Wednesday, August 6, 2014

Aug2014: Tourism and development

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاحتی امکانات: تعمیر وترقی اور استفادہ
گرمی کی شدید لہر اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوؤں کو عید الفطر کی تعطیلات کی صورت جب موقع ملا تو وسائل رکھنے والوں نے بڑی تعداد میں ملک کے بالائی علاقوں کا رخ کیا۔ خیبرپختونخوا کا ہزارہ ڈویژن جنت نظیر وادیوں‘ سرسبزی وشادابی اور سخت گرمی میں بھی سرد علاقوں پر مشتمل ہے‘ اور ہمیشہ ہی سے ملکی و غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے لیکن گذشتہ ہفتہ عید کے موقع پر جس بڑی تعداد میں سیاحوں نے گلیات کا رُخ کیا‘ وہ ناقابل یقین تھا۔ گنجائش سے زیادہ افراد اور ہر قسم کی گاڑیوں سے ایبٹ آباد سمیت گلیات کی سڑکیں بھر گئیں۔ ہوٹلوں‘ گیسٹ ہاؤسیز اور یہاں وہاں ٹھہرنے کی جملہ جگہوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اور پھر وہی ہوا‘ جس کا ڈر تھا کہ عوام کا رش اور محدود سہولیات کی وجہ سے پیدا ہونے والی ’افراتفری‘ کا فائدہ اُٹھانے والوں نے رات کے قیام اور طعام کی من مانی قیمتیں وصول کیں حتی کہ گاڑی پارک کرنے کی فیس بھی پانچ سو سے ایک ہزار روپے مقرر تھی۔ اہل خانہ کے ہمراہ عید الفطر کے موقع پر سیروتفریح کے لئے گھر سے نکلنے والوں کو وہم و گمان سے زیادہ بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تو کیا ضروری نہیں آئندہ موسم گرما یا باقی ماندہ چند ماہ میں گلیات کا رخ کرنے والے سیاحوں کے لئے سہولیات اور رہنمائی کا بندوبست کیا جائے؟

حقیقت حال یہ ہے کہ برطانوی راج کے بعد ہزارہ ڈویژن کے سیاحتی مقامات کو ترقی دینے سے زیادہ اِس بات پر توجہ دی گئی کہ بااثر خاندان وہاں کی اراضی پر آئینی طریقے سے قبضہ کریں۔ اس مقصد کے لئے ایسے ’قواعد و ضوابط‘ اور ادارے مرتب کئے گئے جو اِس پورے عمل کو آسان بنائیں اور پھر سینکڑوں کی تعداد میں درخت کاٹ کر عمارتیں کھڑی کر دی گئیں جس کے بعد تعمیرات اور درختوں کی کٹائی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ گلیات کی سیر کرنے والے بہت کم لوگ اِس بات سے آگاہ ہوں گے کہ ہمارے سیاست دانوں‘ سرمایہ داروں‘ زمینداروں‘ صنعتکاروں اور وہ سبھی طبقات جن کے ذرائع آمدن تو معلوم نہیں لیکن وہ قیام پاکستان کے بعد سے ہر گزرتے دن امیروکبیر ہو رہے ہیں کی نجی رہائشگاہیں گلیات میں ہیں۔جہاں وہ اپنے اہل خانہ یا دوستوں کے ہمراہ چند ہفتوں کے لئے قیام فرماتے ہیں لیکن اُن کی رہائشگاہوں کی تزئین و آرائش‘ سہولیات کی فراہمی اور اُنہیں رہائش کے قابل رکھنے کے لئے سارا سال بھاری رقومات خرچ کی جاتی ہیں۔ اَگر سیاحت کی اہمیت کو سمجھا جاتا۔ اَگر سیاحت کے اِمکانات کا کماحقہ اِدارک کیا جاتا اور اگر سیاحت کی ترقی کو ترقیاتی بجٹ میں ترجیح بنایا جاتا تو گلیات کے رہنے والے مقامی افراد کی قسمت بدل جاتی۔ وہ روزگار کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں نہ کھاتے۔ اُنہیں اپنی وادیاں چھوڑ کر گردآلود اور آلودگیوں سے بھرے شہری ماحول میں کسمپرسی کی زندگیاں بسر نہ کرنا پڑتیں۔ المیہ ہے کہ حکومت کے ساتھ نجی شعبے نے بھی اپنی سیاحت کی ترقی پر توجہ نہیں دی۔ ہمیں گلیات میں کئی اداروں کے ’ریسٹ ہاؤسیز‘ تو ملتے ہیں لیکن اُن کی جانب سے سیاحوں کی رہنمائی یا اُن کی سہولیات کے شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی۔ ’کارپوریٹ ریسپانسبیلٹی‘ یعنی نجی شعبے پر سماجی بہبود کی ذمہ داری کے حوالے سے نہ صرف شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اِس ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے سیاحت اور سیاحت کی ترقی کے لئے کام کرنے والوں کو جامع لائحہ عمل وضع کرنا ہوگا‘ جس میں آثارقدیمہ کی اہمیت اور ایسے مقامات پر بھی سہولیات کی فراہمی کے لئے نشاندہی کرنا ہوگی‘ جن پر عرصہ دراز سے توجہ نہیں دی گئی۔
خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں جنگلات کی کٹائی پر اگرچہ پابندی عائد ہے لیکن اِس پابندی پر سختی سے عمل درآمد سڑک کے کنارے کنارے یا اُن وادیوں کی حد تک محدود ہے جو شاہراؤں کے کنارے آباد ہیں۔ پہاڑوں کی اوٹ میں جنگلات کی کٹائی آج بھی پورے دھرلے سے کی جاتی ہے اور اگر کسی کو یقین نہ آئے تو غیرروائتی راستوں پر سفر کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے دیہات میں رہنے والے بڑے دل کے لوگوں سے بات چیت کرے‘ جن کے سینوں میں ایسے آنکھوں دیکھے واقعات محفوظ ہیں کہ بیان نہیں کئے جاسکتے۔

 لمبی لمبی لینڈ کروزر گاڑیوں میں سفر کرنے اور پرآسائش زندگی بسر کرنے والوں کے کئی نامور سیاسی شخصیات اور افسرشاہی کی حرص و طمع اور ترقی کا راز آپ پر بھی عیاں ہو جائے گا۔ چونکہ ہمارے ہاں بجلی کی کمی کا مسئلہ جلد حل ہونے والا نہیں لہٰذا اگر خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں کے موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایبٹ آباد کو ’ایجوکیشن سٹی‘ قرار دیا جائے اور ملحقہ گلیات میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے سرائے خانے نہیں بلکہ تدریسی کیمپس بنائے جائیں تو پورے ملک سے طلباء و طالبات زیادہ بڑی تعداد میں اِن علاقوں کا رُخ کریں گے۔ تعلیم اور سیاحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری اور سیاحت کے لامحدود امکانات کی جانب توجہ مبذول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment