ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
لب لباب: محسوساتِ پشاور
لب لباب: محسوساتِ پشاور
سولہ دسمبر کے ’پشاور سانحے‘ کی ایک سے بڑھ کر ایک دلخراش حقیقت سامنے آ
رہی ہے۔ صدر کے معروف تاجر خاندان کا سوگ تیرہویں دن میں داخل ہوچکا تھا
لیکن غم کی کیفیت برقرار تھی۔ تعزیت کے لئے آنے والوں کاتانتا بندھا ہوا
تھا۔ اہل پشاور (ہندکووان خاندانوں) کے ہاں مرحومین کے لئے چالیس روز تک ہر
جمعرات (ہفتہ وار) خصوصی دعائیہ محافل کا انعقاد ہوتا ہے۔ اِس عرصے میں
(چہلم تک) خواتین ہفتے میں کم از کم تین مرتبہ (پیر‘ بدھ اور ہفتہ) سوگوار
اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتی ہیں۔ چہلم کے بعد ہر جمعرات کے روز آذان مغرب
سے قبل فاتحہ اور ایصال ثواب کے لئے باقاعدگی سے قرآن خوانی‘ ذکر اذکار
اور محافل میلاد کا انعقاد بھی پرملال ایام کا حصہ ہوتے ہیں تاہم یہ رسومات
چند ایک خاندانوں تک ہی محدود رہ گئیں ہیں اور اِن پر عمل کرنے والے یا
اِن کا قریب سے مشاہدہ کرنے والی شاید ہم آخری نسل ہوں!مادی ترجیحات کے
زمانے میں تعزیت بذریعہ اِی میل‘ سکائپ‘ وائبر‘ واٹس ایپ‘ ایس ایم ایس یا
انٹرنیٹ کے دیگر اسلوب (ٹیکنالوجی کے ذریعے) ہونے لگا ہے‘ یہ جدت دل سے نہ
سہی لیکن بڑی حد تک قبول کر لی گئی ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں خوشی
اور غم کے مواقعوں پر پائی جانے والی ’اپنائیت‘ بھی رفتہ رفتہ معدوم ہوتی
چلی جا رہی ہے۔ ہم حقیقی زندگی کو مصنوعی انداز سے معنویت دینے کی کوشش میں
اپنے وجود‘ اپنی ثقافت اور اپنے اجداد کی فہم و فراست سے مرتب کردہ روایات
کو ایک ایک کر کے گنوا رہے ہیں جن کا بنیادی مقصد (اور تخیل) ہمیں ایک
دوسرے سے جوڑے رکھنا تھا۔
پشاور صدر کا معروف تاجر خاندان جس کرب سے گزر رہا ہے‘ اُسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ تین بھائیوں میں سے دو کے ہاں نرینہ اولاد ہوئی اور وہ دونوں ہم عمر چچازاد جوان بیٹے ’آرمی پبلک سکول‘ میں شہید کر دیئے گئے۔ ’’اتنا تو جانتا ہوں کہ اب تیری آرزو۔۔۔ بیکار کر رہا ہوں‘ اگر کر رہا ہوں میں!‘‘ وہ خاندان جس کی کوئی نرینہ اُولاد باقی نہیں رہی‘ وہاں آنسوؤں اور سسکیوں کے ساتھ ہر آنے والے کا استقبال ہو رہا تھا۔ گھر سے متصل خالی پلاٹ میں شامیانہ لگایا گیا تھا‘ جس کی سرخ چھت سے منعکس ہو روشنی پورے ماحول پر سرخی مائل روشنی کو حاوی کئے ہوئے تھی۔ دائرے کی شکل میں کرسیاں اور درمیان میں انگھیٹی کے قریب میز پر قہوے کی پیالیاں سلیقے اور ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں۔ اہل پشاور کے ہاں مہمان نوازی کا خاص خیال حزن وملال میں بھی رکھا جاتا ہے‘ اشرافیہ و خواص ہی نہیں بلکہ متوسط طبقات کے ہاں بھی مہمانوں کی تواضع کرنا رکھ رکھاؤ اور ایک دوسرے کے لئے احترام کا پاکیزہ اظہار ہے۔ تعزیت کے لئے آنے والے دونوں ہاتھ اُٹھا کر فاتحہ خوانی کرتے پھر چند منٹ خاموش بیٹھنے یا رسمی حال احوال دریافت کرنے کے بعد رخصت لیتے رہے۔ جو خود رخصت نہ لیتے اُنہیں اہل خانہ بھیگی آنکھوں سے درخواست کرتے کہ ’’آپ کی حاضری بصدشکریہ قبول ہے۔‘‘
