ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مگر اُو مکرر پشاور کجا اَست؟
مگر اُو مکرر پشاور کجا اَست؟
یوم آزادی (چودہ اگست) سے چند روز قبل ہندو برادری نے رنگارنگ ’رکشا بندھن‘
کا تہوار اپنے اہل خانہ اور ملک و قوم کی سلامتی کی دعاؤں کے ساتھ مذہبی
جوش و جذبے اور روائتی تیاریوں کے ساتھ منایا۔ اِس موقع پر عبادت گاہوں
(مندروں) اور رہائشگاہوں کو خوبصورتی سے سجایا گیا اور بہنوں نے اپنے
بھائیوں کی کلائی پر ’رکشا بندھن (راکھی پرنیما)‘ کی مناسبت سے ’راکھیاں
(رنگ برنگے کپڑوں اور موتیوں سے جڑا ہوا مخصوص زیور)‘ باندھا‘ ماتھے پر تلک
(سیندور یا سرخ رنگ سے لگایا جانے والا نشان) لگایاجو ایک دوسرے کے لئے
محبت و عقیدت کا اظہار اور اِس عہد کی تجدید تھا کہ آنے والے دنوں میں وہ
ایک دوسرے کا پہلے سے زیادہ بڑھ کر خیال رکھیں گے۔ اِس موقع پر عید کارڈز
کی طرز پر کارڈز اور تحائف کا تبادلہ بھی کیا جاتا ہے۔ رکشا بندھن مل
بیٹھنے (سماجی طورپر اکٹھ)کا ایک موقع بھی ہے‘ جسے تہوار کے طور پر منانے
کے دیگر حصوں کی طرح پشاور میں بھی ’رکشابندھن‘ کا تہوار ’گورگٹھڑی‘ کے
احاطے میں واقع ’گورگھ ناتھ مندر‘ میں منایا گیا‘ جسے اِس تہوار کی مناسبت
سے شایان شان طورپر سجایا گیا تھا۔ صدیوں پرانے اِس مندر کو خصوصی پوجا
(عبادت) کے لئے کھول دیا گیا اور صرف پشاور ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے
مختلف حصوں سے ہندو مذہب کے ماننے والوں کا اجتماع اِس مقام پر ہونا اپنی
جگہ اہمیت رکھتا ہے‘ جنہوں نے بلاخوف و خطر اور پوری آزادی کے ساتھ اپنی
مذہبی رسومات اَدا کیں۔
دیکھا جائے تو پشاور ایک گلدستے کی مانند ہے۔ یہاں ہر مذہب اور فرقے کے لوگ آباد ہیں اور ایک خاص قسم کی مذہبی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے بارے میں برداشت پائی جاتی ہے تاہم بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد چند ایک واقعات ایسے پیش آئے جن میں اقلیتی برادری ہی نہیں بلکہ اکثریتی فرقے کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تو یقینی طورپر اس کے درپردہ وہ عناصر تھے جو پاکستان کو داخلی انتشار کے ذریعے کمزور کرنے کی خواہش رکھتے تھے اور انہیں پاکستان سے بغضب رکھنے والی بیرونی طاقتوں کا مالی و تکنیکی تعاون حاصل رہا ہے تاہم شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی ’ضرب عضب‘ کے آغاز سے محض چند ہی ہفتوں میں عسکریت پسندوں کی طاقت منتشر کر دی گئی ہے جو کسی ہدف کو حاصل کرنے کی تیزترین مثال اور پاک فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے ہندو برادری کی طرف سے دائر ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے 15ستمبر 2011ء کے روز حکم دیا کہ سترہویں صدی میں تعمیر ہونے والا ’گورگھ ناتھ مندر‘ ہندوؤں کے حوالے کر دیا جائے۔ اِس سے قبل پشاور شہر میں رہنے والے متصل چھاؤنی کے علاقہ ’آر اے بازار‘ میں عبادت کے لئے گھنٹوں کی مسافت طے کرکے جایا کرتے تھے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی زیرنگرانی ’گورگھ ناتھ مندر‘ میں حسب عدالتی حکم ہندوؤں کو عبادت کرنے کی تو اجازت ہے لیکن وہ اِس میں مستقل قیام نہیں کر سکتے اگرچہ اِس میں قدیمی رہائشی کمروں کو بڑی توجہ اور کمال مہارت کے ساتھ پھر سے بحال کر دیا گیا ہے اور ان کی تعمیر و مرمت و بحالی کر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے ہیں لیکن چونکہ یہ مندر ’آثار قدیمہ‘ میں شمار کیا جاتا ہے اور ’گورگٹھڑی‘ (ایک مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی عمارت)‘ کو پاکستان کا پہلا ’آرکیالوجیکل پارک‘ بنانے اور اس میں تعمیر ہونے والی مختلف حالیہ تعمیرات (تجاوزات) ختم کرنے کی سنجیدہ کوششیں جاری ہیں اِس لئے متعلقہ ماہرین باقی ماندہ آثار قدیمہ کی حفاظت کو لیکر بہت حساس ہیں اور نہیں چاہتے کہ کسی بھی صورت پشاور کے اِن تعمیراتی اثاثوں کو نقصان پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ ’گورگھ ناتھ مندر‘ کے رہائشی استعمال کی اجازت نہیں دی گئی اور ہندو برادری کی نمائندگی کرنے والے ایک خاندان کو اِس کا رکھوالا بنا کر مندر کی صفائی‘ دیکھ بھال اور حسب ضرورت استعمال کی غیرمشروط اجازت دی گئی ہے۔
پشاور میں رہنے والے ہندؤں کے لئے ’گورگھ ناتھ مندر‘ کئی لحاظ سے اہم ہے۔ یہاں مجموعی طورپر چھ دیوتاؤں کے مندر ہیں جن میں ’شیو مندر‘ بالخصوص ان کی توجہ کا مرکز رہتا ہے اور دور دراز علاقوں سے ماضی کی طرح آج بھی اِس مقام پر جمع ہونے والوں کے چہرے فرط جذبات سے دہک رہے ہوتے ہیں۔ پشاور ہندو مذہب کے ماننے والوں کے لئے مقدس مقام ہے‘ یہیں سے اُس بدھ مت کی ابتدأ ہوئی‘ جس کے کروڑوں ماننے والے بھارت سے امریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر پشاور میں دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی بحالی اور تحفظ دیا جائے تو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک سے بڑی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کریں گے۔ ’مذہبی سیاحت‘ کی اصطلاح پہلے ہی ایجاد ہو چکی ہے اور اسے صنعت کا درجہ دے کر کئی ممالک مالی فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ سیاحت ہماری ضرورت ہے‘ جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے علاؤہ معاشی سرگرمیوں میں تیزی آتی ہے۔ گورگھ ناتھ مندر کی عمارت اور اس کے احاطے میں مقدس مقامات کو تو بحال کر دیا گیا ہے لیکن وہاں فراہم کی جانے والی سہولیات ناکافی ہیں۔ مندر کے احاطے میں ایک قدیم کنواں موجود ہے‘ جہاں ماضی میں برصغیر پاک وہند کے طول و عرض سے ہندو سالانہ یاترا کے لئے جمع ہوتے تھے۔ اِسی طرح ’چاچا یونس پارک‘ میں بھی ہندوؤں کا سالانہ اجتماع ہوا کرتا تھا تاہم وہاں مندر کے آثار اور تالاب آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ ضرورت پشاور کو سمجھنے اور یہاں کی اہمیت کا ادارک کرنے کی ہے۔
