ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
داخلی و خارجی خطرات
داخلی و خارجی خطرات
حالیہ دنوں میں پاک ایران سرحد پر فائرنگ کے واقعات کے باعث تعلقات میں
کشیدگی دیکھی جا رہی تھی لیکن اسلام آباد میں ہوئی پاک ایران اعلیٰ سطحی
ملاقاتوں کے بعد توقع ہے کہ دوطرفہ دوستانہ روابط کو فروغ حاصل ہوگا۔
پاکستان کے دورے پر آئے نائب ایرانی وزیرخارجہ ابراہیم رحیم پور کی
پاکستانی مشیر خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز سے ملاقات اور دو طرفہ سیاسی
مشاورت کے آٹھویں دور میں شرکت کسی بھی لحاظ سے معمولی نہیں۔ دفتر خارجہ
کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ’’پاکستان اور ایران نے روابط اور
تعاون کے فروغ کے ذریعے اپنی سرحدوں پر امن برقرار رکھنے پر اتفاق کیا
ہے۔‘‘ یاد رہے کہ اکتوبر کے اوائل میں ایران نے کہا تھا کہ سرحد پار سے
مشتبہ عسکریت پسندوں نے فائرنگ کرکے اس کے دو سرحدی محافظوں کو ہلاک کر دیا
اور ایرانی عہدیداروں نے اسلام آباد پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین
تہران کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لئے مؤثر اقدامات کرے۔ پاکستان کا
مؤقف تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیتا
اور یہ واقعہ ایرانی علاقے میں ہی پیش آیا۔ بعد ازاں پاکستانی حکام نے
بتایا تھا کہ بلوچستان میں ایرانی سرحدی محافظوں نے پاکستانی علاقے میں گھس
کر فائرنگ کی اور اس میں دو پاکستانی سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔ ان واقعات
پر تلخ بیانات کے تبادلے کے باوجود دونوں ملکوں کے اعلیٰ عہدیدار یہ کہہ
چکے تھے کہ اس سے دوطرفہ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ اسلام آباد میں ہونے
والے مشاورتی اجلاس میں سیاسی وفود کے تبادلوں‘ اقتصادی و تجارتی تعاون‘
سرحد پر سکیورٹی میں تعاون سمیت پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے اور
توانائی کے شعبے میں تعاون پر بھی بات چیت کی گئی لیکن برسرزمین حقائق یہ
کہہ رہے ہیں کہ جمہوری اسلامی ایران سے حالیہ سرحدی جھڑپیں خطرے کی گھنٹی
ثابت ہوسکتی ہے‘ بالخصوص ایسے حالات میں جبکہ بھارت اور افغانستان سے جڑی
مشرقی و مغربی سرحدوں پر پہلے ہی حالات کشیدہ ہیں جہاں فائرنگ کے تبادلے کے
علاؤہ سرحد پار سے عسکریت پسند آپریشن ’ضرب عضب‘ پر اثرانداز ہونے کی کوشش
کر رہے ہیں۔ دفاعی امور پر نظر رکھنے والوں کے مطابق بھارت سے جھڑپیں کوئی
نئی بات نہیں مگر ایران کے ساتھ ایسا ہونا معمول کے ناخوشگوار سفارتی
بیانات سے ذرا ہٹ کر ہے‘ اس کی وجہ سے اس حقیقت پر توجہ مرکوز نہیں ہوپارہی
کہ پاک ایران تعلقات میں مسلسل بگاڑ آرہا ہے اور یہ سلسلہ آنے والے مہینوں
میں بھی برقرار رہ سکتا ہے۔
رواں برس پاک ایران باہمی تعلقات میں متعدد رکاوٹیں آئیں جن میں انتہائی ضروری پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی معطلی بھی شامل ہے۔ پشاور میں ایرانی قونصل خانے کے باہر خودکش حملہ جبکہ فروری میں پانچ ایرانی فوجیوں کو مبینہ طور پر پاکستانی عسکریت پسندوں نے اغوأ کرلیا۔ یہ سب حالات وزیراعظم نواز شریف کی قیادت کے دور میں سامنے آرہے ہیں‘ نواز لیگ کے قائد سعودی عربکے قریب ہیں‘ جس کا اظہار رواں برس شام میں اسد حکومت کے خلاف مؤقف اورسعودی عرب سے مارچ میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کی امداد ملنا‘ تہران کی نظر میں پاکستان کے کردار کو مشکوک کر رہا ہے۔ رواں برس کے اوائل میں ایسا نظر آتا تھا کہ پاکستان اور ایران شام میں مخالف فریقوں کی پشت پناہی کا خطرہ مول لے رہے ہیں‘ تاہم ریاست اسلامیہ (داعش) کی صورت تحریک کی فعالیت کے بعد جو ایران اور سعودی عرب دونوں کے لئے مشترکہ خطرہ ہے‘ خطے کے روایتی تناظر میں تبدیلی آئی ہے مگر وزیراعظم کی ذاتی ترجیحات پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز نہیں ہونا چاہئے‘ خاص طور پر ایک ایسے نازک وقت پر جبکہتہران سے سفارتی تنازع کسی بھی طرح پاکستان کے حق میں بہتر نہیں۔
ایران اس وقت پھر سے ابھر رہا ہے اور وہ دوبارہ خطے کا ’ہیوی ویٹ ملک‘ بننا چاہتا ہے‘ وہ خود کو ایسی طاقت تسلیم کراچکا ہے جو شام کے صدر بشارالاسد حکومت کو مؤثر معاونت فراہم کر رہا ہے۔ جوہری تنازعے پر عالمی طاقتوں سے جاری مذاکرات سے بتدریج اقتصادی پابندیوں میں کمی اور مغربی طاقتوں سے ایران کے سفارتی روابط میں اضافہ جبکہ آنے والے دنوں میں عراق میں ریاست اسلامیہ کے سراٹھانے کے بعد ایران کا مغرب سے تکنیکی اتحاد مستقبل میں اس کے لئے سودمند ثابت ہو سکتا ہے جس سے اُسے خطے میں زیادہ اہم کردار ملے گا۔
ایران کی جانب سے طاقت بڑھانے کا عمل ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے‘ جب اسلام آباد اور تہران کی جانب سے افغانستان میں تبدیل ہوتی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران ایران نے اپنا اثررسوخ افغانستان کے مغربی صوبے ہرات سے آگے بڑھایا اور اب اس کے افغان سرزمین پر اہم تجارتی و سرمایہ کارانہ مفادات موجود ہیں‘ اس کے علاؤہ وہ افغان ذرائع ابلاغ کے اداروں پر بھی اپنا قوئ اثررسوخ رکھتاہے اور اس کے روابط افغانستان کی نئی قومی متحدہ حکومت کے اعلیٰ سطح تک ہیں۔ اس وقت جب افغان سیاست میں نسلی صفوں کا اثر تیزی سے بڑھ رہا ہے اور مخالف سیاسی کیمپوں کے درمیان خانہ جنگی دوبارہ سر اٹھارہی ہے‘ پاکستان اور ایران ممکنہ طور پر خود کو مخالف کیمپس میں کھڑے پاسکتے ہیں۔ تہران کی جانب سے افغان ہزارہ کی حمایت کی جارہی ہے جبکہ اسلام آباد جنوبی اور مشرقی صوبوں میں طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔ اس تناظر میں پاک ایران تعلقات میں بگاڑ(روایتی مخالفت اور خطے کا ابھرتا منظر) ممکنہ طور پر افغانستان میں عدم استحکام کا سبب بنے گا۔ اس کے علاؤہ اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی اندرونی چیلنجز کا اظہار ہے۔ ایران نے بلوچستان سے عسکریت پسندوں کے سرحد پار حملوں کا الزام عائد کیا اور بلوچستان کی خوفناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ دعویٰ مبالغہ انگیز بھی نہیں لگتا۔ فرقہ وارانہ عسکریت پسند گروپس پوری آزادی کے ساتھ بلوچستان میں سرگرم ہیں اور ہزارہ و دیگر گروہوں کو ظالمانہ طریقے سے قتل کررہے ہیں اور یہ خیال تصوراتی نہیں کہ ایرانی عسکریت پسند بھی بلوچستان میں ٹھکانے بنانے کے خواہشمند ہوں۔
فرقہ وارانہ تشدد میں حالیہ اضافہ پاکستان کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے‘ اس وقت جب مشرق وسطیٰ تنازعات اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہورہا ہے‘ پاکستان کو اس تنازع سے باہر رہنے کی ہرممکن کوشش کرنا چاہئے۔ پاکستان‘ ایران کے بعد شیعوں کی آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے‘ پاک سرزمین پر فرقہ وارانہ تشدد ملکی وجود کے لئے یقیناًخطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ایران سے مضبوط باہمی تعلق اور داخلی محاذ پر فرقہ ورایت کو شکست دینا ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہئے۔