اَٹھائیس دسمبر ہی کے دن نویں جماعت کے طالب علم اُس شہید کی ’پندرہویں سالگرہ‘ کا دن بھی سوگوار گزرا۔ بھائی بہنوں اور عزیزواقارب نے پہلے ہی سے تحائف خرید رکھے تھے! یونیورسٹی ٹاؤن کے مضافاتی علاقے راحت آباد کا رہائشی ’طوریالے خاندان‘ غم سے نڈھال ہے۔ ’آذان طوریالے‘ کے بڑے بھائی ’حسن‘ کے مطابق ’’اِس سال ہم نے آذان کی سالگرہ مختلف انداز میں منانے کا فیصلہ کیا تھا اور تیاریوں سے اُسے بے خبر بھی رکھا تاکہ اچانک پارٹی (سرپرائز) کی صورت اُسے حیران کرسکیں۔ آذان کی بہن امان سہیل اِس ذکر پر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی کہ ’’ہم نے سالگرہ کا کیک‘ موم بتیاں اور رنگارنگ تقریب کے لئے کیا کچھ سوچ رکھا تھا۔‘‘ آذان کو گھڑی اور خوشبوئیات (پرفیومز) جمع کرنے کا شوق تھا اور اِس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اہل خانہ اور قریبی عزیزوں نے باہمی مشاورت سے ہفتوں پہلے ہی خریداری کر رکھی تھی! حسن اپنے بھائی کی سالگرہ والے دن اتنا ہی اُداس دکھائی دیا‘ جتنا کہ اُسے خوش ہونا چاہئے تھا!
آذان ایک سلجھا ہوا لڑکا تھا۔ وہ ہم نصابی سرگرمیوں میں خاص دلچسپی لیتا اُور پڑھائی کے ساتھ کھیل کود میں بھی پہلی کلاس ہی سے پوزیشن ہولڈر تھا۔ اُس کے کمرے کا وہ کونا بطور یادگار عزیزوں کودکھایا جاتا ہے جہاں درجنوں ٹرافیاں اور میڈلز رکھے ہوئے ہیں۔ درازقد‘ چست‘ چوڑی چھاتی اور بڑی آنکھوں والے روشن چہرے پر بکھری مسکراہٹ والی تصاویر‘ چند کتابیں اور زیراستعمال دیگر چیزیں بھی قریبی الماری میں تبرکات کی طرح رکھ دی گئیں تھیں‘ جہاں شاید وہ ہمیشہ اسی حالت پڑی رہیں‘ اور اہل خانہ کو آذان کی آس پاس موجودگی کا جواز بنی رہیں!
دو سوگوار خاندانوں کے ساتھ چند گھنٹے بسر کرنے اور آج کے دن ’’پشاور کو محسوس‘‘ کرنے کا لب لباب یہ نہیں کہ ’’پھولوں کا شہر صرف مغموم و سوگوار ہے‘‘ بلکہ ’’پشاور ایک عظیم قربانی کے نتیجے میں جاگ اُٹھا ہے۔‘‘ سوال اُٹھ رہے ہیں کہ کیا بطور صحافی آپ دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ ’پاکستانیوں کی اکثریت دہشت گردی سے بیزار ہے؟ کیا آپ ہمارے حکمرانوں تک یہ بات پہنچا سکتے ہیں کہ اُن کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ عام لوگوں بھگتنا پڑ رہا ہے؟ کیا آپ ہماری فوجی قیادت کے گوش گزار کر سکتے ہیں کہ ہمیں امن چاہئے اور پاکستان کے نظریاتی و جغرافیائی کے دشمنوں سے کسی بھی صورت رعائت نہیں ہونی چاہئے؟‘ اہل پشاور شکرگزار دکھائی دے رہیں جنہیں قربانیوں پر فخر ہے۔ جنہیں نظر آ رہا ہے کہ اُن کے بچوں کے لہو سے ایک نئی تاریخ‘ ایک نئے پاکستان کا مستقبل رقم ہو رہا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے لیکن ’مشکل کشاؤں‘ کو اصل سبب یعنی ’انتہاء پسندی‘ پر بھی نگاہ کرنی ہوگیجس کا نتیجہ باطل نظریات کے تحت بعدازاں مسلح جدوجہد کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ قومی سلامتی کے لئے داخلی استحکام اور محاذ در محاذ جدوجہد کرنے میں اُن سیاسی کرداروں کو بھی ’بے نقاب‘ کرنے اور کیفرکردار تک پہنچایا جائے جن کے ذاتی و سیاسی مفادات کے سبب غربت و جہالت بڑھی۔
عام آدمی کا مطالبہ ہے کہ ’’قومی سلامتی کی حکمت عملی‘‘ میں اِس بات کو شامل کیا جائے کہ ’’اصل غدار‘‘ وہ ہے جو مالی و انتظامی اَمور میں خیانت و بددیانتی میں ملوث ہے۔ جس نے سیاست کو پیشہ اور اختیارات کو تعصب و امتیازات اور اقرباء پروری کے لئے استعمال کیا‘ جس نے پاکستان کے آئین کی توہین کی‘ جس نے حلفیہ عہد کرکے بھی جھوٹ بولا۔ جس نے قانون کو جوتے کی نوک اور انصاف تک رسائی کے عمل کو بے معنی بناکر رکھ دیا۔ کیا وہ سبھی کردار رعائت کے مستحق ہیں جنہوں نے ٹیکس چوری اور آمدنی کے مشکوک ذرائع سے بیرون ملک اثاثے بنائے؟ دوغلی شخصیات اور دوغلی شہریت حاصل کرنے بے ضمیروں سے نجات حاصل کی جائے۔ پاکستان کے مالی وسائل پر اپنی نسلیں بیرون ملک پروان چڑھانے والوں سے بھی معاملہ کیا جائے۔ ہمیں ایسے خودغرض‘ لالچی اور نام نہاد رہنماؤں‘ کی قطعی کوئی ضرورت نہیں جن کی حرص و طمع نے جنت النظیر پاکستان کو مثل جہنم بلکہ اِس سے بھی بدتر بنادیا ہے!