گلی کوچوں میں موجود کئی ایک مندر انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں جن میں چند ایک پر قبضہ بھی ہوچکا ہے‘ جس پر دبے الفاظ میں گلہ کرنے والے ہندو‘ اپنے اشنان گھاٹ اور مندروں کی واپسی چاہتے ہیں۔ کم مالی وسائل اور یومیہ بنیادوں پر ملازمت پیشہ ہندو برادری کی اکثریت اس بات کی سکت نہیں رکھتی کہ وہ انصاف حاصل کرنے کے لئے مہنگے عدالتی نظام کا سہارا لے۔ صوبائی حکومت سے التجا ہے کہ وہ محکمہ آثار قدیمہ و سیاحت سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے علاؤہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والوں کو بھی اُس مشاورتی عمل کا حصہ بنائے‘ جس میں اُن کی عبادت گاہوں سے متعلق کلیدی فیصلے کئے جاتے ہیں۔ آخر یہ کہاں کا انصاف اور مذہبی رواداری ہے کہ ایک ہی عمارت میں آمنے سامنے دو عبادت گاہیں ہوں اور ایک میں تو صرف عبادت کی اجازت دی جائے جبکہ دوسرے میں قیام پذیر خاندان سرکاری خرچ پر سہولیات سے فائدہ اُٹھا رہا ہو! ’’معطر معطر پشاور کجا اَست: پشاور پشاور‘ پشاور کجا اَست: منم اَز کسے اِیں فراموش نہ ہی: مگر اُو مکرر‘ پشاور کجا اَست!‘‘
دیکھا جائے تو پشاور ایک گلدستے کی مانند ہے۔ یہاں ہر مذہب اور فرقے کے لوگ آباد ہیں اور ایک خاص قسم کی مذہبی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے بارے میں برداشت پائی جاتی ہے تاہم بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد چند ایک واقعات ایسے پیش آئے جن میں اقلیتی برادری ہی نہیں بلکہ اکثریتی فرقے کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تو یقینی طورپر اس کے درپردہ وہ عناصر تھے جو پاکستان کو داخلی انتشار کے ذریعے کمزور کرنے کی خواہش رکھتے تھے اور انہیں پاکستان سے بغضب رکھنے والی بیرونی طاقتوں کا مالی و تکنیکی تعاون حاصل رہا ہے تاہم شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی ’ضرب عضب‘ کے آغاز سے محض چند ہی ہفتوں میں عسکریت پسندوں کی طاقت منتشر کر دی گئی ہے جو کسی ہدف کو حاصل کرنے کی تیزترین مثال اور پاک فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے ہندو برادری کی طرف سے دائر ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے 15ستمبر 2011ء کے روز حکم دیا کہ سترہویں صدی میں تعمیر ہونے والا ’گورگھ ناتھ مندر‘ ہندوؤں کے حوالے کر دیا جائے۔ اِس سے قبل پشاور شہر میں رہنے والے متصل چھاؤنی کے علاقہ ’آر اے بازار‘ میں عبادت کے لئے گھنٹوں کی مسافت طے کرکے جایا کرتے تھے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی زیرنگرانی ’گورگھ ناتھ مندر‘ میں حسب عدالتی حکم ہندوؤں کو عبادت کرنے کی تو اجازت ہے لیکن وہ اِس میں مستقل قیام نہیں کر سکتے اگرچہ اِس میں قدیمی رہائشی کمروں کو بڑی توجہ اور کمال مہارت کے ساتھ پھر سے بحال کر دیا گیا ہے اور ان کی تعمیر و مرمت و بحالی کر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے ہیں لیکن چونکہ یہ مندر ’آثار قدیمہ‘ میں شمار کیا جاتا ہے اور ’گورگٹھڑی‘ (ایک مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی عمارت)‘ کو پاکستان کا پہلا ’آرکیالوجیکل پارک‘ بنانے اور اس میں تعمیر ہونے والی مختلف حالیہ تعمیرات (تجاوزات) ختم کرنے کی سنجیدہ کوششیں جاری ہیں اِس لئے متعلقہ ماہرین باقی ماندہ آثار قدیمہ کی حفاظت کو لیکر بہت حساس ہیں اور نہیں چاہتے کہ کسی بھی صورت پشاور کے اِن تعمیراتی اثاثوں کو نقصان پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ ’گورگھ ناتھ مندر‘ کے رہائشی استعمال کی اجازت نہیں دی گئی اور ہندو برادری کی نمائندگی کرنے والے ایک خاندان کو اِس کا رکھوالا بنا کر مندر کی صفائی‘ دیکھ بھال اور حسب ضرورت استعمال کی غیرمشروط اجازت دی گئی ہے۔
