Monday, December 29, 2014

Dec2014: Education Reforms

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِصلاح اَحوال: شعبۂ تعلیم
صوبائی حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا کے جملہ تعلیمی اداروں کی سرمائی تعطیلات میں اضافے سے والدین اور اساتذہ قدرے اطمینان محسوس کر رہے ہیں لیکن ’پندرہ جنوری‘ کے بعد کیا ہوگا‘ جبکہ میدانی علاقوں میں زیادہ تر سرکاری و نجی ادارے پھر سے معمول کے مطابق تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کر دیں گے۔ اِنہی سطور کے ذریعے (انتہائی درمندی کے ساتھ) اَرباب اختیار تک مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں میں پائی جانے والی تشویش پہنچائی گئی تھی کہ تعلیمی اداروں کی تعطیلات میں توسیع کی جائے لیکن یہ توسیع ’بامقصد‘ ہونی چاہئے یعنی ہر سکول کے حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے ایسا ’خصوصی سیکورٹی پلان‘ ترتیب و تشکیل دیا جائے جس میں والدین سے مشاورت بھی شامل ہو‘ کیونکہ والدین و سرپرست یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ماہانہ فیسوں اور دیگر اخراجات کے لئے رقومات کا تقاضا کرنے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی! والدین بالخصوص دانشور طبقات کی جانب سے فی زمانہ درس و تدریس کے معیار پر بھی سوال اُٹھائے گئے اور تقاضا کیا گیا کہ اِس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ’نجی و سرکاری سکولوں‘ کے معیار تعلیم‘ معیار تربیت‘ ہم نصابی سرگرمیوں کے لئے فراہم کردہ سہولیات اور اساتذہ کی اہلیت و کارکردگی سمیت کئی ایسے ضمنی موضوعات پر بات چیت کی جائے‘ جس پر عشروں سے بحث نہیں ہوئی تاکہ درس وتدریس سے وابستہ ہر کردار کو اپنے گریبان میں جھانکنے کا موقع مل سکے۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ ’ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی‘ کے اغوأ کا مقدمہ نجی تعلیمی اداروں کے خلاف دائر کیا جائے‘ جنہوں نے مبینہ طور پر ’مٹھی گرم‘ ہونے کی وجہ سے بناء سہولیات‘ دو دو کمروں میں سکول قائم کرنے کی اجازت مرحمت فرما رکھی ہے۔ یاد رہے کہ ہمیں دو قسم کے خطرات کا سامنا ہے‘ ایک خطرہ بندوق‘ گولی اور بارود سے ہے اور دوسرا خطرہ ناقص معیار تعلیم سے لاحق ہے‘ اُور دونوں ہی کا تعلق ’زندگی و موت‘ سے ہے۔

کیا ہمارا مستقبل ایسے ہاتھوں میں محفوظ ہوسکتا ہے جن کے پاس تعلیمی اسناد تو ہوں لیکن اُنہیں نصابی کتب کے چند اسباق سے زیادہ کچھ یاد نہ ہو اور نہ ہی وہ بطور فرد معاشرے کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے خود پر عائد ذمہ داریوں و فرائض سے آگاہ ہوں؟ کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ سرکاری و نجی سکولوں میں ناکافی سہولیات کی وجہ سے ہزاروں طالبعلموں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے؟

ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات تو موجود ہیں لیکن سکولوں میں نہ تو کھیل کے میدان ہیں اور نہ ہی دیگر متعلقہ سہولیات۔ فی کلاس تیس سے چالیس بچوں کی بجائے 60سے 80 اور اوسطا فی جماعت 45 طالبعلم کہاں کا انصاف ہے؟ بناء لیبارٹری (عملی تجربہ گاہ) سائنس کے مضامین بھلا کیسے پڑھائے جا سکتے ہیں؟ بناء لائبریری (کتب خانہ) سکول کا تصور کیا ہو سکتا ہے؟ ایک کمرے میں دو اور تین تین درجات کے بچوں کو بیک وقت تعلیم دینے سے درس وتدریس کا مقصد کہاں تک حاصل ہوسکتا ہے؟ پینے کے صاف (فلٹرشدہ) پانی اور بیت الخلأ سمیت وہ کون کون سی بنیادی سہولیات ہیں‘ جو ہر سکول میں لازماً ہونی چاہیءں اور فی طالبعلم اِن سہولیات کی مقدار کیا ہونی چاہئے؟ یعنی اگر کسی سکول میں 100بچے ہیں تو اُن کے لئے پینے کا کس قدر پانی‘ بیت الخلأ کے کتنے کمرے‘ کھیلنے کے لئے کتنی جگہ (رقبہ)‘ کتنے کلاس رومز اور اُن کی لمبائی چوڑائی (سائز)کیا ہونا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ اس حوالے سے تمام تفصیلات قواعد میں درج ہیں‘ لیکن اُن پر عمل درآمد کرانے والے اپنے عہدوں سے جڑی ذمہ داریاں احسن انداز سے پوری نہیں کرتے۔ نجی سکولوں کے قواعد میں تدریسی معیار کے لئے اساتذہ کی جس کم سے کم اہلیت کا ذکر کیا گیا ہے‘ اُس حوالے سے والدین سخت تشویش اور ذہنی دباؤکا شکار ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عام آدمی بالخصوص والدین و سرپرستوں کو معلوم ہی نہیں کہ نجی سکولوں کے لئے طے شدہ قواعد کیا ہیں؟ داخلے سے لیکر فی کلاس فیس کی شرح اور سکول انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات کے درمیان اگر کوئی تناسب ہے تو وہ کیا ہے؟ بطور فیس ادا کرنے والے صارفین (طالب علموں کے والدین) کے حقوق کیا ہیں؟ اور اگر کوئی نجی یا سرکاری سکول انتظامیہ طے شدہ ضوابط پر عمل درآمد نہیں کر رہی تو اِیسی ’بے قاعدگی‘ کی اطلاع کسے‘ کہاں اور کس طرح دی جائے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے والدین کے کوائف حاصل کرنے کے بعد ’ریگولیٹری اتھارٹی‘ یا ’محکمہ تعلیم‘ کی جانب سے انفرادی یا اجتماعی طورپر (بذریعہ ذرائع ابلاغ) والدین کی رہنمائی کی جائے؟ سکولوں میں اطلاعاتی تشہیر (نوٹس بورڈز) کے ذریعے ’ریگولیٹری اتھارٹی‘ یا محکمۂ تعلیم کے دفاتر و ٹیلی فون نمبروں کے بارے میں والدین کو آگاہ کیاجائے؟ شہری علاقوں میں اِی میل اور ویب سائٹس جیسی سہولیات سے استفادہ کیا جائے؟ ہر سکول کے لئے لازم قرار دیا جائے کہ وہ والدین کی جانب سے ’فیڈ بیک(feedback)‘ داخل دفتر کرائے۔ محکمۂ تعلیم کی جانب سے ایک ایمرجنسی ٹیلی فون لائن کے ذریعے موبائل یا لینڈ لائن فون سے مفت (ٹول فری) کال کے ذریعے والدین‘ سرپرست یا کوئی بھی شخص کسی بے قاعدگی یا ہنگامی حالات کی اطلاع کر سکے؟ اگر نجی سکول کم تنخواہیں‘ ٹیکس چوری‘ اضافی ماہانہ فیسیں یا غیرضروری چارجز وصول کرکے والدین کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں تو کیا تعلیم کو ’کاروبار‘ بنانے والوں کا بلاامتیاز اِحتساب نہیں ہونا چاہئے؟ اگر تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو حسب کاغذات (اکاونٹس میں درج) ماہانہ تنخواہیں نہیں دی جارہیں تو وہ اِس استحصال سے متعلقہ حکام کو کس طرح مطلع کریں؟ ایسے کتنے سکول ہیں جنہیں کلی یا جزوی طور پر غیرملکی امداد حاصل ہو رہی ہے‘ کیا اِس ملکی امداد کا مصرف درست انداز میں ہورہا ہے؟ کہیں یہ غیرملکی امداد کسی خاص نوعیت کی نصابی سرگرمی سے مشروط تو نہیں؟ ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی‘ محکمہ تعلیم اور ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ و ادنی ملازمین کے کوائف الگ سے مرتب ہونے چاہیءں‘ سرکاری ملازمین کے بچے لازمی طور پر سرکاری سکولوں ہی میں زیرتعلیم ہوں تبھی اِن سکولوں کا معیار بہتر ہوسکتا ہے۔ فی الوقت جن سرکاری ملازمین کے بچے نجی سکولوں میں زیرتعلیم ہیں اور انہیں ماہانہ ٹیوشن فیسیوں یا دیگر اخراجات میں ’خاص رعایت‘ یا ’بالکل مفت‘ تعلیم دی جا رہی ہے تو ایسے افراد کی الگ فہرست ہوں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کہیں اختیارات کے عوض سودے بازی تو نہیں کی گئی! یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ سرکاری ملازمین اپنی ماہانہ تنخواہوں کے تناسب سے کئی گنا زیادہ اگر اندرون و بیرون ملک بچوں کی تعلیم و قیام پر خرچ کر رہے ہیں تو اُن کے دیگر ذرائع آمدن کیا ہیں! یقیناًیہ وقت ’تعطیلات کا دانشمندانہ استعمال کرتے ہوئے بہت سے اُدھورے کام پورے کرنے کا ہے۔‘ اگر درس و تدریس کے نظام کو دہشت گردوں سے خطرات لاحق ہیں تو اس سے کئی گنا زیادہ خطرہ اُس کاروباری سوچ سے بھی ہے‘ جس نے تعلیم و تربیت کے عمل سے ’روح کو الگ‘ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہری و دیہی علاقوں میں یکساں طور پر ٹیوشن سنٹروں کی رونقیں دیدنی ہیں۔ کیا آپ کسی ایسے نجی سکول کا نام جانتے ہیں جہاں کے اساتذہ طالبعلموں کو اِس طرح پڑھاتے ہوں کہ اُنہیں سکول سے واپسی پر مزید کئی گھنٹے ٹیوشن سنٹروں سے رجوع نہ کرنا پڑے؟ (یقیناًایسے باضمیر اَفراد کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہوں گے۔)

 اَفسوس صد افسوس کہ ایک طرف مالکان کی تجارتی سوچ ہے تو دوسری جانب اساتذہ کی ایک غیرمعمولی تعداد ’اَفراتفری کے اِس ماحول‘ سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ سولہ دسمبر کے شہید بچوں کی اَرواح کے لئے اِس سے بڑھ کر ’خراج و اظہار عقیدت‘ بھلا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے ہاں ’نظام تعلیم‘ کی اِصلاح کرلیں!

No comments:

Post a Comment