پشاور صدر کا معروف تاجر خاندان جس کرب سے گزر رہا ہے‘ اُسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ تین بھائیوں میں سے دو کے ہاں نرینہ اولاد ہوئی اور وہ دونوں ہم عمر چچازاد جوان بیٹے ’آرمی پبلک سکول‘ میں شہید کر دیئے گئے۔ ’’اتنا تو جانتا ہوں کہ اب تیری آرزو۔۔۔ بیکار کر رہا ہوں‘ اگر کر رہا ہوں میں!‘‘ وہ خاندان جس کی کوئی نرینہ اُولاد باقی نہیں رہی‘ وہاں آنسوؤں اور سسکیوں کے ساتھ ہر آنے والے کا استقبال ہو رہا تھا۔ گھر سے متصل خالی پلاٹ میں شامیانہ لگایا گیا تھا‘ جس کی سرخ چھت سے منعکس ہو روشنی پورے ماحول پر سرخی مائل روشنی کو حاوی کئے ہوئے تھی۔ دائرے کی شکل میں کرسیاں اور درمیان میں انگھیٹی کے قریب میز پر قہوے کی پیالیاں سلیقے اور ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں۔ اہل پشاور کے ہاں مہمان نوازی کا خاص خیال حزن وملال میں بھی رکھا جاتا ہے‘ اشرافیہ و خواص ہی نہیں بلکہ متوسط طبقات کے ہاں بھی مہمانوں کی تواضع کرنا رکھ رکھاؤ اور ایک دوسرے کے لئے احترام کا پاکیزہ اظہار ہے۔ تعزیت کے لئے آنے والے دونوں ہاتھ اُٹھا کر فاتحہ خوانی کرتے پھر چند منٹ خاموش بیٹھنے یا رسمی حال احوال دریافت کرنے کے بعد رخصت لیتے رہے۔ جو خود رخصت نہ لیتے اُنہیں اہل خانہ بھیگی آنکھوں سے درخواست کرتے کہ ’’آپ کی حاضری بصدشکریہ قبول ہے۔‘‘
اَٹھائیس دسمبر ہی کے دن نویں جماعت کے طالب علم اُس شہید کی ’پندرہویں سالگرہ‘ کا دن بھی سوگوار گزرا۔ بھائی بہنوں اور عزیزواقارب نے پہلے ہی سے تحائف خرید رکھے تھے! یونیورسٹی ٹاؤن کے مضافاتی علاقے راحت آباد کا رہائشی ’طوریالے خاندان‘ غم سے نڈھال ہے۔ ’آذان طوریالے‘ کے بڑے بھائی ’حسن‘ کے مطابق ’’اِس سال ہم نے آذان کی سالگرہ مختلف انداز میں منانے کا فیصلہ کیا تھا اور تیاریوں سے اُسے بے خبر بھی رکھا تاکہ اچانک پارٹی (سرپرائز) کی صورت اُسے حیران کرسکیں۔ آذان کی بہن امان سہیل اِس ذکر پر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی کہ ’’ہم نے سالگرہ کا کیک‘ موم بتیاں اور رنگارنگ تقریب کے لئے کیا کچھ سوچ رکھا تھا۔‘‘ آذان کو گھڑی اور خوشبوئیات (پرفیومز) جمع کرنے کا شوق تھا اور اِس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اہل خانہ اور قریبی عزیزوں نے باہمی مشاورت سے ہفتوں پہلے ہی خریداری کر رکھی تھی! حسن اپنے بھائی کی سالگرہ والے دن اتنا ہی اُداس دکھائی دیا‘ جتنا کہ اُسے خوش ہونا چاہئے تھا!
