ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
غذا کا ضیاع
غذا کا ضیاع
ہم اپنے مسائل کے لئے خود بلکہ خود ہی ذمہ دار ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو
زراعت اور ماحول جیسے وسائل اور متعلقہ علوم میں مہارت رکھنے والی دنیا
غربت و افلاس کی مثالوں سے بھری ہوئی نہ ہوتی۔ ہماری ترجیح ہتھیار ہیں۔
ہمیں ہمارے ہی پیدا کردہ تنازعات نے جھکڑ رکھا ہے اور کچھ ایسی اقوام بھی
ہیں جو دنیا بھر میں فسادات کو ہوا دے کر ’کاروبار‘ میں ملوث ہیں‘ تاکہ اُن
کے ہتھیارساز اداروں کی بھٹیاں اور چمنیاں ٹھنڈیاں نہ پڑیں تو اگر ہم یہ
سب جانتے بھی ہیں اور اپنے اردگرد ہونے والی سازشوں کی بنیادی وجوہات کا
ادراک بھی رکھتے ہیں تو کیا امر مانع ہے‘ جس نے ہمارے وسائل کا استحصال اور
ہماری آزادی کو محکومیت میں بدل دیا ہے؟
کیا یہ بات لمحہ فکریہ نہیں کہ ترقی یافتہ اور خود کو تہذیب یافتہ کہلانے والے ممالک ہر سال خوراک کی اِس قدر مقدار ضائع کر دیتے ہیں جس سے دو ارب لوگوں کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں؟ یہ بات ایک عالمی جائزے سے سامنے آئی ہے کہ دنیا میں بھوک و افلاس اجناس کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانوں کو انسانوں کا احساس نہیں رہا۔ سیاست حاوی ہے۔ اقوام اپنے ہی مقرر کردہ اہداف کے بارے میں سوچتے ہوئے خودغرضی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ خوراک کے یوں زیاں کو روکنے کے اقوامِ متحدہ کے اداروں کی قیادت میں ایک نیا پلیٹ فارم تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ دنیا بھر کے کم سے کم 80کروڑ لوگوں کا پیٹ بھرا جاسکے۔گوکہ خوراک کے زیاں کی روک تھام کے لئے اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی ادارے سرگرم عمل ہیں مگر اِن اداروں کی جانب سے کی جانے والی مساعی بھی اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی روک تھام میں بُری طرح ناکام رہی ہیں۔
دنیا بھر میں جہاں لاکھوں افراد بھوک سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں‘ وہیں کروڑوں لوگ لاکھوں ٹن خوراک ضائع کر دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے’’خوراک و زراعت‘‘ کے مطابق سالانہ ایک ارب تیس کروڑ ٹن خوراک ضائع ہو رہی ہے جو پوری دنیا میں پائی جانے والی خوراک کے تناسب سے تیس فیصد بنتی ہے۔ خوراک کا یہ زیاں روکنے کے لئے سرگرم ادارے کی جانب سے حال ہی میں ’آن لائن گیٹ وے‘ قائم کیا گیا جس میں کرہ ارض کے انسانوں کو خوراک کے ضیاع کے روک تھام کے مختلف طریقوں سے آگاہی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس ’گیٹ وے کے قیام‘ کا مقصد لوگوں میں خوراک کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے اجتماعی و انفرادی شعور میں اضافہ ہے جس کے لئے آگہی فراہم کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی۔ البتہ یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہو گی اس کا جواب وقت ہی دے گا۔
سوات سے تعلق رکھنے والے ماہرزراعت فضل مولا زاہد ’غذائی خودکفالت‘ اور خوراک کے ضائع ہونے کو روکنے کے لئے ایک عرصے تک فعال رہے لیکن بعدازاں آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ تحلیل کر دیئے جانے کے صدمے نے شاید اُنہیں خاموش کر دیا ہے لیکن ایک وقت میں وہ ہوٹلوں میں جا جا کر بچی ہوئی روٹیوں کو گنتے اور وہاں موجود افراد کو تلقین کرتے کہ وہ ایک ایک نوالے کی اہمیت کا احساس کریں۔ یہی کام بڑے پیمانے پر اقوام متحدہ نے کرنے کا آغاز کیا ہے‘ کاش ہم اپنے دانشوروں اور ماہرین کی قدر اور اُن کی اہمیت کو سمجھتے اور عالمی سطح پر انہیں متعارف کراتے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ صرف ترقی یافتہ ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں بھی خوراک ضائع نہ کرنے کے حوالے سے عمومی سطح پر شعور کی کمی ہے۔ عام آدمی کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے کچن میں کتنی خوراک ہرروز ضائع کر رہا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں نہ تو ذرائع ابلاغ عوام کی رہنمائی کرتے ہیں اور نہ ہی سکول‘ مکتب یا مسجد و منبر سے نصیحت واعظ یا تلقین کی جاتی ہے۔ حکومت نے تو گویا اِس بات کو اپنی ترجیحات ہی سے الگ کر دیا ہے کہ وہ سماج کی بہتری پر توجہ کرے۔ لے دے کر یہی کام رہ گیا ہے کہ اربوں روپے کے تعمیراتی منصوبوں کے بارے میں سوچا جائے‘ جن پر نام کی تختیاں سجانے کے ساتھ دیگر مالی و سیاسی مفادات بھی جڑے ہوتے ہیں۔
خوراک کے ہر ایک دانے کا استعمال کس طرح کیا جائے‘ اس بارے میں شعور اور آگاہی وہ پہلا قدم ہے جہاں سے خوراک بچانے کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ تحفظ خوراک کی آگاہی کے لئے قائم کردہ اقوام متحدہ کے گیٹ وے پر جیسے جیسے خوراک کو بچانے کی معلومات میں اضافہ ہوتا چلا گا‘ اُمید ہے کہ اسی مناسبت سے اس کا فائدہ بھی بڑھتا جائے اور خوراک کا ضیاع کم ہونے میں مدد ملے۔ عجب ہے کہ مہذب دنیا پھلوں اور اناج کا چالیس فیصد‘ سبزی کا بیس فیصد اور پکانے کے تیل و مچھلی وغیرہ کا پینتیس فیصد حصہ ضائع کر رہی ہے! یاد رہے کہ عالمی آبادی سات ارب سے زیادہ ہوچکی ہے اور اگر آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح برقرار رہی تو اندازہ ہے کہ سال بیس سو پچاس تک دنیا کی کل آبادی نو ارب تک پہنچ جائے گی۔ تب حکومتوں کے لئے خوراک کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہو گا جبکہ اس وقت بھی دنیا بھر میں پچاسی کروڑ انسان کو بھوک اور موت کا جبکہ اندازاً دو ارب انسان کم خوراکی کا شکار ہیں۔
پاکستان کی سطح پر خوراک کے ضائع ہونے کو روکنے اور غذائی خودکفالت بالخصوص خوردنی تیل کی فصلات پر توجہ دینے میں ہمیں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ وہ سبھی زرعی ماہرین جو گوشہ نشینی اختیار کر چکے ہیں‘ یہ منزل اور لمحۂ فکر اُن کے تجربات اور خدمات سے بھرپور استفادہ کرنے کا ہے۔ ’’ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن: خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک (اسد اللہ خان غالبؔ )
کیا یہ بات لمحہ فکریہ نہیں کہ ترقی یافتہ اور خود کو تہذیب یافتہ کہلانے والے ممالک ہر سال خوراک کی اِس قدر مقدار ضائع کر دیتے ہیں جس سے دو ارب لوگوں کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں؟ یہ بات ایک عالمی جائزے سے سامنے آئی ہے کہ دنیا میں بھوک و افلاس اجناس کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانوں کو انسانوں کا احساس نہیں رہا۔ سیاست حاوی ہے۔ اقوام اپنے ہی مقرر کردہ اہداف کے بارے میں سوچتے ہوئے خودغرضی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ خوراک کے یوں زیاں کو روکنے کے اقوامِ متحدہ کے اداروں کی قیادت میں ایک نیا پلیٹ فارم تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ دنیا بھر کے کم سے کم 80کروڑ لوگوں کا پیٹ بھرا جاسکے۔گوکہ خوراک کے زیاں کی روک تھام کے لئے اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی ادارے سرگرم عمل ہیں مگر اِن اداروں کی جانب سے کی جانے والی مساعی بھی اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی روک تھام میں بُری طرح ناکام رہی ہیں۔
