ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِحساس کریں احساس
اِحساس کریں احساس
سب مسافر ہیں‘ جن کی قسمت میں سفر کرنا ہی لکھا ہے۔ ایک ہی منزل کے لئے سفر
در سفر۔ ’’ایک اُور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو: میں ایک دریا کے پار
اُترا تو میں نے دیکھا!‘‘ کاش ہم دیکھ ہی سکتے۔ ستاسٹھ برس کے سفر میں
تھکاوٹ کا احساس اور سودوزیاں کے بارے میں سوچتے ہوئے نظریں جمہوریت کے اُن
علم برداروں پر آن ٹکی ہیں‘ جو تبدیلی‘ انقلاب اور قوم کو آزادی دلانے کے
لئے اپنے اپنے جمہوری حقوق کا استعمال پورے دھرلے سے کر رہے ہیں اور کوئی
دلیل‘ جواز یا مائی کا لال انہیں روک نہیں سکا۔ آخر یہ ’حقوق‘ کس چڑیا کا
نام ہے؟ کیا یہ صرف انہی لوگوں کے لئے مخصوص ہیں جو اپنے ڈنکے کی چوٹ پر
اپنی بات منوانے کا ہنر جانتے ہیں؟ ہمارا نظام جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے
اصولوں پر کچھ اِس طرح استوار کیا گیا ہے کہ ہزاروں افراد لاکھوں جبکہ
لاکھوں افراد کروڑوں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اِس لمحہ فکر پر چند لمحے
رک کر ہمارے انتخابی نظام پر نظر کیجئے۔ کسی بھی قومی و صوبائی اسمبلی کے
حلقے میں کامیاب قرار دیئے جانے والے اُمیدوار کے مقابلے مدمقابل
اُمیدواروں کے مجموعی ووٹ زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر انتخابی عمل سے علیحدگی
اختیار کرنے والوں کی بڑی تعداد اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرتی اور
منتخب ہونے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اُنہیں اقلیت کی حمایت حاصل ہے ناکہ
اکثریت کی۔ یہ کیسے جائز اور جمہوری ہو گیا کہ کسی حلقے کے اقلیتی عوام کی
رائے سبھی پر مسلط کر دی جائے؟ (صرف انتخابی ہی نہیں بلکہ انتظامی نظام بھی
اصلاحات چاہتا ہے!)
جس ملک میں حکمراں طبقے کے حقوق کی ادائیگی ہوتی ہو وہاں ’ہم عوام‘ یعنی مجھ اور آپ جیسے لاچار لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کون کرے گا؟ تنخواہ سے زیادہ بجلی کا ماہانہ بل کہاں سے ادا ہو گا؟ بچے کی سکول فیس میں سو فیصداضافہ کرنے کا جواز کون پوچھے گا؟ گوشت سے سبزی اور اب سبزی خریدنے کی سکت بھی نہ پانے والے کیا کھائیں گے؟ بیروزگار کنبوں کی کفالت کیسے کریں گے؟ کیا ہم یہ پوچھنے کی بھی جرأت نہیں رکھتے کہ ہم عوام کے صحت و تعلیم اور پینے کے صاف پانی جیسے آئینی حقوق مقدس سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ ادا کیوں نہیں ہو رہے؟کیا ہمیں صرف اور صرف فرائض کی انجام دہی اور ہر حکم بجا لانے سے مزید کچھ ملنے کا حق حاصل نہیں؟ ہمارا فرض ہے کہ بناء چوں چراں ان باحقوق حضرات کی اندھی تقلید کیا کریں؟
نتیجۂ خیال یہ ہے کہ محکوم و غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے آزادی حاصل ہونے کے باوجود اب تک ہماری سوچ غلام گردشوں سے باہر نہیں نکل پائی‘ یہی وجہ ہے کہ اہلیت اور کارکردگی سے عام آدمی کی آشنائی نہ ہونے کے برابر ہے۔اب ایسی صورت میں ہمارے پاس شخصی آئیڈیل ازم کے علاؤہ اور کیا ایسا باقی رہ جاتا ہے جس پر اعتقاد کیا جائے؟ ہمیں نجات دلانے کون اور کہاں سے آئے گا؟ ہم عوام کی حیثیت تو محض مداری کے اس جمورے (بندر) جیسی ہے جو ڈگڈگی کے اشارے پر چلتا ہے‘ جس مداری کی ڈگڈگی میں زیادہ دَم ہے‘ جمہوری جمورے اسی پر زیادہ اچھل کود کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اندھی تقلید ہمارا مقدر بن چکا ہے‘ جس پر شرمندگی احساس تک نہیں۔ مذہب‘ قومیت اور زبان کی تفریق نے ہمیں پہلے ہی بھلے برے کی تمیز بھلا دی تھی‘ جب سے ’تبدیلی‘ اور ’انقلاب‘ کی عینک چڑھائی ہے تب سے تو بالکل ہی آنکھوں کے اندھے اور عقل سے بہرے ہوگئے ہیں! کوئی ہمیں آپس میں لڑاتا ہے تو کوئی تشدد پر اُکسا رہا ہے۔ ہمارے خون سے رنگے ہاتھوں پر دستانے الگ سے چڑے ہوئے ہیں۔ کسی نے ہمیں رنگ و نسل کی بنیادوں پرتقسیم کر دیا ہے تو کسی کے لئے ہم صرف ووٹ ڈالنے والی مشین سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ کوئی ہمارے غموں پر مگرمچھ کے آنسو بہانے میں مصروف ہے تو کوئی ہم سے ہونے والی ناانصافیوں پر اپنی سیاست چمکا رہا ہے۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کی بھی کمی نہیں جو باقی ماندہ لوگوں کو تھانہ کچہری کے جال میں شکار کر لیتے ہیں۔ ہم آزاد ہیں لیکن فکری طور پر نہیں۔ ہمارے حقوق ہیں لیکن عملی طور پر اُن کی ادائیگی نہیں ہو رہی۔ ہمیں غاصبوں کا علم ہے لیکن ’’شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے!‘‘
ہمارے قومی دن‘ یک جہتی کی بجائے قوم کو تقسیم کرنے اور ایک دوسرے سے نفرت کے اظہار کا موقع نہیں ہونے چاہئیں۔ وفا کا تقاضا یہ ہے کہ ہم میں سے ایک اپنے قول و فعل کا احتساب کریں۔ گلہ موقع شناسوں سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہونا چاہئے کیونکہ ہماری ہی غلطیوں اور طبقات میں تقسیم در تقسیم کی وجہ نادیدہ و درپردہ طاقتیں حاوی ہو بیٹھی ہیں۔ کیا ہم اِس گھڑی اپنے آپ سے یہ عہد کر سکتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات (چاہے وہ وسط مدتی ہی کیوں نہ ہوں) ذات برادری‘ زبان و لسان اور گروہ یاقبیلے کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کریں گے۔ ہمیں یہ عہد کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ راتوں رات اَمیر بن جانے والے خاندانوں کی معتبر نہیں بلکہ اپنی غربت و مسائل کا جواز سمجھیں گے۔ اہلیت کی بجائے تعصب کو ہوا دینے والی سیاست کی گرداب سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے کی بجائے اِس میں گرنے اور دوسروں کو بچائیں گے۔ یہی دِگرگوں (کرکیچن) حالات کا تقاضا اور اِجتماعی قومی ذمہ داری ہے۔
جس ملک میں حکمراں طبقے کے حقوق کی ادائیگی ہوتی ہو وہاں ’ہم عوام‘ یعنی مجھ اور آپ جیسے لاچار لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کون کرے گا؟ تنخواہ سے زیادہ بجلی کا ماہانہ بل کہاں سے ادا ہو گا؟ بچے کی سکول فیس میں سو فیصداضافہ کرنے کا جواز کون پوچھے گا؟ گوشت سے سبزی اور اب سبزی خریدنے کی سکت بھی نہ پانے والے کیا کھائیں گے؟ بیروزگار کنبوں کی کفالت کیسے کریں گے؟ کیا ہم یہ پوچھنے کی بھی جرأت نہیں رکھتے کہ ہم عوام کے صحت و تعلیم اور پینے کے صاف پانی جیسے آئینی حقوق مقدس سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ ادا کیوں نہیں ہو رہے؟کیا ہمیں صرف اور صرف فرائض کی انجام دہی اور ہر حکم بجا لانے سے مزید کچھ ملنے کا حق حاصل نہیں؟ ہمارا فرض ہے کہ بناء چوں چراں ان باحقوق حضرات کی اندھی تقلید کیا کریں؟