آذان ایک سلجھا ہوا لڑکا تھا۔ وہ ہم نصابی سرگرمیوں میں خاص دلچسپی لیتا اُور پڑھائی کے ساتھ کھیل کود میں بھی پہلی کلاس ہی سے پوزیشن ہولڈر تھا۔ اُس کے کمرے کا وہ کونا بطور یادگار عزیزوں کودکھایا جاتا ہے جہاں درجنوں ٹرافیاں اور میڈلز رکھے ہوئے ہیں۔ درازقد‘ چست‘ چوڑی چھاتی اور بڑی آنکھوں والے روشن چہرے پر بکھری مسکراہٹ والی تصاویر‘ چند کتابیں اور زیراستعمال دیگر چیزیں بھی قریبی الماری میں تبرکات کی طرح رکھ دی گئیں تھیں‘ جہاں شاید وہ ہمیشہ اسی حالت پڑی رہیں‘ اور اہل خانہ کو آذان کی آس پاس موجودگی کا جواز بنی رہیں!
دو سوگوار خاندانوں کے ساتھ چند گھنٹے بسر کرنے اور آج کے دن ’’پشاور کو محسوس‘‘ کرنے کا لب لباب یہ نہیں کہ ’’پھولوں کا شہر صرف مغموم و سوگوار ہے‘‘ بلکہ ’’پشاور ایک عظیم قربانی کے نتیجے میں جاگ اُٹھا ہے۔‘‘ سوال اُٹھ رہے ہیں کہ کیا بطور صحافی آپ دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ ’پاکستانیوں کی اکثریت دہشت گردی سے بیزار ہے؟ کیا آپ ہمارے حکمرانوں تک یہ بات پہنچا سکتے ہیں کہ اُن کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ عام لوگوں بھگتنا پڑ رہا ہے؟ کیا آپ ہماری فوجی قیادت کے گوش گزار کر سکتے ہیں کہ ہمیں امن چاہئے اور پاکستان کے نظریاتی و جغرافیائی کے دشمنوں سے کسی بھی صورت رعائت نہیں ہونی چاہئے؟‘ اہل پشاور شکرگزار دکھائی دے رہیں جنہیں قربانیوں پر فخر ہے۔ جنہیں نظر آ رہا ہے کہ اُن کے بچوں کے لہو سے ایک نئی تاریخ‘ ایک نئے پاکستان کا مستقبل رقم ہو رہا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے لیکن ’مشکل کشاؤں‘ کو اصل سبب یعنی ’انتہاء پسندی‘ پر بھی نگاہ کرنی ہوگیجس کا نتیجہ باطل نظریات کے تحت بعدازاں مسلح جدوجہد کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ قومی سلامتی کے لئے داخلی استحکام اور محاذ در محاذ جدوجہد کرنے میں اُن سیاسی کرداروں کو بھی ’بے نقاب‘ کرنے اور کیفرکردار تک پہنچایا جائے جن کے ذاتی و سیاسی مفادات کے سبب غربت و جہالت بڑھی۔
عام آدمی کا مطالبہ ہے کہ ’’قومی سلامتی کی حکمت عملی‘‘ میں اِس بات کو شامل کیا جائے کہ ’’اصل غدار‘‘ وہ ہے جو مالی و انتظامی اَمور میں خیانت و بددیانتی میں ملوث ہے۔ جس نے سیاست کو پیشہ اور اختیارات کو تعصب و امتیازات اور اقرباء پروری کے لئے استعمال کیا‘ جس نے پاکستان کے آئین کی توہین کی‘ جس نے حلفیہ عہد کرکے بھی جھوٹ بولا۔ جس نے قانون کو جوتے کی نوک اور انصاف تک رسائی کے عمل کو بے معنی بناکر رکھ دیا۔ کیا وہ سبھی کردار رعائت کے مستحق ہیں جنہوں نے ٹیکس چوری اور آمدنی کے مشکوک ذرائع سے بیرون ملک اثاثے بنائے؟ دوغلی شخصیات اور دوغلی شہریت حاصل کرنے بے ضمیروں سے نجات حاصل کی جائے۔ پاکستان کے مالی وسائل پر اپنی نسلیں بیرون ملک پروان چڑھانے والوں سے بھی معاملہ کیا جائے۔ ہمیں ایسے خودغرض‘ لالچی اور نام نہاد رہنماؤں‘ کی قطعی کوئی ضرورت نہیں جن کی حرص و طمع نے جنت النظیر پاکستان کو مثل جہنم بلکہ اِس سے بھی بدتر بنادیا ہے!
No comments:
Post a Comment