ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حالات کا تقاضا :بہ امر مجبوری ضرورت
حالات کا تقاضا :بہ امر مجبوری ضرورت
’صبر اُور حوصلہ رکھئے‘ جیسی تلقین سماعتوں پر چاہے جتنی بھی خوشگوار محسوس
ہو لیکن ان الفاظ کے بوجھ سے پشاور کے بڑے بڑے قدآوروں کی کمریں جھکی نظر
آئی ہیں۔ بظاہر آسان دکھائی دینے والے اعمال معنوی و عملی اعتبار سے کس قدر
گراں ہو سکتے ہیں‘ اس تلخ حقیقت کا ادراک ’سولہ دسمبر کے پشاور سانحے‘ میں
اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاشیں اُٹھانے والوں سے زیادہ کسے ہو سکتا ہے‘ جن
کی آنکھوں میں خون آلود چہرے سمائے ہوئے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ’آرمی پبلک
سکول پر ہوئے حملے کی یاد میں پھول‘ موم بتیوں‘ یاد آوری کے پیغامات‘
کارڈز‘ پلیکارڈز اور شہدأ کی چھوٹی بڑی تصاویر سے مزین ’یادگار‘ ازخود
ترتیب پا گئی ہے جہاں فاتحہ خوانی کرنے والے باوجود کوشش بھی خود پر ضبط
نہیں رکھ پاتے۔ گذشتہ بارہ برس کے دوران (نائن الیون کے بعد سے) یوں تو
پشاور نے کئی دکھ دیکھے لیکن سولہ دسمبر کا سانحہ دہشت گردی کے دیگر سبھی
واقعات پر بھاری ثابت ہوا ہے۔ ورسک روڈ پر ’دیوار گریہ‘ کے سامنے کھڑے ہو
کر دل کی اُداسی اور ’ماحول پر طاری سناٹے‘ کی ہیبت رُلا دیتی ہے! بقول
ریختہ: ’’اُداسی کا سبب میں کیا بتاؤں۔۔۔گلی کوچوں میں سناٹا بہت ہے!‘‘یہ
وہی ’مقتل‘ ہے جہاں بچوں کی چیخ و پکار سے درودیوار لرز اُٹھے تھے۔ جن بچوں
کو ذبح کیا گیا‘ اُن کے ہم جماعتوں نے بے بسی سے اپنا گلہ کٹنے کا انتظار
کیا ہوگا لیکن جبکہ آئندہ چند روز میں پشاور کے تعلیمی ادارے معمول کے
مطابق تدریسی عمل کا آغاز کرنے والے ہیں تو کیا اِس درجے کے حفاظتی
انتظامات کر لئے گئے ہیں‘ جس پر والدین کو اطمینان ہو‘ اُور اِس بات کو
سوفیصد یقینی بنا لیا گیا ہے کہ ’آرمی پبلک سکول‘ جیسا حملہ سانحہ
(خدانخواستہ) دوبارہ رونما نہیں ہوگا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تمام تر توجہ
پشاور کے بڑے اور معروف تعلیمی اِداروں پر مرکوز ہو اور سرکاری سکولوں کی
حفاظت دھیان ہی میں نہ ہو؟
سانحہ پشاور نے مقامی و غیرمقامی باسیوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ اہل پشاور کے ہاں اِس درجے ہمدردی کا اظہار کبھی دیکھنے میں نہیںآیا‘ اور یہی وجہ ہے کہ ہرخاص و عام صوبائی دارالحکومت کی حفاظتی حکمت عملی کے ’بظاہر خدوخال‘ دیکھتے ہوئے تشویش اور غیریقینی صورتحال میں مبتلا ہے۔ مثال کے طور پر ورسک روڈ اور اس کے اطراف میں وال چاکنگ کی گئی ہے کہ ’’اگر کسی شخص نے دیوار پھلانگنے کی کوشش کی‘ تو اُسے گولی مار دی جائے گی!‘‘ اُردو اور پشتو زبانوں میں اِس تحریر سے دہشت گرد یقیناًمرعوب نہیں ہوں گے کیونکہ خود کو ’فدائی‘ کہنے والوں کو اپنی زندگی کی پرواہ نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کی زندگیوں کے چراغ گل کرنے میں بھی تذبذب کا شکار نہیں ہوتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حملہ آور خودکش ہوتے ہیں اور انہیں محض ’وال چاکنگ‘ سے مرعوب یا روکا نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ’وال چاکنگ‘ سے اہل پشاور کو یہ تاثر دیا جاسکتا ہے کہ ’’وہ اب پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں!‘‘