نتیجۂ خیال یہ ہے کہ محکوم و غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے آزادی حاصل ہونے کے باوجود اب تک ہماری سوچ غلام گردشوں سے باہر نہیں نکل پائی‘ یہی وجہ ہے کہ اہلیت اور کارکردگی سے عام آدمی کی آشنائی نہ ہونے کے برابر ہے۔اب ایسی صورت میں ہمارے پاس شخصی آئیڈیل ازم کے علاؤہ اور کیا ایسا باقی رہ جاتا ہے جس پر اعتقاد کیا جائے؟ ہمیں نجات دلانے کون اور کہاں سے آئے گا؟ ہم عوام کی حیثیت تو محض مداری کے اس جمورے (بندر) جیسی ہے جو ڈگڈگی کے اشارے پر چلتا ہے‘ جس مداری کی ڈگڈگی میں زیادہ دَم ہے‘ جمہوری جمورے اسی پر زیادہ اچھل کود کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اندھی تقلید ہمارا مقدر بن چکا ہے‘ جس پر شرمندگی احساس تک نہیں۔ مذہب‘ قومیت اور زبان کی تفریق نے ہمیں پہلے ہی بھلے برے کی تمیز بھلا دی تھی‘ جب سے ’تبدیلی‘ اور ’انقلاب‘ کی عینک چڑھائی ہے تب سے تو بالکل ہی آنکھوں کے اندھے اور عقل سے بہرے ہوگئے ہیں! کوئی ہمیں آپس میں لڑاتا ہے تو کوئی تشدد پر اُکسا رہا ہے۔ ہمارے خون سے رنگے ہاتھوں پر دستانے الگ سے چڑے ہوئے ہیں۔ کسی نے ہمیں رنگ و نسل کی بنیادوں پرتقسیم کر دیا ہے تو کسی کے لئے ہم صرف ووٹ ڈالنے والی مشین سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ کوئی ہمارے غموں پر مگرمچھ کے آنسو بہانے میں مصروف ہے تو کوئی ہم سے ہونے والی ناانصافیوں پر اپنی سیاست چمکا رہا ہے۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کی بھی کمی نہیں جو باقی ماندہ لوگوں کو تھانہ کچہری کے جال میں شکار کر لیتے ہیں۔ ہم آزاد ہیں لیکن فکری طور پر نہیں۔ ہمارے حقوق ہیں لیکن عملی طور پر اُن کی ادائیگی نہیں ہو رہی۔ ہمیں غاصبوں کا علم ہے لیکن ’’شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے!‘‘
ہمارے قومی دن‘ یک جہتی کی بجائے قوم کو تقسیم کرنے اور ایک دوسرے سے نفرت کے اظہار کا موقع نہیں ہونے چاہئیں۔ وفا کا تقاضا یہ ہے کہ ہم میں سے ایک اپنے قول و فعل کا احتساب کریں۔ گلہ موقع شناسوں سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہونا چاہئے کیونکہ ہماری ہی غلطیوں اور طبقات میں تقسیم در تقسیم کی وجہ نادیدہ و درپردہ طاقتیں حاوی ہو بیٹھی ہیں۔ کیا ہم اِس گھڑی اپنے آپ سے یہ عہد کر سکتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات (چاہے وہ وسط مدتی ہی کیوں نہ ہوں) ذات برادری‘ زبان و لسان اور گروہ یاقبیلے کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کریں گے۔ ہمیں یہ عہد کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ راتوں رات اَمیر بن جانے والے خاندانوں کی معتبر نہیں بلکہ اپنی غربت و مسائل کا جواز سمجھیں گے۔ اہلیت کی بجائے تعصب کو ہوا دینے والی سیاست کی گرداب سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے کی بجائے اِس میں گرنے اور دوسروں کو بچائیں گے۔ یہی دِگرگوں (کرکیچن) حالات کا تقاضا اور اِجتماعی قومی ذمہ داری ہے۔
No comments:
Post a Comment