پشاور میں رہنے والے ہندؤں کے لئے ’گورگھ ناتھ مندر‘ کئی لحاظ سے اہم ہے۔ یہاں مجموعی طورپر چھ دیوتاؤں کے مندر ہیں جن میں ’شیو مندر‘ بالخصوص ان کی توجہ کا مرکز رہتا ہے اور دور دراز علاقوں سے ماضی کی طرح آج بھی اِس مقام پر جمع ہونے والوں کے چہرے فرط جذبات سے دہک رہے ہوتے ہیں۔ پشاور ہندو مذہب کے ماننے والوں کے لئے مقدس مقام ہے‘ یہیں سے اُس بدھ مت کی ابتدأ ہوئی‘ جس کے کروڑوں ماننے والے بھارت سے امریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر پشاور میں دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی بحالی اور تحفظ دیا جائے تو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک سے بڑی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کریں گے۔ ’مذہبی سیاحت‘ کی اصطلاح پہلے ہی ایجاد ہو چکی ہے اور اسے صنعت کا درجہ دے کر کئی ممالک مالی فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ سیاحت ہماری ضرورت ہے‘ جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے علاؤہ معاشی سرگرمیوں میں تیزی آتی ہے۔ گورگھ ناتھ مندر کی عمارت اور اس کے احاطے میں مقدس مقامات کو تو بحال کر دیا گیا ہے لیکن وہاں فراہم کی جانے والی سہولیات ناکافی ہیں۔ مندر کے احاطے میں ایک قدیم کنواں موجود ہے‘ جہاں ماضی میں برصغیر پاک وہند کے طول و عرض سے ہندو سالانہ یاترا کے لئے جمع ہوتے تھے۔ اِسی طرح ’چاچا یونس پارک‘ میں بھی ہندوؤں کا سالانہ اجتماع ہوا کرتا تھا تاہم وہاں مندر کے آثار اور تالاب آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ ضرورت پشاور کو سمجھنے اور یہاں کی اہمیت کا ادارک کرنے کی ہے۔
گلی کوچوں میں موجود کئی ایک مندر انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں جن میں چند ایک پر قبضہ بھی ہوچکا ہے‘ جس پر دبے الفاظ میں گلہ کرنے والے ہندو‘ اپنے اشنان گھاٹ اور مندروں کی واپسی چاہتے ہیں۔ کم مالی وسائل اور یومیہ بنیادوں پر ملازمت پیشہ ہندو برادری کی اکثریت اس بات کی سکت نہیں رکھتی کہ وہ انصاف حاصل کرنے کے لئے مہنگے عدالتی نظام کا سہارا لے۔ صوبائی حکومت سے التجا ہے کہ وہ محکمہ آثار قدیمہ و سیاحت سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے علاؤہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والوں کو بھی اُس مشاورتی عمل کا حصہ بنائے‘ جس میں اُن کی عبادت گاہوں سے متعلق کلیدی فیصلے کئے جاتے ہیں۔ آخر یہ کہاں کا انصاف اور مذہبی رواداری ہے کہ ایک ہی عمارت میں آمنے سامنے دو عبادت گاہیں ہوں اور ایک میں تو صرف عبادت کی اجازت دی جائے جبکہ دوسرے میں قیام پذیر خاندان سرکاری خرچ پر سہولیات سے فائدہ اُٹھا رہا ہو! ’’معطر معطر پشاور کجا اَست: پشاور پشاور‘ پشاور کجا اَست: منم اَز کسے اِیں فراموش نہ ہی: مگر اُو مکرر‘ پشاور کجا اَست!‘‘
No comments:
Post a Comment