آرمی پبلک سکول کی دیواروں کو بلند کیا جارہا ہے لیکن یہی کام پہلے کیوں نہیں کیا گیا؟ جب ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملہ کیا گیا تب اُس کی دیواریں اس قدر بلند نہ تھیں کہ انہیں عبور کرنے والوں کو زیادہ دقت ہوتی اور نہ ہی زنگ آلودہ آہنی کانٹے دار تاریں اِس حالت میں تھیں کہ وہ حملہ آوروں کو روک سکتیں۔ جس تعلیمی ادارے کو سولہ دسمبر سے تین ماہ قبل ہی ممکنہ حملے کے بارے میں مطلع کردیا گیا ہو‘ وہاں اختیار کی جانے والی ناقص حفاظتی تدابیر‘ درحقیقت مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتی ہے لیکن افسوس کہ اِس حوالے سے زیادہ بات نہیں کی جارہی۔ لاکھوں روپے ماہانہ منافع کمانے والے تعلیمی اِدارے اپنی حفاظت کے لئے کتنے مالی وسائل مختص کرتے ہیں‘ یا اُنہیں اپنی آمدنی کا کس قدر حصہ حفاظتی انتظامات بہتر بنانے پر خرچ کرنا چاہئے‘ اِس حوالے سے بھی غوروخوض نہیں ہورہا۔ چونکہ شعبہ تعلیم ایک کاروبار بن چکا ہے‘ اِس لئے اجارے پر حاصل کردہ سرکاری زمینوں پر قائم کئی ایک فوجی و غیر فوجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے یا بچانے کی فکر میں رہتی ہے۔ ایک ایساسکول جس میں ایک ہزار سے زائد بچے‘ تدریسی و دیگر معاون عملہ موجود رہتا ہو‘ وہاں چند افراد پر مبنی سیکورٹی‘ حفاظتی ترجیحات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آرمی پبلک سکول کے ہر بچے سے حفاظتی انتظامات (سیکورٹی چارجز)کے نام پر ماہانہ 120 روپے وصول باقاعدگی سے وصول کئے جاتے ہیں‘ اگر ایک ہزار بچوں میں سے 900 بچوں کی اوسط سے بھی حساب لگایا جائے تو ماہانہ ایک لاکھ روپے سے زائد کی رقم کسی بھی طرح معمولی نہیں ہوتی۔ اگر ’آرمی پبلک سکول‘ کی سیکورٹی پر سالانہ 12 لاکھ روپے خرچ کئے جاتے‘ تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ حملہ آور عقبی حصے سے داخل ہو کر آن کی آن میں پورے سکول پر قبضہ کرلیتے! موشن سنسرز (motion sensors) سکول کی دیوار پھلانگنے کی صورت نہ صرف آلارم بجا دیتے بلکہ متعلقہ تھانے‘ سکول انتظامیہ اور قریب ہی کورہیڈ کواٹر کو بھی خودکار نظام کے ذریعے انفرادی طور پر مطلع کردیا جاتا۔ اگر روائتی آہنی کانٹے دار تاروں کی بجائے ’نان لیتھل (barbwire) تاریں‘ بچھائی گئیں ہوتیں تو دیوار پھلانگنے کے اِمکان کو سوفیصد کم کیا جاسکتا تھا اور ایسا اب بھی ممکن ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے تعلیمی اِداروں یا حساس تنصیبات کے سیکورٹی پلان میں جب تک ٹیکنالوجی پر بھروسہ شامل نہیں کیا جائے گا‘ نیت‘ ارادوں‘ بیانات اور چند منظور نظر افراد کو ملازمتیں سونپنے سے خاطرخواہ بہتری نہیں آئے گی۔ جن والدین کے بچے یا تدریسی عملہ ’آرمی پبلک سکول‘ یا اس جیسے دیگر حساس و ممکنہ نشانے پر اِداروں سے وابستہ ہیں اُن کی تشویش منطقی اور دل کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ورسک روڈ پشاور پر کئی ایک دیگر نجی سکول بھی ایسے ہیں جہاں زیرتعلیم بچوں کی تعداد آرمی پبلک سکول سے کہیں گنا زیادہ ہے‘ ایسے تمام بلکہ جملہ تعلیمی اِداروں (بشمول سرکاری سکولوں) کے حفاظتی انتظامات پر نظرثانی حالات کا تقاضا اور بہ امر مجبوری ضرورت ہے۔ موسم سرما کی قبل ازوقت تعطیلات میں چند روز کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن پشاور کے تعلیمی ادارے اُس وقت تک نہ کھولے جائیں جب تک عمارت اور بچوں کی آمدروفت والی گاڑیوں کی حفاظت کے تسلی بخش انتظامات مکمل نہیں کر لئے جاتے۔
