن میں امریکہ اور افریقی قائدین کا سہ روزہ سربراہ اجلاس میں پچاس سے زائد افریقی ممالک کے سربراہان کی شرکت کئی لحاظ سے غیرمعمولی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ براعظم افریقہ کے چار ممالک اریٹریا‘ زمبابوے‘ سوڈان اور جمہوریۂ وسطی افریقہ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر اِس اجلاس میں شرکت کے لئے دعوت نہیں دی گئی ۔اجلاس میں معاشی فروغ پاتے ہوئے افریقہ میں مواقع اور مستقبل زیرِ غور آئے گا‘ جبکہ کلیدی سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ کس طرح افریقی ممالک سے اپنے تعلقات بہتر بنا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجلاس کا عنوان ’اگلی نسل کے لئے سرمایہ کاری‘ رکھا گیا ہے۔ سربراہ ملاقاتوں کا مقصد مشترکہ مفادات کی نشاندہی کرنا بھی ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب یقینی طور پر افریقی نوجوانوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قدم بڑھایا جائے‘ جن میں صحتِ عامہ‘ تعلیم اور روزگار کے مواقع میسر کرنا شامل ہوں گے۔ ایسے وقت جب جمہوریۂ وسطی افریقہ‘ سوڈان اور مشرقی و مغربی افریقی ممالک عسکریت پسندوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے نبردآما ہیں‘ پہلا ہدف یہ ہوگا کہ ترقی کے حصول کے لئے درکار امن اور استحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔ سربراہ اجلاس کے شرکاء تشدد کے خاتمے اور علاقائی اور داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کے معاملے کو زیر بحث لائیں گے۔
براعظم افریقہ کا امن چیلنج کا درجہ رکھتا ہے جس کا عمومی طور پر ایک حصہ افریقہ کی پولیس اور فوج کا معاملہ ہے جو انتہائی پیشہ ور نہیں اور جس کے باعث‘ نامناسب اور تلخ حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ خصوصی طور پر جب داخلی سلامتی کے خطرات پر بات چیت ہو گی تو اس میں بے گناہ تماشائیوں کی ہلاکتیں ہونے جیسے واقعات پر بھی بات کی جائے گی۔ المیہ ہے کہ جہاں کہیں مقامی آبادی نظرانداز ہوگی‘ وہاں مزید شکایات جنم لیں گی۔ صدر اوباما اور دیگر سربراہان مملکت کے لئے یہ ایک چیلنج ہے کہ مقامی مسائل کو کس طرح علیحدہ کرکے زیر غور لایا جائے‘ پھر کہیں اِن خطرات کے بین الاقومی عناصر پر بات ہوسکتی ہے؟
اجلاس کے دوسرے روز طے ہے کہ افریقی رہنما امریکی حکومت کے عہدے داروں سے ملاقات کریں گے‘ جس میں معاشی سلامتی کا معاملہ زیر غور آئے گا۔ اِس اجلاس میں دو سو سے زائد امریکی اور افریقی کاروباری حضرات بھی شریک ہیں‘ جو تجارت اور مالی نوعیت کے تعلقات کو مضبوط کرنے کے حوالے سے معاملات زیرِ غور لائیں گے۔ افریقہ کے ساتھ امریکی تجارت کے ایک اہم حصے کا دارومدار افریقی افزائش اور مواقع کے سلسلے میں وضع کردہ قانون ہے۔ اِس امریکی قانون سازی کا مقصد ’’سب سہارا افریقہ‘‘ کی معیشتوں کی اعانت کرنا اور معاشی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ اس قانون کے تحت وہ افریقی ممالک جن کے معاشی انتظام اور انسانی حقوق کا ریکارڈ اچھا ہے‘ اُنہیں بغیر محصول ادا کیے امریکی منڈیوں تک رسائی فراہم ہوگی۔ براعظم افریقہ سے تعلق رکھنے والے ممالک تقریباً سات ہزار مصنوعات امریکہ برآمد کرتے ہیں جن کی مالیت 27 ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے۔
ضمنی طورپر عرض ہے کہ امریکہ پر بھروسہ کرنے کے علاؤہ اگرچہ کسی دوسرے ذریعے کی کھوج نہیں لگائی گئی لیکن پاکستان کو درپیش مسائل کا حل اِسی میں ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے کو عالمی تناظر میں دیکھا جائے اور محض امریکہ کی دوستی پر اکتفا کرنے کی بجائے اپنے مفادات جس میں تجارت میں اضافہ جیسا ہدف پیش نظر رکھا جائے۔ سردست صورتحال مایوس کن ہے اور امریکہ مسلم دنیا میں پاکستان کے اثرورسوخ کو استعمال تو کرتا ہے لیکن جمہوری قدروں اور اداروں کی مضبوطی کی بجائے ایسے حکمرانوں کو مسلط رکھتا ہے‘ جن کے سامنے امانت و دیانت کے تصورات ابہام جیسے ہوں۔ امریکہ میں پاکستان کے سفارتخانے (embassyofpakistanusa.org) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے جس کے حجم میں سال دوہزار دس سے تبدیلی نہیں آ رہی۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ معاشی و اقتصادی مسائل ہیں‘ جن کی شدت توانائی بحران کے سبب ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہی ہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر واویلا کرنے والوں کو ارض فلسطین کے مسلمان کیوں دکھائی نہیں دے رہے‘ اسرائیلی جارحیت اور بے گناہوں کا خون بہانے والوں کے اصل عزائم کیا ہیں؟ جب تک مسلم امہ محکوم ومغلوب رہے گی اور غلامی کا طوق اُتار نہیں دیتی‘ اس پر دباؤ برقرار رہے گا۔