دنیا بھر میں جہاں لاکھوں افراد بھوک سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں‘ وہیں کروڑوں لوگ لاکھوں ٹن خوراک ضائع کر دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے’’خوراک و زراعت‘‘ کے مطابق سالانہ ایک ارب تیس کروڑ ٹن خوراک ضائع ہو رہی ہے جو پوری دنیا میں پائی جانے والی خوراک کے تناسب سے تیس فیصد بنتی ہے۔ خوراک کا یہ زیاں روکنے کے لئے سرگرم ادارے کی جانب سے حال ہی میں ’آن لائن گیٹ وے‘ قائم کیا گیا جس میں کرہ ارض کے انسانوں کو خوراک کے ضیاع کے روک تھام کے مختلف طریقوں سے آگاہی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس ’گیٹ وے کے قیام‘ کا مقصد لوگوں میں خوراک کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے اجتماعی و انفرادی شعور میں اضافہ ہے جس کے لئے آگہی فراہم کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی۔ البتہ یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہو گی اس کا جواب وقت ہی دے گا۔
سوات سے تعلق رکھنے والے ماہرزراعت فضل مولا زاہد ’غذائی خودکفالت‘ اور خوراک کے ضائع ہونے کو روکنے کے لئے ایک عرصے تک فعال رہے لیکن بعدازاں آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ تحلیل کر دیئے جانے کے صدمے نے شاید اُنہیں خاموش کر دیا ہے لیکن ایک وقت میں وہ ہوٹلوں میں جا جا کر بچی ہوئی روٹیوں کو گنتے اور وہاں موجود افراد کو تلقین کرتے کہ وہ ایک ایک نوالے کی اہمیت کا احساس کریں۔ یہی کام بڑے پیمانے پر اقوام متحدہ نے کرنے کا آغاز کیا ہے‘ کاش ہم اپنے دانشوروں اور ماہرین کی قدر اور اُن کی اہمیت کو سمجھتے اور عالمی سطح پر انہیں متعارف کراتے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ صرف ترقی یافتہ ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں بھی خوراک ضائع نہ کرنے کے حوالے سے عمومی سطح پر شعور کی کمی ہے۔ عام آدمی کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے کچن میں کتنی خوراک ہرروز ضائع کر رہا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں نہ تو ذرائع ابلاغ عوام کی رہنمائی کرتے ہیں اور نہ ہی سکول‘ مکتب یا مسجد و منبر سے نصیحت واعظ یا تلقین کی جاتی ہے۔ حکومت نے تو گویا اِس بات کو اپنی ترجیحات ہی سے الگ کر دیا ہے کہ وہ سماج کی بہتری پر توجہ کرے۔ لے دے کر یہی کام رہ گیا ہے کہ اربوں روپے کے تعمیراتی منصوبوں کے بارے میں سوچا جائے‘ جن پر نام کی تختیاں سجانے کے ساتھ دیگر مالی و سیاسی مفادات بھی جڑے ہوتے ہیں۔
خوراک کے ہر ایک دانے کا استعمال کس طرح کیا جائے‘ اس بارے میں شعور اور آگاہی وہ پہلا قدم ہے جہاں سے خوراک بچانے کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ تحفظ خوراک کی آگاہی کے لئے قائم کردہ اقوام متحدہ کے گیٹ وے پر جیسے جیسے خوراک کو بچانے کی معلومات میں اضافہ ہوتا چلا گا‘ اُمید ہے کہ اسی مناسبت سے اس کا فائدہ بھی بڑھتا جائے اور خوراک کا ضیاع کم ہونے میں مدد ملے۔ عجب ہے کہ مہذب دنیا پھلوں اور اناج کا چالیس فیصد‘ سبزی کا بیس فیصد اور پکانے کے تیل و مچھلی وغیرہ کا پینتیس فیصد حصہ ضائع کر رہی ہے! یاد رہے کہ عالمی آبادی سات ارب سے زیادہ ہوچکی ہے اور اگر آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح برقرار رہی تو اندازہ ہے کہ سال بیس سو پچاس تک دنیا کی کل آبادی نو ارب تک پہنچ جائے گی۔ تب حکومتوں کے لئے خوراک کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہو گا جبکہ اس وقت بھی دنیا بھر میں پچاسی کروڑ انسان کو بھوک اور موت کا جبکہ اندازاً دو ارب انسان کم خوراکی کا شکار ہیں۔
پاکستان کی سطح پر خوراک کے ضائع ہونے کو روکنے اور غذائی خودکفالت بالخصوص خوردنی تیل کی فصلات پر توجہ دینے میں ہمیں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ وہ سبھی زرعی ماہرین جو گوشہ نشینی اختیار کر چکے ہیں‘ یہ منزل اور لمحۂ فکر اُن کے تجربات اور خدمات سے بھرپور استفادہ کرنے کا ہے۔ ’’ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن: خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک (اسد اللہ خان غالبؔ )
No comments:
Post a Comment