توقع یہ بھی ہے کہ ’فوج کے نام پر قائم ہونے والے اِدارے ’منافع‘ کی بجائے معیار تعلیم کی بہتری اور حفاظتی اِنتظامات کے لحاظ سے دیگر ہم عصروں سے ممتاز ہونے چاہیں۔‘
نجی اِداروں کے سیکورٹی گارڈز کی خدمات سے استفادہ کرنے کی بجائے حاضر سروس فوجیوں کو سیکورٹی ذمہ داریاں سونپنے کا اِس سے زیادہ موزوں وقت کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ علاؤہ ازیں تدریسی عمل فعال کرنے سے قبل ہرسکول کی سطح پر انتظامیہ و اساتذہ کے درمیان (پیرنٹس ٹیچرز) میٹنگ (برسبیل تذکرہ ملاقات) ہونی چاہئے اور سیکورٹی کے حوالے سے والدین کے مؤقف اور تشویش کو سنجیدگی سے سنا جائے۔ فوج کی زیرنگرانی تعلیمی اداروں میں والدین بالخصوص ’سول‘ افراد سے جس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے اُسے دیکھ کر ’اِیسٹ انڈیا کمپنی‘ کی یاد آتی ہے‘ جب انگریز بہادر ’’کتوں (dogs) اور انڈین (indians) کی آوازوں پر زیادہ کان نہیں دھرا کرتے تھے!‘‘
سانحہ پشاور نے مقامی و غیرمقامی باسیوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ اہل پشاور کے ہاں اِس درجے ہمدردی کا اظہار کبھی دیکھنے میں نہیںآیا‘ اور یہی وجہ ہے کہ ہرخاص و عام صوبائی دارالحکومت کی حفاظتی حکمت عملی کے ’بظاہر خدوخال‘ دیکھتے ہوئے تشویش اور غیریقینی صورتحال میں مبتلا ہے۔ مثال کے طور پر ورسک روڈ اور اس کے اطراف میں وال چاکنگ کی گئی ہے کہ ’’اگر کسی شخص نے دیوار پھلانگنے کی کوشش کی‘ تو اُسے گولی مار دی جائے گی!‘‘ اُردو اور پشتو زبانوں میں اِس تحریر سے دہشت گرد یقیناًمرعوب نہیں ہوں گے کیونکہ خود کو ’فدائی‘ کہنے والوں کو اپنی زندگی کی پرواہ نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کی زندگیوں کے چراغ گل کرنے میں بھی تذبذب کا شکار نہیں ہوتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حملہ آور خودکش ہوتے ہیں اور انہیں محض ’وال چاکنگ‘ سے مرعوب یا روکا نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ’وال چاکنگ‘ سے اہل پشاور کو یہ تاثر دیا جاسکتا ہے کہ ’’وہ اب پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں!‘‘
آرمی پبلک سکول کی دیواروں کو بلند کیا جارہا ہے لیکن یہی کام پہلے کیوں نہیں کیا گیا؟ جب ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملہ کیا گیا تب اُس کی دیواریں اس قدر بلند نہ تھیں کہ انہیں عبور کرنے والوں کو زیادہ دقت ہوتی اور نہ ہی زنگ آلودہ آہنی کانٹے دار تاریں اِس حالت میں تھیں کہ وہ حملہ آوروں کو روک سکتیں۔ جس تعلیمی ادارے کو سولہ دسمبر سے تین ماہ قبل ہی ممکنہ حملے کے بارے میں مطلع کردیا گیا ہو‘ وہاں اختیار کی جانے والی ناقص حفاظتی تدابیر‘ درحقیقت مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتی ہے لیکن افسوس کہ اِس حوالے سے زیادہ بات نہیں کی جارہی۔ لاکھوں روپے ماہانہ منافع کمانے والے تعلیمی اِدارے اپنی حفاظت کے لئے کتنے مالی وسائل مختص کرتے ہیں‘ یا اُنہیں اپنی آمدنی کا کس قدر حصہ حفاظتی انتظامات بہتر بنانے پر خرچ کرنا چاہئے‘ اِس حوالے سے بھی غوروخوض نہیں ہورہا۔ چونکہ شعبہ تعلیم ایک کاروبار بن چکا ہے‘ اِس لئے اجارے پر حاصل کردہ سرکاری زمینوں پر قائم کئی ایک فوجی و غیر فوجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے یا بچانے کی فکر میں رہتی ہے۔ ایک ایساسکول جس میں ایک ہزار سے زائد بچے‘ تدریسی و دیگر معاون عملہ موجود رہتا ہو‘ وہاں چند افراد پر مبنی سیکورٹی‘ حفاظتی ترجیحات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آرمی پبلک سکول کے ہر بچے سے حفاظتی انتظامات (سیکورٹی چارجز)کے نام پر ماہانہ 120 روپے وصول باقاعدگی سے وصول کئے جاتے ہیں‘ اگر ایک ہزار بچوں میں سے 900 بچوں کی اوسط سے بھی حساب لگایا جائے تو ماہانہ ایک لاکھ روپے سے زائد کی رقم کسی بھی طرح معمولی نہیں ہوتی۔ اگر ’آرمی پبلک سکول‘ کی سیکورٹی پر سالانہ 12 لاکھ روپے خرچ کئے جاتے‘ تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ حملہ آور عقبی حصے سے داخل ہو کر آن کی آن میں پورے سکول پر قبضہ کرلیتے! موشن سنسرز (motion sensors) سکول کی دیوار پھلانگنے کی صورت نہ صرف آلارم بجا دیتے بلکہ متعلقہ تھانے‘ سکول انتظامیہ اور قریب ہی کورہیڈ کواٹر کو بھی خودکار نظام کے ذریعے انفرادی طور پر مطلع کردیا جاتا۔ اگر روائتی آہنی کانٹے دار تاروں کی بجائے ’نان لیتھل (barbwire) تاریں‘ بچھائی گئیں ہوتیں تو دیوار پھلانگنے کے اِمکان کو سوفیصد کم کیا جاسکتا تھا اور ایسا اب بھی ممکن ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے تعلیمی اِداروں یا حساس تنصیبات کے سیکورٹی پلان میں جب تک ٹیکنالوجی پر بھروسہ شامل نہیں کیا جائے گا‘ نیت‘ ارادوں‘ بیانات اور چند منظور نظر افراد کو ملازمتیں سونپنے سے خاطرخواہ بہتری نہیں آئے گی۔ جن والدین کے بچے یا تدریسی عملہ ’آرمی پبلک سکول‘ یا اس جیسے دیگر حساس و ممکنہ نشانے پر اِداروں سے وابستہ ہیں اُن کی تشویش منطقی اور دل کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ورسک روڈ پشاور پر کئی ایک دیگر نجی سکول بھی ایسے ہیں جہاں زیرتعلیم بچوں کی تعداد آرمی پبلک سکول سے کہیں گنا زیادہ ہے‘ ایسے تمام بلکہ جملہ تعلیمی اِداروں (بشمول سرکاری سکولوں) کے حفاظتی انتظامات پر نظرثانی حالات کا تقاضا اور بہ امر مجبوری ضرورت ہے۔ موسم سرما کی قبل ازوقت تعطیلات میں چند روز کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن پشاور کے تعلیمی ادارے اُس وقت تک نہ کھولے جائیں جب تک عمارت اور بچوں کی آمدروفت والی گاڑیوں کی حفاظت کے تسلی بخش انتظامات مکمل نہیں کر لئے جاتے۔
توقع یہ بھی ہے کہ ’فوج کے نام پر قائم ہونے والے اِدارے ’منافع‘ کی بجائے معیار تعلیم کی بہتری اور حفاظتی اِنتظامات کے لحاظ سے دیگر ہم عصروں سے ممتاز ہونے چاہیں۔‘
نجی اِداروں کے سیکورٹی گارڈز کی خدمات سے استفادہ کرنے کی بجائے حاضر سروس فوجیوں کو سیکورٹی ذمہ داریاں سونپنے کا اِس سے زیادہ موزوں وقت کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ علاؤہ ازیں تدریسی عمل فعال کرنے سے قبل ہرسکول کی سطح پر انتظامیہ و اساتذہ کے درمیان (پیرنٹس ٹیچرز) میٹنگ (برسبیل تذکرہ ملاقات) ہونی چاہئے اور سیکورٹی کے حوالے سے والدین کے مؤقف اور تشویش کو سنجیدگی سے سنا جائے۔ فوج کی زیرنگرانی تعلیمی اداروں میں والدین بالخصوص ’سول‘ افراد سے جس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے اُسے دیکھ کر ’اِیسٹ انڈیا کمپنی‘ کی یاد آتی ہے‘ جب انگریز بہادر ’’کتوں (dogs) اور انڈین (indians) کی آوازوں پر زیادہ کان نہیں دھرا کرتے تھے!‘‘
No comments:
Post a Comment