تین سے چھ اگست واشنگٹن میں امریکہ اور افریقی قائدین کا سہ روزہ سربراہ اجلاس میں پچاس سے زائد افریقی ممالک کے سربراہان کی شرکت کئی لحاظ سے غیرمعمولی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ براعظم افریقہ کے چار ممالک اریٹریا‘ زمبابوے‘ سوڈان اور جمہوریۂ وسطی افریقہ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر اِس اجلاس میں شرکت کے لئے دعوت نہیں دی گئی ۔اجلاس میں معاشی فروغ پاتے ہوئے افریقہ میں مواقع اور مستقبل زیرِ غور آئے گا‘ جبکہ کلیدی سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ کس طرح افریقی ممالک سے اپنے تعلقات بہتر بنا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجلاس کا عنوان ’اگلی نسل کے لئے سرمایہ کاری‘ رکھا گیا ہے۔ سربراہ ملاقاتوں کا مقصد مشترکہ مفادات کی نشاندہی کرنا بھی ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب یقینی طور پر افریقی نوجوانوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قدم بڑھایا جائے‘ جن میں صحتِ عامہ‘ تعلیم اور روزگار کے مواقع میسر کرنا شامل ہوں گے۔ ایسے وقت جب جمہوریۂ وسطی افریقہ‘ سوڈان اور مشرقی و مغربی افریقی ممالک عسکریت پسندوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے نبردآما ہیں‘ پہلا ہدف یہ ہوگا کہ ترقی کے حصول کے لئے درکار امن اور استحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔ سربراہ اجلاس کے شرکاء تشدد کے خاتمے اور علاقائی اور داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کے معاملے کو زیر بحث لائیں گے۔
براعظم افریقہ کا امن چیلنج کا درجہ رکھتا ہے جس کا عمومی طور پر ایک حصہ افریقہ کی پولیس اور فوج کا معاملہ ہے جو انتہائی پیشہ ور نہیں اور جس کے باعث‘ نامناسب اور تلخ حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ خصوصی طور پر جب داخلی سلامتی کے خطرات پر بات چیت ہو گی تو اس میں بے گناہ تماشائیوں کی ہلاکتیں ہونے جیسے واقعات پر بھی بات کی جائے گی۔ المیہ ہے کہ جہاں کہیں مقامی آبادی نظرانداز ہوگی‘ وہاں مزید شکایات جنم لیں گی۔ صدر اوباما اور دیگر سربراہان مملکت کے لئے یہ ایک چیلنج ہے کہ مقامی مسائل کو کس طرح علیحدہ کرکے زیر غور لایا جائے‘ پھر کہیں اِن خطرات کے بین الاقومی عناصر پر بات ہوسکتی ہے؟
اجلاس کے دوسرے روز طے ہے کہ افریقی رہنما امریکی حکومت کے عہدے داروں سے ملاقات کریں گے‘ جس میں معاشی سلامتی کا معاملہ زیر غور آئے گا۔ اِس اجلاس میں دو سو سے زائد امریکی اور افریقی کاروباری حضرات بھی شریک ہیں‘ جو تجارت اور مالی نوعیت کے تعلقات کو مضبوط کرنے کے حوالے سے معاملات زیرِ غور لائیں گے۔ افریقہ کے ساتھ امریکی تجارت کے ایک اہم حصے کا دارومدار افریقی افزائش اور مواقع کے سلسلے میں وضع کردہ قانون ہے۔ اِس امریکی قانون سازی کا مقصد ’’سب سہارا افریقہ‘‘ کی معیشتوں کی اعانت کرنا اور معاشی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ اس قانون کے تحت وہ افریقی ممالک جن کے معاشی انتظام اور انسانی حقوق کا ریکارڈ اچھا ہے‘ اُنہیں بغیر محصول ادا کیے امریکی منڈیوں تک رسائی فراہم ہوگی۔ براعظم افریقہ سے تعلق رکھنے والے ممالک تقریباً سات ہزار مصنوعات امریکہ برآمد کرتے ہیں جن کی مالیت 27 ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے۔
ضمنی طورپر عرض ہے کہ امریکہ پر بھروسہ کرنے کے علاؤہ اگرچہ کسی دوسرے ذریعے کی کھوج نہیں لگائی گئی لیکن پاکستان کو درپیش مسائل کا حل اِسی میں ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے کو عالمی تناظر میں دیکھا جائے اور محض امریکہ کی دوستی پر اکتفا کرنے کی بجائے اپنے مفادات جس میں تجارت میں اضافہ جیسا ہدف پیش نظر رکھا جائے۔ سردست صورتحال مایوس کن ہے اور امریکہ مسلم دنیا میں پاکستان کے اثرورسوخ کو استعمال تو کرتا ہے لیکن جمہوری قدروں اور اداروں کی مضبوطی کی بجائے ایسے حکمرانوں کو مسلط رکھتا ہے‘ جن کے سامنے امانت و دیانت کے تصورات ابہام جیسے ہوں۔ امریکہ میں پاکستان کے سفارتخانے (embassyofpakistanusa.org) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے جس کے حجم میں سال دوہزار دس سے تبدیلی نہیں آ رہی۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ معاشی و اقتصادی مسائل ہیں‘ جن کی شدت توانائی بحران کے سبب ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہی ہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر واویلا کرنے والوں کو ارض فلسطین کے مسلمان کیوں دکھائی نہیں دے رہے‘ اسرائیلی جارحیت اور بے گناہوں کا خون بہانے والوں کے اصل عزائم کیا ہیں؟ جب تک مسلم امہ محکوم ومغلوب رہے گی اور غلامی کا طوق اُتار نہیں دیتی‘ اس پر دباؤ برقرار رہے گا۔
No comments:
Post a Comment