رواں برس پاک ایران باہمی تعلقات میں متعدد رکاوٹیں آئیں جن میں انتہائی ضروری پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی معطلی بھی شامل ہے۔ پشاور میں ایرانی قونصل خانے کے باہر خودکش حملہ جبکہ فروری میں پانچ ایرانی فوجیوں کو مبینہ طور پر پاکستانی عسکریت پسندوں نے اغوأ کرلیا۔ یہ سب حالات وزیراعظم نواز شریف کی قیادت کے دور میں سامنے آرہے ہیں‘ نواز لیگ کے قائد سعودی عربکے قریب ہیں‘ جس کا اظہار رواں برس شام میں اسد حکومت کے خلاف مؤقف اورسعودی عرب سے مارچ میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کی امداد ملنا‘ تہران کی نظر میں پاکستان کے کردار کو مشکوک کر رہا ہے۔ رواں برس کے اوائل میں ایسا نظر آتا تھا کہ پاکستان اور ایران شام میں مخالف فریقوں کی پشت پناہی کا خطرہ مول لے رہے ہیں‘ تاہم ریاست اسلامیہ (داعش) کی صورت تحریک کی فعالیت کے بعد جو ایران اور سعودی عرب دونوں کے لئے مشترکہ خطرہ ہے‘ خطے کے روایتی تناظر میں تبدیلی آئی ہے مگر وزیراعظم کی ذاتی ترجیحات پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز نہیں ہونا چاہئے‘ خاص طور پر ایک ایسے نازک وقت پر جبکہتہران سے سفارتی تنازع کسی بھی طرح پاکستان کے حق میں بہتر نہیں۔
ایران اس وقت پھر سے ابھر رہا ہے اور وہ دوبارہ خطے کا ’ہیوی ویٹ ملک‘ بننا چاہتا ہے‘ وہ خود کو ایسی طاقت تسلیم کراچکا ہے جو شام کے صدر بشارالاسد حکومت کو مؤثر معاونت فراہم کر رہا ہے۔ جوہری تنازعے پر عالمی طاقتوں سے جاری مذاکرات سے بتدریج اقتصادی پابندیوں میں کمی اور مغربی طاقتوں سے ایران کے سفارتی روابط میں اضافہ جبکہ آنے والے دنوں میں عراق میں ریاست اسلامیہ کے سراٹھانے کے بعد ایران کا مغرب سے تکنیکی اتحاد مستقبل میں اس کے لئے سودمند ثابت ہو سکتا ہے جس سے اُسے خطے میں زیادہ اہم کردار ملے گا۔
ایران کی جانب سے طاقت بڑھانے کا عمل ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے‘ جب اسلام آباد اور تہران کی جانب سے افغانستان میں تبدیل ہوتی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران ایران نے اپنا اثررسوخ افغانستان کے مغربی صوبے ہرات سے آگے بڑھایا اور اب اس کے افغان سرزمین پر اہم تجارتی و سرمایہ کارانہ مفادات موجود ہیں‘ اس کے علاؤہ وہ افغان ذرائع ابلاغ کے اداروں پر بھی اپنا قوئ اثررسوخ رکھتاہے اور اس کے روابط افغانستان کی نئی قومی متحدہ حکومت کے اعلیٰ سطح تک ہیں۔ اس وقت جب افغان سیاست میں نسلی صفوں کا اثر تیزی سے بڑھ رہا ہے اور مخالف سیاسی کیمپوں کے درمیان خانہ جنگی دوبارہ سر اٹھارہی ہے‘ پاکستان اور ایران ممکنہ طور پر خود کو مخالف کیمپس میں کھڑے پاسکتے ہیں۔ تہران کی جانب سے افغان ہزارہ کی حمایت کی جارہی ہے جبکہ اسلام آباد جنوبی اور مشرقی صوبوں میں طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔ اس تناظر میں پاک ایران تعلقات میں بگاڑ(روایتی مخالفت اور خطے کا ابھرتا منظر) ممکنہ طور پر افغانستان میں عدم استحکام کا سبب بنے گا۔ اس کے علاؤہ اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی اندرونی چیلنجز کا اظہار ہے۔ ایران نے بلوچستان سے عسکریت پسندوں کے سرحد پار حملوں کا الزام عائد کیا اور بلوچستان کی خوفناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ دعویٰ مبالغہ انگیز بھی نہیں لگتا۔ فرقہ وارانہ عسکریت پسند گروپس پوری آزادی کے ساتھ بلوچستان میں سرگرم ہیں اور ہزارہ و دیگر گروہوں کو ظالمانہ طریقے سے قتل کررہے ہیں اور یہ خیال تصوراتی نہیں کہ ایرانی عسکریت پسند بھی بلوچستان میں ٹھکانے بنانے کے خواہشمند ہوں۔
فرقہ وارانہ تشدد میں حالیہ اضافہ پاکستان کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے‘ اس وقت جب مشرق وسطیٰ تنازعات اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہورہا ہے‘ پاکستان کو اس تنازع سے باہر رہنے کی ہرممکن کوشش کرنا چاہئے۔ پاکستان‘ ایران کے بعد شیعوں کی آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے‘ پاک سرزمین پر فرقہ وارانہ تشدد ملکی وجود کے لئے یقیناًخطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ایران سے مضبوط باہمی تعلق اور داخلی محاذ پر فرقہ ورایت کو شکست دینا ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment