ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مؤثر پولیسنگ: ناگزیر اقدامات
مؤثر پولیسنگ: ناگزیر اقدامات
’کرشماتی جلدبازی‘ کو اِس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی ریل گاڑی کا
انجن کراچی جبکہ مسافر بوگیاں پشاور کے ریلوے اسٹیشن پر ہی کھڑی رہ جائیں۔
خیبرپختونخوا پولیس جہاں تعلیمی اِداروں کی سیکورٹی پر تمام تر توجہات اور
توانائیاں مرکوز کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف منظم جرائم پیشہ گروہوں نے اپنی
سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور پشاور کے ایک معروف تجارتی مرکز کے درجنوں
دکانداروں کو ایک ہی دن میں ’بھتے کی پرچیاں‘ تقسیم ہوئیں ہیں۔ توجہ طلب
بات یہ ہے کہ ’’لاکھوں کا تقاضا کرنے یا جانی و مالی نقصانات کی دھمکیاں‘
جن کاغذ کے ٹکڑوں پر تحریر تھیں اُنہیں ماضی کی طرح بذریعہ ڈاک اِرسال نہیں
کیا گیا بلکہ دیدہ دلیری سے ایک ’نامعلوم شخص‘ بناء منہ چھپائے‘ بناء کسی
خوف و خطرے‘ بازار کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پرچیاں بانٹنے کے بعد
’پراسرار انداز‘ میں ’’غائب‘‘ ہو گیا۔ عجب ہے کہ جب پہلے دکاندار کو پرچی
تھمائی گئی ہو گی اور وہ قاصد دوسری تیسری اور کم از کم پچاس میٹر لمبے
اور پرہجوم بازار میں راستہ بناتے بناتے آخری دکان تک پہنچا ہوگا تو عین
ممکن تھا کہ اُسے پکڑ (دھر) لیا جاتا اور اُسی کی نشاندہی پر بھتہ خوروں کے
پورے گروہ تک رسائی ممکن ہو جاتی۔ یاد رہے کہ مذکورہ بازار کے قریب ہی
قلعہ بالا حصار اور خان رازق شہید (تھانہ کابلی) پولیس چوکی جیسی حساس
تنصیبات جبکہ جی ٹی روڈ سے داخلے کے مقام پر پولیس کا ناکہ بھی ہمہ وقت
موجود رہتا ہے‘ جہاں پولیس اہلکار ہوں یا نہ ہوں! علاؤہ ازیں خوردنی اجناس
کی اِس تھوک و پرچون منڈی سے چونکہ مال و اسباب صوبے کے دیگر اضلاع کو
ترسیل ہوتی ہے اور یہاں اجناس کے ذخائر سے بھرے گودام بھی ہیں‘ اِس لئے
پولیس کے موٹرسائیکل سوار گشتی دستے یہاں پر موجود مالیاتی اداروں‘ کرنسی
ایکسچینجیز اور بینکوں کے اردگرد منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ علاؤہ ازیں جس
مارکیٹ میں بھتے کی پرچیاں بانٹی گئیں اُس کی پشت سرکاری سکول سے لگتی ہے‘
جو اپنی جگہ الگ نوعیت کا خطرہ ہے یقیناًسکول کی ہی زمین پر دکانیں تعمیر
کی گئیں ہوں گی اور ایسا ایک وقت میں پھلتے پھولتے پشاور کی ضرورت رہی ہو
گی لیکن جس انداز میں‘ حالیہ چند برس کے دوران پشاور شہر کی آبادی میں
اضافہ ہوا ہے‘ اُسے مدنظر رکھتے ہوئے جملہ تھوک و پرچون کی منڈیاں اور
اجناس کے گودام پشاور سے باہر منتقل ہونے چاہیءں کیونکہ مال برداری کے لئے
استعمال ہونے والی گھوڑا و جانورگاڑیوں‘ چھوٹے بڑے ٹرک اور ٹریلروں کی
آمدورفت سے ٹریفک کی روانی متاثر رہتی ہے۔ اشرف روڈ‘ رام پورہ گیٹ اور پیپل
منڈی سے تھوک کا کاروبار شہر سے باہر کسی ایسے باسہولت مقام پر منتقل ہونا
چاہئے‘ جسے نہ صرف چاردیواری سے محفوظ کیا گیا ہو بلکہ وہاں پارکنگ اور
دور دراز علاقوں سے آنے والے خریداروں کے قیام و طعام کی سہولیات بھی میسر
ہوں۔ اس قسم کا بندوبست و غیرمعمولی انتظام کی توقع صرف اور صرف ’پاکستان
تحریک انصاف‘ کی موجودہ صوبائی حکومت ہی سے کی جا سکتی ہے جس کی قیادت ماضی
کی دیگر جماعتوں کے مقابلے سیاسی و ذاتی مفادات کو سب سے کم ترجیح دیتی
ہے۔ خیبرپختونخوا کی کسی بھی سیاسی دور حکومت سے موازنہ کرلیجئے موجودہ
صوبائی کابینہ میں متوسط آمدنی والے طبقات کی اِس قدر نمائندگی کبھی دیکھنے
میں نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) کی ’تحریک انصاف‘ سے بڑی
توقعات وابستہ ہیں۔ پشاور شہر کی حدود سے اجناس کی ’تھوک و پرچون منڈیوں
اُور گوداموں‘ کی منتقلی سے سیکورٹی خدشات بھی کم ہو جائیں گے۔ ہرسال خصوصی
ایام کے موقع پر تجارتی مراکز بند کرانے کے معمول سے شہر کی تھوک کاروباری
سرگرمیاں متاثر نہیں ہوں گی اور دور دراز علاقوں سے آنے والوں کو بھی کوفت
کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ بالخصوص ماہ محرم اور ماہ ربیع الاوّل
کے مواقعوں پر جب پشاور شہر کے سبھی داخلی اور خارجی راستوں کو بند (سیل)
کر دیا جاتا ہے تو اس سے تھوک کا کام کرنے والے تاجر و دکاندارسب سے زیادہ
متاثر ہوتے ہیں اور ان سے وابستہ یومیہ اُجرت پانے والے ملازمین بھی روزگار
کے کئی کئی روز تک نہ ہونے سے الگ پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ سیکورٹی خدشات
کا حل اپنی جگہ لیکن پشاور کے رہائشی علاقوں سے تجارتی سرگرمیاں الگ کرنے
اور منڈیوں و گوداموں کو بیرون شہر منتقل کرنا ’خوش آئند‘ ثابت ہوگا۔
خوش آئند اُور قابل ذکر و صدشکر امر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ’ٹیکنالوجی‘ سے خائف نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ سولہ دسمبر کے روز ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملے کے بعد تعلیمی اِداروں کی سیکورٹی کے لئے انٹرنیٹ کے وسائل سے استفادہ بطور حکمت عملی کیا جائے گا۔ اِس سلسلے میں سماجی رابطہ کاری کے چند وسائل فیس بک (Facebook)‘ واٹس ایپ (What\'s App) سکائپ (Skype)‘ اُور ’وائبر (Viber)‘ کے ذریعے پولیس سے رابطہ کاری ممکن بنانے کے لئے موبائل فون میں استعمال ہونے والا ایک سافٹ وئر (Application) تخلیق کرایا گہا ہے جو ’اِینڈرائرڈ (Android)‘ فونز پر کام کرے گا‘ یہ سہولت تمام تعلیمی اداروں کے منتظمین کو دی جائے گی‘ جو کسی ہنگامی صورتحال میں صرف ایک ’بٹن‘ دبا کر ’آن کی آن میں‘ ضلعی پولیس کے کنٹرول روم‘ قریب ترین پولیس اسٹیشنوں اور خیبرپختونخوا پولیس کے پشاور میں قائم مرکزی دفاتر کو آگاہ کرسکیں گے۔ یہ سافٹ وئر خودکار انداز میں ’ایس ایم ایس پیغام‘ اور فون کال کے ذریعے جملہ پولیس اہلکاروں کو کسی ہنگامی صورتحال کے بارے میں مطلع کرے گا‘ جس میں ’گلوبل پوزیشننگ سیٹلائیٹ (GPS)‘ کے کوآرڈینیٹس (six figures) بھی شامل ہوں گے تاکہ زمینی یا فضائی مدد کے لئے پہنچنے والوں کو مقام کی تلاش میں دقت نہ ہو۔
خیبرپختونخوا پولیس سربراہ ناصر خان درانی جس انداز سے ’پولیس فورس‘ میں نئی روح ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اُس پر بھروسہ کرتے ہوئے درخواست ہے کہ ’بھتہ خوری اور اَغوأ برائے تاوان‘ جیسی منظم وارداتیں کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں سے نمٹنے کے بھی ایک ایسی ہی سہولت متعارف کرائیں اور چاہیں تو اس کی ایک مناسب ماہانہ قیمت (فیس) بھی مقرر کردیں جو پشاور کی تاجر برادری بخوشی ادا کرے گی لیکن اِس بات کی ضمانت ہونی چاہئے کہ اگر کسی کو پولیس کی مدد درکار ہو‘ تو وہ گھنٹوں کی بجائے چند منٹوں میں پہنچ جائے۔ چونکہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے لہٰذا ہر عمر کے صارفین کے لئے دوستانہ (user friendly) سافٹ وئر تخلیق کیا جائے جس کے کم ازکم چھ حصے ہوں اور انہیں مختلف رنگوں سے نمایاں کیا گیا ہو۔ جیسا کہ دہشت گردی (سرخ)‘ بھتہ خوری(سبز)‘ اغوأ(نیلا)‘ ڈکیتی(پیلا)‘ آتشزدگی (خاکی) اور عمومی جرائم (کالا)۔ تجرباتی طور پر پشاور کی سطح پر اِس سافٹ وئر کو متعارف کرایا جائے تو بعدازاں خامیاں (Debugging) کرنے کے بعد اِسے پورے صوبے میں پھیلا دیا جائے۔ دہشت گرد انٹرنیٹ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی ناک میں دم کئے ہوئے یقیناًخیبرپختونخوا پولیس کی ذہانت اُن کے سر میں درد کا مؤجب بنے گی اُور اہل پشاور اطمینان محسوس کریں گے کہ وہ جرائم پیشہ گروہوں اور دہشت گردوں کے رحم وکرم پر نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے چوکس‘ مستعد اور محض ایک بٹن دبانے جیسی ’دوری‘ پر ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوش آئند اُور قابل ذکر و صدشکر امر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ’ٹیکنالوجی‘ سے خائف نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ سولہ دسمبر کے روز ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملے کے بعد تعلیمی اِداروں کی سیکورٹی کے لئے انٹرنیٹ کے وسائل سے استفادہ بطور حکمت عملی کیا جائے گا۔ اِس سلسلے میں سماجی رابطہ کاری کے چند وسائل فیس بک (Facebook)‘ واٹس ایپ (What\'s App) سکائپ (Skype)‘ اُور ’وائبر (Viber)‘ کے ذریعے پولیس سے رابطہ کاری ممکن بنانے کے لئے موبائل فون میں استعمال ہونے والا ایک سافٹ وئر (Application) تخلیق کرایا گہا ہے جو ’اِینڈرائرڈ (Android)‘ فونز پر کام کرے گا‘ یہ سہولت تمام تعلیمی اداروں کے منتظمین کو دی جائے گی‘ جو کسی ہنگامی صورتحال میں صرف ایک ’بٹن‘ دبا کر ’آن کی آن میں‘ ضلعی پولیس کے کنٹرول روم‘ قریب ترین پولیس اسٹیشنوں اور خیبرپختونخوا پولیس کے پشاور میں قائم مرکزی دفاتر کو آگاہ کرسکیں گے۔ یہ سافٹ وئر خودکار انداز میں ’ایس ایم ایس پیغام‘ اور فون کال کے ذریعے جملہ پولیس اہلکاروں کو کسی ہنگامی صورتحال کے بارے میں مطلع کرے گا‘ جس میں ’گلوبل پوزیشننگ سیٹلائیٹ (GPS)‘ کے کوآرڈینیٹس (six figures) بھی شامل ہوں گے تاکہ زمینی یا فضائی مدد کے لئے پہنچنے والوں کو مقام کی تلاش میں دقت نہ ہو۔
خیبرپختونخوا پولیس سربراہ ناصر خان درانی جس انداز سے ’پولیس فورس‘ میں نئی روح ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اُس پر بھروسہ کرتے ہوئے درخواست ہے کہ ’بھتہ خوری اور اَغوأ برائے تاوان‘ جیسی منظم وارداتیں کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں سے نمٹنے کے بھی ایک ایسی ہی سہولت متعارف کرائیں اور چاہیں تو اس کی ایک مناسب ماہانہ قیمت (فیس) بھی مقرر کردیں جو پشاور کی تاجر برادری بخوشی ادا کرے گی لیکن اِس بات کی ضمانت ہونی چاہئے کہ اگر کسی کو پولیس کی مدد درکار ہو‘ تو وہ گھنٹوں کی بجائے چند منٹوں میں پہنچ جائے۔ چونکہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے لہٰذا ہر عمر کے صارفین کے لئے دوستانہ (user friendly) سافٹ وئر تخلیق کیا جائے جس کے کم ازکم چھ حصے ہوں اور انہیں مختلف رنگوں سے نمایاں کیا گیا ہو۔ جیسا کہ دہشت گردی (سرخ)‘ بھتہ خوری(سبز)‘ اغوأ(نیلا)‘ ڈکیتی(پیلا)‘ آتشزدگی (خاکی) اور عمومی جرائم (کالا)۔ تجرباتی طور پر پشاور کی سطح پر اِس سافٹ وئر کو متعارف کرایا جائے تو بعدازاں خامیاں (Debugging) کرنے کے بعد اِسے پورے صوبے میں پھیلا دیا جائے۔ دہشت گرد انٹرنیٹ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی ناک میں دم کئے ہوئے یقیناًخیبرپختونخوا پولیس کی ذہانت اُن کے سر میں درد کا مؤجب بنے گی اُور اہل پشاور اطمینان محسوس کریں گے کہ وہ جرائم پیشہ گروہوں اور دہشت گردوں کے رحم وکرم پر نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے چوکس‘ مستعد اور محض ایک بٹن دبانے جیسی ’دوری‘ پر ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment